اسلام ایک کامل و مکمل دین اور ابدی ضابطۂ حیات ہے،یہ دینِ انسانیت ہے،اس کی تعلیمات پر عمل دین و دنیا کی کامیابی اورآخرت کی ابدی اور لافانی زندگی میں نجات اور فلاح کی ضمانت ہے۔اسلام میں تجارتی معاملات،اور معاشی سرگرمیوں میں انسانی ہمدردی،بنیادی ضروریات کی عدل ودیانت کے اصولوں پر تکمیل اور معاشی عدل کو بنیادی اہمیت حاصل ہے،اس کا معاشی نظام اور تجارتی اصول،معاشی عدل،عوام الناس کو نفع رسانی اور خیر خواہی کی تعلیم دیتے ہیں۔قرآنِ کریم میں ارشادِ ربّانی ہے:’’اے لوگو،جو ایمان لائے ہو،آپس میں ایک دوسرے کے مال باطل طریقوں سے نہ کھائو،مگر یہ کہ تجارت ہو تمہاری باہمی رضا مندی سے۔‘‘(سورۃ النساء/۲۹)
حافظ ابن کثیر اس آیت کے ضمن میں لکھتے ہیں: ’’اللہ تعالیٰ نے باطل طریقوں سے مال کھانے کی ممانعت فرمائی ہے، جیسے سود خوری، قمار بازی اور ایسے ہی ہر طرح کے ناجائز ذرائع، جن سے شریعت نے منع فرمایا ہے۔‘‘ (تفسیر ابنِ کثیر) حرام مال سے مراد صرف کھانا نہیں، بلکہ مال کا ناجائز استعمال اور اپنے تصرف میں لے آنا ہے۔ باطل سے مرادہے، ہر ناجائز طریقہ، جو عدل و انصاف، قانون اور سچائی کے خلاف ہو۔ اس کے تحت جھوٹ، خیانت، غصب، رشوت، سود، سٹہ، جوا، چوری اور معاملات کی وہ ساری قسمیں آتی ہیں، جنہیں اسلام نے ناجائز قرار دیا ہے۔
نبی اکرمﷺ نے افضل عمل حلال کمائی کے لیے جدوجہد کو قرار دیا ہے: ’’اعمال میں افضل حلال ذرائع سے کمانا ہے۔‘‘ (کنز العمال) اسی طرح آپﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’افضل ترین کمائی وہ تجارت ہے، جو خیانت اور جھوٹ سے پاک ہو اور انسان کا اپنے ہاتھ سے کام کرنا ہے۔‘‘ گویا کمائی کے لیے صرف اور صرف حلال راستہ اختیار کرو، کیوںکہ ملے گا تو وہی جو مقدر میں ہے، ہاں اگر حرام راستے سے یہی مقدر کا لکھا وصول کیا تو مستحق عذاب ہوگے۔ ایک اور مقام پر آپﷺ نے ارشاد فرمایا:’’لوگو!اللہ تعالیٰ سے ڈرو، کمائی میں شریعت کا خیال رکھو، جب تک کوئی بندہ اپنا پورا رزق حاصل نہ کر لے،اسے موت نہیں آتی۔‘‘(ابن ماجہ) اسی لیے حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ نے فرمایا تھا کہ رزق کے لیے مارے مارے نہ پھرو (یعنی حلال و حرام کی تمیز مٹا کر اور جائز اور ناجائز کا فرق مٹا کر رزق حاصل نہ کرو) کیوںکہ جو تمہارے حصے کا رزق ہے، وہ اگر پہاڑ کی چوٹی پر بھی ہوا تو بھی تم تک پہنچ کررہے گا۔ معاشرے میں ایک غلط سوچ یہ بھی ہے کہ آج کے دور میں حلال رزق کمانا ناممکن ہے،جب کہ ہمارے پیارے نبی ﷺ نے اس کے متعلق یوں فرمایا ہے،’’جس شخص نے پاک کمائی پرگزر کیا، میری سنت پرعمل کیا اور لوگوں کو اپنے شر سے محفوظ رکھا،وہ بہشت میں داخل ہوگا۔لوگوں نے عرض کیا۔یارسول اللہﷺ اس زمانے میں ایسے لوگ بکثرت ہیں۔آپ ﷺنے فرمایا:میرے بعد بھی ایسے لوگ ہوں گے۔(ترمذی) مطلب یہ کہ ہر دور میں ایسے نیک لوگ ہوں گے تو پھر کیوں نہ ہم بھی جنت کے حق دار بنیں اور اگر یہ راستہ چھوڑ کر حرام کی راہ اپنائی تو یاد رکھیں’’ہر وہ جسم جو حرام پر پلا ہو، اس کے لیے بہترین ٹھکانہ آگ (جہنم) ہے۔
آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا:ایک شخص طویل سفر طے کرتا ہے،اس کا حال یہ ہے کہ بال مٹی سے اٹے ہوئے ہیں،پائوں غبار آلود ہیں اور وہ اپنے ہاتھ آسمان کی طرف اٹھا کر دعا کرتا ہے، لیکن اس کا کھانا حرام،اس کا پینا حرام،لباس حرام اور حرام کما کر ہی وہ پلا ہے تو ایسے شخص کی دعا کیوںکر قبول ہوگی؟(مسلم و ترمذی)
حرام مال سے جو بھی صدقہ و خیرات کیا جائے،وہ نہ تو مال کو حلال کرتا ہے اور نہ ہی ایسی نیکی قبول ہوتی ہے۔’’بندہ حرام مال کما کر جو صدقہ کرتا ہے،وہ قبول نہیں کیا جاتا،اس میں سے جو کچھ وہ خرچ کرتا ہے،اس میں برکت نہیں ہوتی اور جو اپنے پیچھے چھوڑ جاتا ہے،وہ جہنم کے لیے زادِ راہ بن جاتا ہے۔حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ بدی کو بدی سے نہیں مٹاتا،بلکہ بدی کو نیکی سے مٹاتا ہے۔گندگی گندگی کو نہیں مٹاتی۔‘‘(مسندِ احمد)
آپﷺ نے سچے اور ایمان دار تاجروں کو بہت بڑی خوش خبری سے نوازا ہے،خواہ یہ تاجر کسی بھی دور کے ہوں۔آپﷺ نے فرمایا:’’ایک سچا تاجر اور ایمان دار سوداگر قیامت کے دن نبیوں، صدیقوں اور شہیدوں کے ساتھ ہوگا۔‘‘(ترمذی)
ارشاد نبویؐ ہے: ’’تین اشخاص ایسے ہیں کہ روز قیامت اللہ تعالیٰ ان کی طرف نہ دیکھے گا اور نہ انہیں پاک ٹھہرائے گا اور وہ دردناک عذاب کے مستحق ہوںگے۔ان میں سے ایک شخص وہ ہوگا جو جھوٹی قسمیں کھا کر اپنا مال فروخت کرتا تھا۔‘‘ (صحیح مسلم)
جھوٹی قسمیں تو درکنار سچی قسم کھانے سے بھی پرہیز کرنا ہی بہتر ہے۔’’(مال کو) بیچتے وقت زیادہ قسمیں کھانے سے پرہیز کرو، کیوںکہ اس سے تجارت میں برکت مٹ جاتی ہے۔‘‘(صحیح مسلم) گویا دنیا میں بھی بے برکتی کا سامنا اور آخرت میں بھی دردناک عذاب، نہ اِدھر کے رہے،نہ اُدھر کے رہے۔سچے اور ایمان دار تاجر کو اپنا مال فروخت کرنے کے لیے قسموں کی بیساکھی درکار نہیں ہوتی۔
بولنے سے پہلے تولیے ضرور، کیوںکہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:’’کوئی بھی بات جو (کسی شخص کی) زبان پر آتی ہے،اسے ایک مستعد لکھنے والا (فرشتہ) لکھ لیتا ہے‘‘۔ آپ ﷺ نے فرمایا:’’تاجر قیامت کے دن فاجر کی صورت میں اٹھائے جائیں گے،سوائے ان کے جو اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہے،نیک روی اختیار کی اور سچ بولتے رہے۔‘‘(ترمذی، ابن ماجہ)
اسلام نے دھوکے و فریب کی تمام صورتوں کو حرام ٹھہرایا ہے،خواہ وہ تجارت سے متعلق ہوں یا دوسرے عام معاملات سے متعلق۔رسول اللہﷺ کا گزر ایک غلّہ فروش کے پاس سے ہوا۔آپﷺ کو غلّہ اچھا معلوم ہوا، لیکن جب ہاتھ ڈال کر دیکھا تو نمی محسوس ہوئی۔فرمایا: کیا بات ہے؟اس نے کہا،بارش کی وجہ سے نمی پیدا ہوگئی ہے۔آپﷺ نے فرمایا: پھر اس کو غلّے کے اوپر کیوں نہ رکھا گیا کہ لوگ دیکھ لیتے؟جو ہمارے ساتھ دھوکہ بازی کرے،وہ ہم میں سے نہیں ہے۔‘‘(صحیح مسلم) گویا مسلمانوں سے دھوکے بازی کرنے والا مسلمانوں میں سے نہیں ہے۔مال کے عیب کو چھپانا اور خریدار کو اس سے بے خبررکھ کر سودا کرنا،صریحاً دھوکہ ہے ،جو کہ حرام ہے۔
نبی اکرمﷺ نے ذخیرہ اندوزی کی سختی سے ممانعت فرمائی ہے:آپﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’جس نے چالیس دن تک غلّہ روکے رکھا،اللہ تعالیٰ اس سے بری الذمہ ہے۔‘‘(احمد، حاکم،ابن ابی شیبہ) نیز فرمایا:’’بازار میں مال درآمد کرنے والے کو رزق دیا جاتا ہے اور ذخیرہ اندوزی کرنے والے پر لعنت بھیجی جاتی ہے۔‘‘(ابن ماجہ، حاکم)
مسنداحمد و طبرانی کی حدیث کے مطابق:’’جس نے مسلمانوں میں گرانی پیدا کرنے کی غرض سے قیمتوں میں مداخلت کی تو اللہ تعالیٰ پر حق ہے کہ قیامت کے دن اسے آگ پر بٹھائے‘‘۔اس قسم کی احادیث کی روشنی میں علمائے کرام نے یہ حکم واضح کیا ہے کہ ذخیرہ اندوزی کی حرمت دو باتوں سے مشروط ہے۔ کسی ایسی جگہ ایسے وقت ذخیرہ کیا جائے،جب کہ وہاں کے باشندوں کو اس سے تکلیف پہنچے۔اس سے مقصد قیمتیں چڑھانا ہو کہ خوب نفع کمایا جا سکے۔
ناپ تول میں کمی دھوکہ دہی کی ایک قسم ہے،جسے قرآن میں یوں ذکر کیا گیاہے: ’’ہلاکت ہے ناپ تول میں کمی کرنے والوں کے لیے‘‘۔ نیز یہ بھی فرمایا:’’یہ جب لوگوں سے ناپ کر لیتے ہیں تو پورا پورا لیتے ہیں اور جب انہیں ناپ کر یا تول کر دیتے ہیں،تو گھٹا دیتے ہیں۔کیا وہ نہیں سمجھتے کہ انہیں ایک بڑے دن اٹھایا جائے گا؟جس دن یہ لوگ اللہ تعالیٰ کے حضور کھڑے ہوں گے۔‘‘(المطفّفین) حضرت شعیبؑ نے بھی اپنی قوم کو متنبہ کیا تھا:’’ناپ پورا دو اور گھٹا دینے والے نہ بنو،صحیح ترازو سے تولو اور لوگوں کو ان کی چیزیں کم نہ دو اور زمین میں فساد پھیلاتے نہ پھرو۔‘‘(سورۃ الشعراء) قوم شعیبؑ اپنے پیغبر کی بات کو جھٹلا کر نیست و نابود ہوگئی، لیکن ہمیں امت محمدیؐ ہونے کا حق ادا کرنا ہے۔اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے ہر حکم پر دل و جان سے عمل کرنا ہے۔
آج ہمارے معاشرے میں سود کا جواز نکالنے کے لیے کئی تاویلیں گھڑ لی جاتی ہیں۔حضرت عمرؓ کا یہ قول ان سب کے لیے کافی ہے، ’’آیت ربوٰ (حرمت سود کی آیت) قرآن کی ان آیات میں سے ہیں جو آخر زمانے میں نازل ہوئیں اور نبی ﷺ کا وصال ہوگیا،قبل اس کے کہ تمام احکام ہم پر واضح ہوتے، لہٰذا تم اس چیزکو بھی چھوڑ دو جو یقیناً سود ہے اور اسے بھی چھوڑ دو جس میں سود کا شبہ ہے‘‘۔سودی نظام نہ صرف قوموں کی معاشی بدحالی کا سبب ہے، بلکہ معاشرے سے محبت و اخلاص کے جذبات کو بھی ناپید کررہا ہے۔ سود خور انسانی ہم دردی سے عاری اور دوسروں کی مجبوریوں سے فائدہ اٹھانے کے درپے ہوتا ہے۔ سودی نظام میں ایثار و احسان جیسی اخلاقی قدروں کا تصور بھی محال ہے۔ عالمی اقتصادی نظام سودی سامراجیت کو پروان چڑھاتا اورقوموں میں بغض و عداوت کا بیج بوتا ہے، جو بالآخر جنگ کا پیش خیمہ بھی بن جاتا ہے۔سودی نظام معاشی عدم مساوات ،غربت و بدحالی اور معاشی استحصال کی بنیادی وجہ ہے،جس کا تدارک اور سدباب ایک ناگزیر امر ہے۔