محمد عبداللہ صدیقی
اُمّ المومنین سیدہ خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ عنہا کے انتقال پُرملال اور آپ ﷺکے سرپرست و غم خوار چچا حضرت ابوطالب کی رحلت کا سال ’’عام الحزن‘‘ کہلاتا ہے ،کیوںکہ اسی ایک سال میں کئی غم ناک واقعات اور سانحات پیش آئے ، اس لئے یہ غم والا سال کہلائے جانے لگا۔ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کی وفات کے موقع پر رسول اللہﷺ نے اپنی اولاد کی ماں اور غم گسار و ہمدرد، دانا و بینا، عقل مند، بچوں کی انتہائی شفقت و محبت سے پرورش کرنے والی، ہر آڑے وقت میں ساتھ دینے والی اور شانہ بشانہ دینی خدمات میں حصہ لینے والی شریک حیات کی جدائی اور فراق کو بڑی شدت سے محسوس فرمایا۔ گھر کی پوری ذمے داری میں بھی دیگر دینی و تبلیغی ذمے داریوں کے ساتھ زبردست اضافہ ہوگیا۔ بیٹیوں کی نگہداشت اور گھریلو کام کی انجام دہی میں وقت نکالنا مشکل ہوگیا اور جب حضرت خولہ بنت حکیم کو ان تمام باتوں پر غوروخوض کا موقع ملا تو وہ آپﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئیں،تاکہ آپﷺ کے غم واندوہ کو کسی طرح کم کیا جائے اور آپ کی ذمے داریوں کا بوجھ ہلکا کیا جائے۔ عرض کیا یارسولﷺ! میرا خیال ہے خدیجہؓ کے انتقال نے آپﷺ کے حزن و ملال میں اضافہ کیا ہے، ارشاد فرمایا ’’ہاں‘‘ وہ میرے بچوں کی ماں اور گھر کی ملکہ تھیں۔ خولہ نے کہا کہ پھر آپ دوسری شادی کیوں نہیں کرلیتے؟ آپﷺ نے فرمایا: خدیجہؓ کے بعد کون ہے؟ جس سے میں شادی کروں۔ حضرت خولہ ؓ نے آپ ﷺ کو دوسرے نکاح کا مشورہ دیا اور آپ ﷺ کی اجازت سے پیغام نکاح لے کر سیدہ سودہ رضی اللہ عنہا کے والد کے پاس گئیں۔ سیدہ سودہ رضی اللہ عنہا اس وقت بیوہ تھیں۔ جب آپ سے اس رشتے کے حوالے سے رائے طلب کی گئی تو آپ نے فرمایا : ’’میں محمد رسول اللہ ﷺ پر ایمان لائی ہوں، وہ میرے ہادی بھی ہیں اور میرے رہنما بھی، میری ذات کے متعلق انہیں کلی اختیار ہے۔ وہ جو چاہیں فیصلہ فرمائیں۔‘‘
حضرت سودہ بنت زمعہ کا تعلق بنونجار سے تھا۔ رسول اللہﷺ نے حضرت خولہؓ کی بات مان لی۔ حضرت سودہؓ کی سبقت الیٰ الاسلام، اپنے شوہر سکران بن عمرو بن عبدشمس کے ساتھ حبشہ کی طرف ہجرت (دوسرے قافلے کے ساتھ) اپنے مہاجر مسلم شوہر کی وفات کے بعد ان کی بیوگی کے حالات حضورﷺ کے علم میں تھے۔ حبشہ سے واپس جب مکہ پہنچے تو کچھ عرصہ بعد ان کا انتقال ہوگیا تھا۔ حضرت سودہؓ بیوہ، سن رسیدہ (عمر لگ بھگ 50سال) اور صابرہ خاتون تھیں۔ سیدہ سودہ رضی اللہ عنہا فطرتاً اور طبیعتاً ایک صالح، حق پسند اور دور اندیش خاتون تھیں۔ بزرگوں کی اطاعت، بچوں سے محبت اور سب کی خدمت کا جذبہ ان میں بھرا ہوا تھا۔ آپ سنجیدہ مزاج تھیں اور قبول اسلام سے قبل بھی زمانہ جاہلیت کے رسوم و رواج کو پسند نہیں کرتی تھیں۔ یہی وجہ ہے کہ جب آنحضور ﷺ نے توحید ورسالت کا اعلان فرمایا تو آپ نے اس پیغام کو فوراً قبول فرما لیا اور دعوت توحید کے تین سالہ دور میں جن افراد نے اسلام قبول کیا، ان میں آپ کا نام بھی نمایاں طور پر شامل ہے۔ آپ اپنے قبیلے میں سب سے پہلے مشرف بہ اسلام ہوئیں اور آپ کی کو ششوں سے آپ کے شوہر، میکے اور سسرال کے خاندانوں کے بہت سے افرادنے بھی اسلام قبول کیا۔
یہ رسول کریمﷺ ہی تھے کہ حضرت خولہؓ کی تجویز پر سیدہ سودہؓ کے زخموں پر مرہم رکھنے کے لیے آمادہ ہوگئے اور ان کا تنہائی کا ساتھی بننا آپ نے اپنے حسن اخلاق و حسن سلوک کی بناءپر گوارا فرمایا اور انہیں اپنی زوجیت میں لے کر ام المومنین کا شرف بخش دیا۔ یہ شادی حالات کے تقاضوں کے علاوہ صلہ رحمی، دل شکستگی کے ازالے اور غم زدہ خاتون کی غمگساری کے لئے تھی۔ نسبت کی اعلیٰ وابستگی اور شادی خانہ آبادی کے تمام مراحل آسانی اور عمدگی سے انجام پائے۔ سیدہ سودہؓ اس شادی سے بہت ہی مسرور تھیں۔ انہوں نے اپنی عمر رسیدگی کے دکھ کو بھی بھلا دیا اور وہ مسرور و شاد کام کیوں نہ ہوتیں۔ خود کو ہلکا پھلکا کیوں نہ محسوس کرتیں ،ان کی شادی ایسی بے مثال عظیم ترین شخصیت سے ہوئی جو کریم ترین،شفیق ترین، خیرالبشرﷺ قریش کے سردار اور اللہ تعالیٰ کے محبوب ترین پیغمبر آخرالزماں ہیں۔ وہ کریم و رئوف شخصیت کہ جن پر ہر نماز میں درود وسلام پیش کیا جاتا ہے۔ آپ ﷺ نے حضرت سودہؓ کو اکرام و احترام سے نوازا۔ وہ آپﷺ کے گھر منتقل ہوگئیں۔
زرقانی کا بیان ہے کہ اپنے پہلے شوہر حضرت سکرانؓ کی زندگی میں ایک دفعہ حضرت سودہؓ نے خواب میں دیکھا کہ تکیے کے سہارے لیٹی ہیں کہ آسمان پھٹا اور ستاروں کے جھرمٹ سے نکل کر چاند ان پر گرپڑا ،انہوں نے یہ خواب حضرت سکرانؓ (اپنے شوہر) سے بیان کیا تو وہ بولے۔ ’’اس خواب کی تعبیر یہ معلوم ہوتی ہے کہ میں تو عنقریب فوت ہوجائوںگا اور تم عرب کے چاند حضرت محمدﷺ کے نکاح میں آجائوگی، واقعی اس خواب کی تعبیر چند ہی مہینوں بعد پوری ہوگئی۔
بعض روایتوں کے مطابق یہ خوش بخت حضرت سودہؓ ہی ہیں جو ام المومنین حضرت خدیجۃ الکبریٰؓ کے انتقال کے بعد سب سے پہلے آنحضرتﷺ کی زوجیت میں آئیں۔ نکاح حضرت عائشہ صدیقہ ؓسے بھی ہوچکا تھا، لیکن وہ مدینہ منورہ ہجرت کے بعد رخصت ہوکر حضورﷺ کے یہاں تشریف لائیں۔
حضور انورﷺ جب ہجرت فرماکر مدینہ منورہ تشریف لے گئے تو وہاں سے حضرت ابورافعؓ اور حضرت زید بن حارثہؓ کو مکہ بھیجا کہ حضرت سودہؓ ،حضرت ام کلثومؓ اور حضرت فاطمۃ الزہراءؓ کو ساتھ لے کر آئیں ،چناںچہ یہ سب حضرت زید بن حارثہؓ اور حضرت ابورافعؓ کے ساتھ مدینہ منورہ آگئیں۔
حضرت سودہؓ کی طبیعت میں خوش مزاجی اور ظرافت کا پہلو تھا جس سے حضورﷺ گاہے بگاہے محظوظ ہوتے رہتے تھے۔ ایک دن رات کو حضورﷺ کے ساتھ نماز میں شامل ہوگئیں۔ حضوراکرمﷺ بڑی دیر تک رکوع میں رہے۔ صبح ہوئی تو کہنے لگیں۔ ’’یارسول اللہﷺ! رات کو نماز میں آپﷺ نے اتنی دیر تک رکوع کیا کہ مجھے اپنی نکسیر پھوٹنے کا اندیشہ ہوگیا۔ چناںچہ میں بڑی دیر تک اپنی ناک سہلاتی رہی‘‘۔ حضورﷺ ان کی بات سن کر مسکرا اٹھے۔
حضرت سودہؓ بہت رحمدل اور سخی تھیں۔ جو کچھ ان کے ہاتھ آتا ۔ اسے نہایت دریا دلی سے حاجت مندوں میں تقسیم کردیتیں ۔ بقول حافظ ابن حجر ؒحضرت سودہؓ دستکار تھیں ۔ اس سے جو آمدنی ہوتی۔ اسے راہ خدا میں خرچ کردیا کرتی تھیں۔(اصابہ)
امیرالمومنین حضرت عمر فاروقؓنے ایک مرتبہ ان کی خدمت میں درہموں کی ایک تھیلی ہدیہ بھیجی۔ انہوں نے پوچھا ،اس میں کیا ہے؟ لوگوں نے بتایا ،درہم بھرے ہوئے ہیں۔ بولیں ’’تھیلی میں کھجوروں کی طرح؟‘‘ یہ کہہ کر تمام درہم ضرورت مندوں میں اس طرح بانٹ دیئے جس طرح کھجوریں تقسیم کی جاتی ہیں۔
حضرت سودہؓ اتنی پاکیزہ خیال اور پاکیزہ اخلاق رکھتی تھیں کہ ایک دفعہ ام المومنین حضرت عائشہؓ نے فرمایا: ’’سوائے سودہؓ کے کسی عورت کو دیکھ کر میرے دل میں یہ خواہش پیدا نہ ہوئی کہ ان کے جسم میں میری روح ہوتی‘‘۔
حجۃ الوداع کے موقع پر حضور اکرمﷺ نے ازواج مطہراتؓ سے کہا تھا: اس حج کے بعد اپنے گھروں میں بیٹھنا، چناںچہ حضرت سودہؓ اور حضرت زینب بنت جحشؓ نے اس ارشاد کی سختی سے پابندی کی اور گھر سے باہر تو کیا نفلی حج اور عمرہ کے لیے بھی نہ نکلیں۔ حضرت سودہؓ کہتی تھیں: میں حج اور عمرہ دونوں کرچکی ہوں، اب اللہ (اور رسولﷺ) کے حکم کے مطابق گھر سےباہر نہ نکلوںگی‘‘ ۔آپ حضرت عمر فاروقؓ کے زمانہ خلافت میں عالم بقا کو کوچ کرگئیں۔
حضور اکرمﷺ سے سیدہ سودہؓ کے کوئی اولاد نہیں ہوئی تھی، مگر سابق شوہر حضرت سکرانؓ سے ان کا ایک بیٹا عبد الرحمٰن تھا۔ عہدِ فاروقی میں عراق کی مکمل آزادی کا آخری معرکہ 16ھ میں جلولا کے مقام پر حضرت سعد ؓ بن ابی وقاص کی زیرِ قیادت برپا ہوا جس میں عبد الرحمٰن ؓ نے نہ صرف شرکت کی، بلکہ جامِ شہادت بھی نوش کیا۔ یوں حضرت سودہ ؓ کو ایک شہید کی ماں ہونے کا لازوال شرف حاصل ہوا۔ آپ نے زندگی کے آخری ایام میں اپنا حجرہ مبارک حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے نام ہبہ فرما دیا تھا۔آپ کی وفات کے متعلق مختلف روایات ہیں،حافظ ابنِ حجر کے مطابق آپ کا وصال 55 ہجری میں ہوا۔