کراچی ( اسٹاف رپورٹر، ایجنسیاں) چیف جسٹس آف پاکستان میاں ثاقب نثار نے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے اور ٹیکسز سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران ریمارکس دیئے کہ جسکا دل کرےپٹرول پر ٹیکس لگا دیتا ہے، بونگیاں نہ ماریں، عوام ٹیکس دے دے کر رل گئے ہیں، 10؍ دن میں قیمتیں کم کرنے کا فارمولہ لائیں ،اداروں کی رپورٹس میں جھول ہوا تو کسی کو نہیں چھوڑیں گے، جاگیرداروں کے پیٹرول پمپ چل رہے ہیں، حکام کے ساتھ مل کر عوام سے کھیل کھیلا جارہا ہے، ہر ادارہ ایک دوسرے پر ذمہ داری ڈال رہا ہے، کراچی والوں سے پٹرول پر ٹرانسپوٹیشن ٹیکس کیوں لیا جارہا ہے۔ عدالت عظمیٰ نے ایم اے جناح روڑ سمیت دیگر سڑکوں کی بندش پر آئی جی سندھ سے جواب طلب کرلیا۔ سپریم کورٹ نے رینجرز کو سہیون ڈویلپمنٹ اتھارٹی کی زمین پر قبضہ ختم کرانے کیلئے معاونت کا حکم دیا ہے۔ جبکہ بڑھتی آبادی پر قابو پانے کیلئے وفاق اور چاروں صوبوں سے جامع رپورٹ بھی طلب کر لی ہے۔ تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں چیف جسٹس آف پاکستان میاں ثاقب نثار نے مختلف مقدمات کی سماعت کی۔ پیٹرولیم مصنو عات کی قیمتوں میں اضافے کے خلاف کیس کی سماعت چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں لارجر بینچ نے کی۔ بینچ کے دیگر اراکین میں جسٹس سجاد علی شاہ اور جسٹس منیب اختر شامل تھے۔ چیف جسٹس کو حکام نے بعض معاملات سے تحریری و زبانی آگاہ کیا تاہم چیف جسٹس نے عدم اعتماد اظہار کیا اور قررادیاکہ ابھی بہت سے سوال باقی ہیں جنکے جواب ہمیں مطلوب ہیں۔ چیف جسٹس چیئرپرسن اوگرعظمیٰ عدیل کی غیرحاضری پر شدیدبرہم ہوئے۔چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ چیئرپرسن کو کب سے تعینات کیاگیااور انکی تعلیمی قابلیت کیا ہے؟جس پر بتایاگیاکہ عظمیٰ عدیل چارٹڈاکاؤنٹنٹ ہے اور انہیں جولائی 2016 سے تعینات کیا گیا ہے۔ سماعت کے موقع پر ایم ڈی پی ایس او شیخ عمران الحق پیش ہوئے انہوں نے فاضل بینچ کو بتایاکہ آئل مارکیٹنگ کمپنیوں میں صرف پی ایس او نہیں بلکہ 21 کمپنیاں ہیں، ہم نے فروری میں تین مختلف کمپنیوں سے خام مال منگوایا اسکی امپورٹڈ قیمت 52.23 فی لیٹر ہےاسکے بعد سرچارج ٹیکس لگتے ہیں اور پھر قیمت کا تعین کیاجاتاہے۔ چیف جسٹس نے کہا اس وقت پیٹرول کی قیمت 91روپے96 پیسے فی لیٹر ہے اور استفسارکیاکہ اس پورے ریجن میں پیٹرول کی کیاقیمت ہے؟ایم ڈی نے جواب دیاکہ مجھے نہیں معلوم۔ چیف جسٹس نے مزید استفسارکیاکہ کیا پڑوسی ممالک کو بھی خام مال کی امپورٹڈ قیمت 52.23 روپے فی لیٹر کے حساب سے ملتاہے؟جس پر ایم ڈی پی ایس او نے جواب دیاکہ پریمیم کی وجہ سے قیمت میں فرق ہوسکتا ہے۔ چیف جسٹس نے استفسار کیاکہ کیا فرق ہوسکتا ہے وضاحت کریں تاہم ایم ڈی پی ایس او فرق بتانے سے قاصر رہے جس پر چیف جسٹس نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ تمہیں کس نے ایم ڈی بنایا ہے اور کب سے ایم ڈی کے عہدے پر تعینات ہو؟ چیف جسٹس نے ایم ڈی پی ایس اوسمیت چیئرپرسن اوگرا، چیئرمین ایف بی آر ودیگر متعلقہ محکموں کےسربراہان کی تعیناتی اور انکی تعلیمی قابلیت سے متعلق مکمل تفصیلات طلب کرلی۔ چیف جسٹس نے آبزرویشن میں کہاکہ ہم ماہرین کی ایک ٹیم بنائینگے جو آپ کے اعداد شمار کی جانچ پڑتال کریگی اور پھر اس میں اگر کوئی گڑبڑ یا اونچ نیچ نکلی تو پھر ہم کسی کو نہیں چھوڑیں گے، سب کیخلاف کارروائی کرینگے۔ اس موقع پر چیف جسٹس نے روسٹرم پر موجود حکام سے استفسار کیا کہ کراچی والوں سےآئی ایف ای ایم (ٹرانسپورٹیشن ٹیکس ) کیوں لیا جارہا ہے جبکہ خام مال آتاہی کراچی میں ہے جس پر پی ایس او نے بتایا کہ یہ حکومتی پالیسی ہے اس میں ہم کچھ نہیں کرسکتے۔ چیف جسٹس نے ڈیلرشپ کو انتہائی مشکوک قرار دیتے ہوئے شدید تحفظات کا اظہارکیا اور استفسارکیاکہ 3.16 فیصد کمیشن ڈیلرز کو کیوں دے رہے ہیں؟ کیا ڈیلرز بھی آپ کو کچھ دیتے ہیں؟جس پر عدالت کو بتایا گیا کہ ڈیلرز کچھ نہیں دیتے دیلرز صرف ہمارا تیل فروخت کررہے ہیں اور ہماری پرڈکٹ کو پرموٹ کرتےہیں۔چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہاکہ سب لینڈ لارڈز، جاگیرداروں نے پیٹرول پمپ کھول رکھے ہیں اور حکام کو اپنے ساتھ ملاکر عوام سے کھیل کھیلا جارہا ہے، پی ایس او نے کہاکہ یہ سارا معاملہ اوگرا کا ہے۔ اس موقع پر اوگرا فنانس کے انچارج موجود تھے۔ چیف جسٹس نے فنانس انچارج پر برہمی کا اظہارکیا لیکن فنانس انچارج نے کہاکہ حکومتی پالیسی ہے۔چیف جسٹس نے چیئرمین ایف بی آر طارق محمود پاشا سے استفسارکیاکہ آپ پیٹرولیم مصنوعات پر سیل ٹیکس کیوں لگارہے ہو؟جس پر انہوں نے بتایاکہ ہرماہ آئل مارکیٹنگ کمپنیوں کی میٹنگ ہوتی ہےاور وہ میٹنگ کے بعد سفارشات تیارکرکے اوگرا کو بھیجتے ہیںاور پھر اوگرا قیمتوں کا تعین کرتی ہے اور متعلقہ وزارت کو منظوری کیلئے بھیجتی ہے، بعدازاں سب سے آخر میں ایف بی آر سیل ٹیکس لگاتی ہے یعنی ہمارا کردار سب سے آخر میں آتا ہے۔ چیف جسٹس نے حکام کو سننے کے بعد اپنی آبزر ویشن میں قرار دیا کہ بادالنظر میں سب کی ملی بھگت ہے،عوام پر ٹیکس کا بوجھ ڈال کر افسران راہ فرار اختیار کرکے ذمہ داری ایک دوسرے پر ڈال رہے ہیں۔ چیف جسٹس نے پیٹرولیم کی قیمتوں میں کمی کیلئے سیکرٹری پیٹرولیم ،چیئرمین ایف بی آر،چیئرپرسن اوگراور ایم ڈی پی ایس او سمیت دیگر متعلقہ اداروں کو مشترکہ حکمت عملی بنا کر 10 روز میں رپورٹ پیش کرنے کا حکم دیدیاہے،حکم نامہ میں تحریر کیاہےکہ پیٹرولیم مصنوعات پر موجود ہ ٹیکس لگانے کے طریقہ کارپرحکام از سرنوجائزہ لیں،عوام پر ٹیکس کا بوجھ ڈالا گیا لیکن حکام وضاحت بیان کرنے میں ناکام ہوئے، آئندہ سماعت پر مذکورہ اداروں کے سربراہان کی قابلیت اور تعیناتیوں سے متعلق بھی مکمل ریکارڈ طلب کرلیاہے۔سپریم کورٹ کے چیف جسٹس نےایم اے جناح روڈ سمیت دیگر سڑکوں کی کنٹینرز اور بیرئئرز کے ذریعے بندش کیخلاف آئی جی سندھ سے جواب طلب کرلیا ہے۔ درخواست گزار عظمیٰ سعید ایڈووکیٹ نے موقف اختیار کیاکہ عدالتی حکم پر کئی سڑکوں سے کنٹینرز اٹھا لیے گئے، ایم اے جناح روڈ سے ملحقہ سات سڑکیں تاحال بند ہیں، نمائش سے امام بارگاہ شاہ خراساں جانے والی تمام سڑکیں بند ہیں ،گارڈن سے مذہبی جماعت کی عبادت گاہ جانے والی سڑک بھی بند ہے ،سڑکوں کی بندش عوام کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔ چیف جسٹس نے کھارادر میں رام پاج اور بمبئی بازار کے اطراف کی سڑکوں کی بندش پر بھی آئی جی سے جواب طلب کیا جبکہ چیف جسٹس نے سڑکوں کی بندش پر آئی جی سندھ سے رپورٹ طلب کرلی۔ سپریم کورٹ رجسٹری میں سہیون ڈویلپمنٹ اتھارٹی کی زمین پر قبضہ ختم کرنے کیلئے رینجرز کو معاونت کا حکم دیدیا۔