• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

زندگی میں رومانس کے پھول کبھی کھلتے ہیں تو کبھی مرجھا جاتے ہیں۔رومانس بہار بھی ہے اور رومانس خزاں بھی ہے لیکن بہرحال رومانس انسانی زندگی کا اہم شعبہ ہے۔ اسی طرح سیاست میں بھی رومانس ایک ایسی حقیقت ہے جس کی تصدیق تاریخ بھی کرتی ہے۔ عام طور پر سیاست کا رومانس وقتی اور عارضی ہوتا ہے لیکن کبھی کبھی یہ رومانس اس قدر سچا اور پرخلوص ہوتا ہے کہ تاریخ کا حصہ بن جاتا ہے۔ سچا سیاسی رومانس عقیدت کا تحفہ ہوتا ہے اور عقیدت عظمت کردار، ایثار اور عظیم مقصد سے جنم لیتی ہے۔ عارضی رومانس وہ ہوتا ہے جو خوابوں اور توقعات کے کرچی کرچی ہونے کے ساتھ پاش پاش ہوجاتا ہے۔ ہماری قومی تاریخ میں ایسے لیڈر بھی تھے جن سے قوم کے رومانس کا جادو یا سحر کبھی ختم ہوا ہے نہ کبھی خزاں کا شکار ہوا ہے اور ایسے بھی لاتعداد لیڈرتھے جن سے رومانس پیدا ہوتا اور مرتا رہا ہے۔ عوام کو جب کسی لیڈر کی شخصیت سے خلوص، سچ، سچی خدمت اور عظمت کردار کی خوشبو آتی ہے تو وہ اس کی شخصیت سے رومانس میں مبتلا ہوجاتے ہیں لیکن جب ان کی توقعات کے آبگینے ٹوٹنے لگتے ہیں تو رومانس پر بھی خزاں چھا جاتی ہے۔ سیاسی رومانس کو قائم و دائم رکھنے کے لئے خلوص، استقامت، اعلیٰ کردار اور اصولوں کی پاسداری ضروری ہے۔ قول اور فعل کا تضاد رومانس کا دشمن ہوتا ہے اور قول و فعل کا تضاد یا منافقت ہی ہماری سیاسی قیادت کا المیہ رہی ہے۔ منافقت کیا ہے؟ اس کی چھوٹی سی سادہ تشریح یہ ہے کہ انسان جو کچھ کہے، جو دعوے کرے اس پر خود عمل نہ کرے۔ عوام نیم جاہل لوگوں کا ہجوم ہی سہی لیکن عوام کبھی ناشکرے نہیں ہوتے، جو لیڈر ان پر کسی طرح’’احسان‘‘ کرتا ہے وہ ہمیشہ اس کے شکر گزار رہتے ہیں اور اس کا ذکر محبت و عقیدت سے کرتے ہیں۔
قائد اعظم سے سچی اور ابدی محبت کی کئی وجوہ ہیں لیکن سب سے بڑی وجہ ان کی شخصیت کا سچ تھا یعنی لوگ انہیں ایک سچا ، ایماندار اور مخلص لیڈر سمجھتے تھے۔ قول و فعل کا تضاد ان کے قریب سے بھی نہیں گزرا تھا۔ بحیثیت گورنر جنرل پاکستان قائد اعظم کا اے ڈی سی کیپٹن گل حسن تھا جو بعد ازاں جرنیل اور آرمی چیف بنا۔ اپنے مشاہدات کا ذکر کرتے ہوئے گل حسن لکھتا ہے کہ عام طور پر گورنر جنرل قائد اعظم محمد علی جناح چھٹی کے دن کراچی کے مضافات میں چلے جاتے تھے۔ ایک بار اتوار کی شام ہم واپس کراچی آرہے تھے تو راستے میں ریلوے پھاٹک بند ہونے کی وجہ سے گورنر جنرل کی کار کو رکنا پڑا۔ اول تو یہ یاد رکھیں کہ قائد اعظم سادگی اور قومی خزانے کے تقدس کا پرچار کرتے تھے تو وہ خود بھی اس کی عملی مثال تھے۔ گورنر جنرل کا پروٹرکول فقط اتنا ہی تھا کہ ایک گاڑی میں وہ اور پیچھے آنے والی واحد کار میں سیکورٹی آفیسرسفر کرتا تھا۔ نہ ہوٹر، نہ ہٹو بچو، نہ شان و شوکت اور نہ آگے پیچھے کاروں کا کارواں۔ ریلوے پھاٹک بند تھا۔ گورنر جنرل کی گاڑی رک گئی۔ اے ڈی سی گل حسن فرنٹ سیٹ پہ ڈرائیور کے ساتھ والی سیٹ پہ بیٹھا تھا۔ وہ کار سے نکلا اور پھاٹک کے چوکیدار کو بتایا کہ کار میں گورنر جنرل تشریف فرما ہیں۔ دور دور تک ریل گاڑی آتی نظر نہیں آرہی۔ تم ایک منٹ کےلئے پھاٹک کھولو تاکہ ہم نکل جائیں۔ چوکیدار نے پھاٹک کھول دیا۔ گل حسن کار میں آکر بیٹھے اور ڈرائیور سے چلنے کو کہا۔ قائد اعظم نے ڈرائیور کو منع کردیا اور اے ڈی سی سے کہا’’گل اگر میں قانون کی پابندی نہیں کروں گا تو کوئی بھی قانون پر عمل نہیں کرے گا‘‘ یہی ان کی شخصیت کا سچ تھا جس نے عوام کے دل موہ لئے تھے، چنانچہ جب تک ریل گاڑی نہ گزری ، گورنر جنرل کی سواری وہیں رکی رہی۔ مطلب یہ کہ اگر وہ قانون کی حکمرانیRule of lawکا پرچار کرتے تھے تو خود بھی سختی سے اس پر عمل کرتے تھے۔ اس طرح کی سینکڑوں مثالوں سے قائد اعظم کی ’’سوانح حیات‘‘ پر شائع ہونے والی کتابیں بھری پڑی ہیں، اگر وہ سادگی کا پرچار کرتے تھے اور فضول خرچی کی دل شکنی کرتے تھے تو خود بھی اس کی مثالیں قائم کرتے تھے۔ اصفہانی قائد اعظم کے دوست، تحریک پاکستان کےمخلص کارکن اور قیام پاکستان کے بعد امریکہ میں پاکستان کے پہلے سفیر تھے۔ واشنگٹن میں سفیر کی سرکاری رہائش گاہ انہوں نے ہی ذاتی جیب سے خرید کر حکومت پاکستان کو تحفے میں دی تھی۔ قائد اعظم کے ساتھیوں کے ا یثار کا ذکر ایک کتاب کا موضوع ہے۔ بہرحال اصفہانی صاحب بیان کرتے ہیں کہ وہ واشنگٹن سے ذاتی وزٹ پر کراچی آئے۔ قائد اعظم نے انہیں ڈنر پر مدعو کیا۔ سادہ سا ڈنر کھانے کے بعد جب اصفہانی صاحب گورنر جنرل ہائوس سے رخصت ہورہے تھے تو قائد اعظم خود فالتو بتیاں بجھارہے تھے۔ یہی اصفہانی صاحب جب دوسری بار قائد اعظم سے ملے تو قائد اعظم شدید علالت کے سبب زیارت میں زندگی کے آخری ایام گزار رہے تھے۔ اصفہانی صاحب نے امریکہ سے کوئی ماہر ڈاکٹر بھجوانے کی پیشکش کی تو قائد اعظم نے مسکرا کر کہا میں ملک کے خزانے پر بوجھ نہیں ڈالنا چاہتا۔ اسلم بزمی صاحب نے فضول خرچی کی دل شکنی کے حوالے سے قائد اعظم کے بارے میں ایک دلچسپ واقعہ لکھا ہے۔ قیام پاکستان سے کئی برس قبل قائد اعظم لندن گئے ہوئے تھے۔ واپس آنے کے لئے ہوائی اڈے پر پہنچے اور بورڈنگ کارڈ لے کر اندر جانے ہی والے تھے کہ دور سے ایک تیز تیز چلتا ہوا آدمی نظر آیا جو ان کی طرف بڑھ رہا تھا۔ اس نے ہانپتے ہوئے عقیدت سے ہاتھ ملایا اور کہا کہ میں دور سے ٹیکسی لے کر صرف آپ سے ہاتھ ملانے کے لئے آیا ہوں۔ قائد اعظم نے اس کا شکریہ ادا کیا اور کہا’’مسلمان روپے کی قدر و قیمت نہیں جانتے(You Muslims don't know the value of money)انہوں نے عسرت اور تنگ دستی کا دور بھی دیکھا تھااور جب قانونی پریکٹس چل نکلی تو روپوں کے ڈھیر بھی سمیٹے تھے۔ فضول خرچی انہیں ناپسند تھی اور وہ دولت کے انبار پر بیٹھ کر بھی سوچ سمجھ کر خرچ کرتے تھے۔
یہ ساری رام کہانی اس لئے سنائی کہ گزشتہ دنوں عمران خان چارٹرڈ طیارے کے ذریعے عمرہ ادا کرنے گئے تو مجھے ملک بھر سے دلچسپ تبصرے موصول ہوئے۔ ایک نہایت پڑھے لکھے دوست نے مجھے موبائل پہ یہ پیغام بھیجا’’عمران خان ہم سے قائد اعظم کا پاکستان بنانے کا وعدہ کرتا ہے۔ مجھے یہ وعدہ محض فریب نظر آتا ہے۔ کیا قائد اعظم ہوائی اڈے پر بیٹھے اپنے دوست زلفی بخاری کو بلیک لسٹ سے نکلوانے کے لئے تگ ودو کرتے؟قائد اعظم قانون کی حکمرانی پر سختی سے عمل کرتے تھے وہ ایسا سوچ بھی نہیں سکتے تھے۔ ڈاکٹر صاحب بتائیے کہ کیا قائد اعظم چارٹرڈ طیارے سے عمرہ ادا کرنے جاتے۔ انہوں نے تو بحیثیت گورنر جنرل مشرقی پاکستان کے دورے کے لئے چارٹرڈ طیارے کی تجویز مسترد کردی تھی۔ عمران خان کے تیور بتارہے ہیں کہ وہ اقتدار میں آکر قانون کی حکمرانی اور قومی خزانے کے تقدس کو پامال کرے گا‘‘۔ ایک مذہبی دوست اور عمران خان کے حامی نے لکھا’’ڈیڑھ کروڑ کا طیارہ چارٹر کرکے جانا اور مدینہ منور میں ادب کے مارے جوتا نہ پہننا فقط منافقت ہے‘‘۔
ایک ماہر معاشیات دوست کا پیغام تھا’’عمران خان کے لئے ڈیڑھ کروڑ روپے دے کر طیارہ چارٹر کیا گیا، اگر وہ کسی کمرشل فلائٹ سے جاتے اور یہ ڈیڑھ کروڑ روپے غریب آبادیوں کے لئے عطیہ کردیتے تو اس سے دس ہزار خاندانوں کا راشن آجاتا جس سے اللہ پاک اور نبی کریمﷺ راضی ہوتے اور انہیں بےحد ثواب ملتا۔ مخلوق کی خدمت سے خالق راضی ہوتا ہے۔ غریبوں کی خدمت کا دعویٰ کرنے والے ہمارے لیڈر اپنی ذات پر بے دریغ خرچ کرتے اور عیش و عشرت کی زندگی گزارتے ہیں اس وقت انہیں ہرگز نہ غریب کا خیال آتا ہے نہ غربت یاد آتی ہے، حالانکہ میں ملک سے دور ہوں اور میرا رابطہ بھی محدود ہے لیکن اس حوالے سے پیغامات پڑھ کر مجھے یوں محسوس ہوا جیسے عمران خان سے رومانس کا سورج ڈھل رہا ہے، جو لوگ سمجھتے اور کہتے ہیں کہ ان باتوں سے فرق نہیں پڑتا، ان کا نقطہ نظر انہیں مبارک لیکن میں سمجھتا ہوں کہ اپنے سیاسی مخالفین سے منفرد اور ممتاز ہو کر ہی سیاسی رومانس قائم رکھاجاسکتا ہے ورنہ........!!
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین