غالب عرفان
چشم پوشی حیات سے کب تک؟
بے رخی اپنی ذات سے کب تک؟
رابطہ ہو، عوام سے ورنہ
دوستی شخصیات سے کب تک
دل کا آئینہ صاف ہو تو کہوں
رغبتیں واہیات سے کب تک
خرچ اپنا تو اپنے بس میں رہے
بڑھ کے اپنی بساط سے کب تک
آپ نقاد ہیں تو سچ لکھیں
کھیل یہ لفظیات سے کب تک
ہار تسلیم، ہو تو جرأت سے
ورنہ شرم، اپنی مات سے کب تک
اپنی پہچان کے تجسس میں
فاصلہ شہرِ ذات سے کب تک
راہِ عرفاں کا ہر سوال، مگر
ذات اور کائنات سے کب تک ؟
O۔۔۔O۔۔۔O