• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ٹرمپ اور کم جونگ کی ملاقات کے اثرات

صدر ٹرمپ اور شمالی کوریا کے صدر کم کی ملاقات کے غیر معمولی اثرات عالمی سیاست ،بالخصوص ایشیاء پیسیفک کی صورت حال پر پڑنے کا امکان موجود ہے۔ اگر یہ معاملہ آگے نہ بھی بڑھ سکا تواس کے باوجود جنوبی کوریا اور جاپان میں یہ تصور بہ ہرحال ضرور پنپ جائے گا کہ امریکا کسی وقت بھی شمالی کوریا سے بہ راہ راست کوئی معاہدہ کر کے ان کو نئے حالات سے سمجھوتا کرنے کی جانب راغب کر سکتا ہے جو شاید ان کے موافق نہ ہوں۔ شمالی کوریا سے امریکا کے اختلافات کی تاریخ جنگ کوریا کے ساتھ ہی شروع ہو جاتی ہے۔ ان اختلافات کی وجہ سے اور مقامی حالات کے سبب جاپان کے تعلقات بھی شمالی کوریا کے ساتھ خراب رہے۔تاہم چین کے تعلقات شمالی کوریا کے ساتھ وقت کے ساتھ ساتھ اچھے ہوتے چلے گئےاور چوں کہ جاپان کے تعلقات چین کے ساتھ خراب تھے اس لیے جاپان شمالی کوریا سے مزید محتاط ہو گیا۔

چین نے شمالی کوریا کو اس حد تک سہارا دے رکھا ہے کہ شمالی کوریا کی اس وقت 80 فی صد تجارت چین سے ہو رہی ہے اور چین اسے سہارا دینے والا سب سے بڑا اتحادی بنا ہوا ہے۔تاہم چین ایٹمی حوالے سے شمالی کوریا کےموقف کا حامی نہیں ہے۔ شمالی کوریا کا یہ موقف ہے کہ امریکاکے جنوبی کوریا سے فوجی معاہدوں اور مشترکہ اقدامات کی وجہ سے شمالی کوریا کو ایٹمی ہتھیاروں اور بیلسٹک میزائلوں کے تجربات کی جانب بڑھنا پڑاہے۔ امریکا کے 32 ہزار فوجی جنوبی کوریا میں موجود ہیں اور امریکا بڑے پیمانے پر جنوبی کوریا کے ساتھ مل کر فوجی مشقیں کرتا رہتا ہے۔ امریکا نے جنوبی کوریا کو تحفظ فراہم کرنے کی غرض سے ایٹمی چھتری مہیا کر رکھی ہے۔ اب ظاہر سی بات ہے کہ جنوبی کوریا کے ساتھ اس نوعیت کی فوجی سرگرمیوں کا واحد ہدف شمالی کوریا ہی ہو سکتا ہے۔ چین بھی اس صورت حال پر شاکی ہے۔ شمالی کوریا کا موقف ہے کہ اسے ان اقدامات سے خطرہ ہے اس لیے وہ اپنے دفاع میںایٹمی اور میزائل سرگرمیاں کر رہا ہے۔

شمالی کوریا نے 1998میں اپنا بیلسٹک میزائل پروگرام شروع کیا تھا جس پر جاپان نے بہ جا طور پر تشو یش کا اظہار کیا اور بعد میں جاپانی وزیر اعظم نے شمالی کوریا کے موجودہ صدر کے والد ،جو اس وقت شمالی کوریا کے صدر تھے، سے ملاقات کی اور دونوں رہنمائوں نے فیصلہ کیاتھا کہ شمالی کوریا میزائل کے تجربات کے دوران اس امر کا خیال رکھے گا کہ جاپان کی سرزمین کو استعمال نہ کیا جائے۔ مگر 2006میں ہی شمالی کوریا کی جانب سے اس فیصلے کی خلاف ورزی کر دی گئی جس کی وجہ سے جاپان مزید تحفظا ت کا شکار ہو گیا۔ شمالی کوریا کے رہنما پہلے بھی امریکاسے بہ راہ راست گفتگو کے قائل تھے ،مگر امریکی صدور اس سے اجتناب برتتے رہے اور دن بہ دن ان کا رویہ شمالی کوریا کے حوالے سے سخت سے سخت تر ہوتا چلا گیا۔ صدر ٹرمپ نے بھی اپنے دور صدارت کے آغاز میں شمالی کوریا کے حوالے سے نہایت سخت لب و لہجہ اختیار کیاتھا جس کےجواب میں شمالی کوریا کے 34 سالہ صدر نے اس سے بھی زیادہ درشت لہجہ اختیار کیا بلکہ ایٹمی اسلحے کے استعمال کا بار بار ذکر بھی کیا۔

صدر ٹرمپ نے جب صدر کم سے ملاقات کے فیصلے کا اعلان کیا تو اس وقت یہ دونوں طرف سے اعصابی جنگ مزید شدت اختیار کر گئی۔ اس اعصابی جنگ کے دو ر ان ترپ کے پتے کے طور پر شمالی کوریا کے رہنما کو خوف زدہ کرنے کے لیے صدر ٹرمپ نے ملاقات کی منسوخی کی بات بھی کی۔ مگر اس سب کے باوجود شمالی کوریا اپنی جگہ سے ٹس سے مس نہ ہوا۔با لآخر سنگا پور میں گزشتہ ہفتے دونوں رہنمائوں کی ملاقات ہو گئی جس کے بعد صدر ٹرمپ نے صدر کم کے متعلق کہا کہ ان کی اور میری کیمسٹری ملتی ہے اور یہ کہ وہ ایک طاقت ور سربراہ ہیں۔

اس ملاقات کو مبصرین صدر کم کے لیے تحفہ قرار دے رہے ہیں کیوں کہ صدر ٹرمپ نے خود کہا کہ انہوں نے صدر کم کو دنیا میں Credibility دے دی ہے۔ پھر انہوں نے جنوبی کوریا کے ساتھ امریکی فوجی مشقوں کے خاتمے کی بھی بات کی جسے شمالی کوریا کے مطالبات میں بنیادی اہمیت حاصل ہے۔ شمالی کوریا کا دوسرا مطالبہ یہ ہے کہ جنوبی کوریا کو امریکی ایٹمی چھتری کے معاہدے سے الگ کیا جائے۔ صدر ٹرمپ نے یہ عندیہ بھی دیا کہ وہ جنوبی کوریا سے 32 ہزار امریکی فوجیوں کی واپسی چاہتے ہیں اور یہ کہ وہ 2020تک شمالی کوریا کے غیر ایٹمی ہو جانے کے خواہش مند ہیں۔یہ چین کے شمالی کوریا کے ایٹمی مسئلے کو حل کرنے کی تجویز جو Freez to Freez کے نام سے مشہور ہے، کی ہوبہو نقل ہے۔

اس چینی منصوبے میں بھی یہ کہا گیا تھا کہ شمالی کوریا اپنے ایٹمی اور میزائل تجربات کو روک دے اورامریکا جنوبی کوریا کے ساتھ اپنی جنگی مشقوں کو معطل کر دے۔ جنوبی کوریا اور جاپان اس صورت حال سے پریشان ہیں کیوں کہ موجودہ صورت میں ایشیاء پیسیفک میں چین کا پلڑا بھاری ہو جائے گا۔اس ملاقات کے بعد مائیک پومپیو نے جنوبی کوریا میں جاپان اور جنوبی کوریا کے وزرائے خارجہ کے ساتھ پریس کانفرنس میں کہا کہ شمالی کوریاسے اس وقت تک پابندیاں نہیں اٹھیں گی جب تک وہ مکمل طور پر غیر ایٹمی ملک نہیں بن جاتا۔ لیکن جب صدر ٹرمپ سے وائٹ ہائوس میں ایک امریکی نیوز چینل کے نمائندے نے پوچھا کہ آپ شمالی کوریا کے صدر سے کیوں ملے جن پر انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کا الزام ہے تو ٹرمپ نے فوراً کہا کہ تا کہ آپ کو ان کے ایٹمی ہتھیاروں اور میزائلوں سے محفوظ رکھ سکوں۔ اس بیان سے اندازہ ہوتا ہے کہ امریکا اس حوالے سے کتنی تشویش کا شکار ہے۔ تو پھر جاپان اور جنوبی کوریا کو کتنی تشویش ہو گی یہ بات سمجھ میں آجاتی ہے۔تاہم بہ ظاہر یہ ممکن نظر نہیں آتا کہ شمالی کوریا اپنے آپ کو غیر مسلح یعنی غیر ایٹمی اور میزائلوں سے پاک ملک بنا لے گا۔ 

تازہ ترین