• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

شہباز شریف کے بھاگتے ہوئے سڑک پار کرنے پر سخت عوامی ردعمل آیا۔ نہلے پہ دہلا یہ ہوا کہ دو روز بعد ان کا ایک اور ویڈیو کلپ سامنے آیا جس میں وہ ایک ٹیکسی ڈرائیور سے سکے وصول کرتے ہوئے دکھائے گئے، اس پر بھی میڈیا اور سوشل میڈیا کا بھرپور ردِ عمل سامنے آیا۔ وطن عزیز کے اندر بھی کیمرے کی آنکھ نے کچھ ایسے مناظر کی عکس بندی کی کہ مناظر کو دیکھ کر عوامی شعور کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ خاص طور پر نوجوانوں کو کوئی پروا نہیں کہ کون کتنا طاقتور ہے؟
عید سے دو تین روز پہلے گوجرانوالہ شہر میں خرم دستگیر اور عبدالرئوف مغل ایک کارنر میٹنگ کے لئے گئے مگر وہاں موجود لوگوں نے لبیک یا رسولؐ اللہ کے نعرے لگانے شروع کر دیئے۔ گوجرانوالہ جیسے مسلم لیگی شہر میں خرم دستگیر اور رئوف مغل کو کارنر میٹنگ سے بھاگنا پڑا۔ ڈیرہ غازی خان میں اپنے ہی قبیلے کے غریب افراد نے سردار جمال لغاری کی بات ماننے سے انکار کر دیا، نہ صرف انکار کیا بلکہ ان کی تعزیت بھی قبول کرنا گوارہ نہ کیا۔ سندھ میں سردار سلیم جان مزاری کو حلقے کے عوام کے سخت عوامی ردعمل کا سامنا کرنا پڑا۔ سکندر بوسن حلقے میں نکلے تو لوگوں نے انہیں بے عزت کیا، یہاں تک کہہ دیا کہ ہم سکندر بوسن کی شکل دیکھنا نہیں چاہتے، ان کی موجودگی میں ہر طرف سے لوٹے، لوٹے کی آوازیں آتی رہیں۔ ملتان کے حلقہ این اے 154سے ملک احمد حسین ڈیہڑ طویل عرصے سے تحریک انصاف کے پلیٹ فارم سے جدوجہد کر رہے ہیں، پی ٹی آئی اس حلقے پر سکندر بوسن کو مسلط کرنا چاہتی تھی مگر عوامی ردعمل کے بعد ٹکٹ واپس لینا پڑا۔ اب پتہ نہیں سکندر بوسن کے حامی کونسی نئی چال چلتے ہیں۔ ویسے وہاں کے عوام نہ گیلانی کے ساتھ ہیں اور نہ ہی بوسن کے ساتھ بلکہ لوگوں کا خیال ہے کہ چونکہ سارا سال ہمارے دکھ درد کے ساتھی ملک احمد حسین ڈیہڑ ہیں اس لئے ان کا پہلا انتخاب احمد حسین ڈیہڑ ہی ہے۔
عوامی ردعمل کے تمام ویڈیو کلپس دیکھنے کے بعد مجھے یہ کہنے میں کوئی عار نہیں کہ آئندہ چند دنوں میں معاملات ہاتھا پائی اور مار دھاڑ تک پہنچ جائیں گے، کچھ واقعات جوتا پھینکنے کے بھی پیش آئیں گے ہر طرف افراتفری نظر آئے گی، لوگ لٹیروں کو قبول کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں، لوگ ٹھگوں، چوروں اور مافیا کے کرداروں کو معاف کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں۔ دو روز پہلے شاہد خاقان عباسی کے ساتھ ان کے حلقے میں کیا ہوا کہ وہاں ن لیگی کارکنوں نے اپنے سابق وزیراعظم کو گھیر لیا اور نعرے بازی شروع کر دی کہ ’’ووٹر کو عزت دو، گو عباسی گو‘‘۔ کئی حلقوں میں یہ بینرز لگے ہوئے ہیں ’’جھوٹے وعدے کرنے والو، ووٹ مانگ کر شرمندہ نہ کرو‘‘ کسی جگہ یہ لکھا ہے ’’ووٹ کو عزت دو کی بات کرنے والو ووٹر کو عزت دو‘‘۔
پی ٹی آئی اور پیپلز پارٹی کے ٹکٹوں پر احتجاج ہو چکا ہے، ن لیگ کے تازہ دم دستوں نے فیصل آباد، سرگودھا اور پنڈی کو احتجاجی مراکز میں بدل دیا ہے۔ لاہور میں پہلے ہی زعیم قادری اور چوہدری عبدالغفور میو کی آواز گونج رہی ہے، ان دو توانا آوازوں نے ن لیگ کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ سرگودھا میں پیر امین الحسنات کے خاندان کو ٹکٹ سے محروم رکھا گیا ہے، سرگودھا شہر سے حامد حمید بھی ٹکٹ سے محروم رہے ہیں، اس محرومی پر حامد حمید سراپا احتجاج ہیں۔ ن لیگی امیدوار برجیس طاہر کی گاڑی کی ٹکر کے باعث دو نوجوان ہسپتال پہنچ چکے ہیں۔ شاہکوٹ، صفدر آباد سے پی ٹی آئی اپنے محنتی اور دیرینہ کارکن ارشد ساہی کو ٹکٹ دینے سے ہچکچا رہی ہے، سنا ہے کہ بورڈ کے ایک رکن، ارشد ساہی کی مخالفت پر تلے ہوئے ہیں۔ چکری کے چوہدری نثار علی خان نے ن لیگ کو الگ چکر چڑھا رکھا ہے، وہ ہر دوسرے دن کسی نہ کسی جلسے میں ن لیگ کی قیادت سے متعلق بہت سے ’’ارشادات‘‘ میڈیا کی نذر کر دیتے ہیں۔ اب ن لیگ نے ان کے مقابلے میں ٹکٹ بھی جاری کر دیئے ہیں۔ تحریک لبیک کے کارکنوں کی سیاسی میدان میں آمد سے حالات مزید سنگین ہو جائیں گے۔ ایک دھرنا فاٹا کے لوگوں نے اسلام آباد پریس کلب کے باہر دیا ہوا ہے۔ ان سطور کی اشاعت تک یہ دھرنا الیکشن کمیشن اور وزیر اعظم ہائوس کا رخ کر چکا ہو گا، ان کا مطالبہ صرف اور صرف الیکشن کا التوا ہے، ویسے آپس کی بات ہے کہ الیکشن ہوتے ہوئے نظر نہیں آ رہے۔
کاغذات جمع کروانے والے افراد نے بیان حلفی کے تحت جائیدادوں کا جو حساب کتاب پیش کیا ہے، یہ کسی لطیفے سے کم نہیں، کروڑوں کی جائیدادوں کو چند لاکھوں کی ظاہر کیا گیا ہے۔ یہ کام ہر جگہ ہوا ہے، اگر کسی نے پراپرٹی ویلیو لگوا لی تو پھر الٹی گنتی شروع ہو جائے گی۔ مظفر گڑھ سے ایک آزاد امیدوار محمد حسین نے خود کو چار کھرب، تین ارب اور تیرہ کروڑ کا مالک ظاہر کیا ہے۔ انہوں نے سب سے زیادہ اثاثے بتائے ہیں۔ اثاثوں کے لطیفے پر اسلامی نظریاتی کونسل کے رکن علامہ افتخار نقوی نے بڑا خوبصورت تبصرہ کیا ہے، وہ کہتے ہیں کہ ’’مظفر گڑھ کے محمدحسین منا، نے سچ تو بولا ہے، اس نے سچ بتا کر باقی لیڈروں کو پریشان کر دیا ہے، باقی رہنمائوں کو بھی محمدحسین کی پیروی کرنی چاہئے، اپنی اپنی جائیدادوں کے بارے میں سچ بولنا چاہئے۔ ریاستی اداروں کو چاہئے کہ وہ ایسا سسٹم بنائیں کہ جن لوگوں کے پاس کھربوں کی جائیدادیں ہیں، وہ اپنے ملک کی خاطر قربانی دیں، ان تمام جائیدادوں سے ملک کا قرضہ اتارا جائے، اس کے بدلے میں ان لوگوں کو نشانِ امتیاز دیا جائے، جن لوگوں کے پاس دولت کے انبار ہیں انہیں قائد اعظمؒ والے جذبے کے تحت دولت کو ملک پر نچھاور کر دینا چاہئے۔ اس وقت قوم کو اسی جذبے کی ضرورت ہے جو قیامِ پاکستان کے وقت تھا، دنیا ہمارے خلاف سازشیں کر رہی ہے، ہمیں قربانی دے کر ان سازشوں کو ناکام بنانا چاہئے۔‘‘ ایک سچے پاکستانی کے طور پر علامہ افتخار نقوی کی تجویز بہت عمدہ ہے مگر ہمارے ملک میں لوٹ مار کرنے والوں کو وطن کے لئے قربانی کہاں یاد آتی ہے، کیا آپ نے ’’بیمار‘‘ اسحاق ڈار کو لندن میں گھومتے پھرتے نہیں دیکھا، کیا یہ شخص صادق اور امین ہے؟
مجھے تمام مناظر دیکھ کر ڈاکٹر امبر شہزادہ کے طنز یاد آجاتے ہیں۔ نواب ڈاکٹر امبر شہزادہ اس بار بھی حلقہ این اے 125سے قومی اسمبلی کا الیکشن لڑ رہے ہیں۔ گورنمنٹ کالج لاہور سے فارغ التحصیل نواب ڈاکٹر امبر شہزادہ 1986ء سے الیکشن لڑ رہے ہیں، اب تک 42حلقوں سے الیکشن لڑ چکے ہیں مگر انہیں کامیابی کبھی نصیب نہیں ہوئی، مسلسل ناکامی کے باوجود ڈاکٹر امبر شہزادہ کا حوصلہ کم نہیں ہوا۔ فلسفہ پڑھنے والے نواب صاحب ایک طرف سیاستدانوں پر طنز کرتے ہیں تو دوسری طرف مستقبل کی سیاست کا نقشہ بھی کھینچتے ہیں۔ ان کے مختلف سلوگنز کچھ اس طرح ہیں ’’خواہش کے تحت کرپشن کے خلاف ہوں، ضرورت کے تحت کرپشن کا حامی ہوں۔ تھوڑی رشوت کام زیادہ، وزیر اعظم امبر شہزادہ۔ انتخابی نشان چمچہ، عوام کا چمچہ، آپ کا چمچہ، اصلی چمچہ، چمچہ ضرورت کے تحت رزق منہ تک لے کر آتا ہے۔ قوم کا مسیحا، نیم کرپٹ، شہنشاہِ سیاست، متبادل وزیر اعظم۔ پچھلے تیس سالوں سے آپ کے درست فیصلے کا منتظر۔ دبنگ شاعر، سچا اور سُچا۔ فل ٹائم سیاست بطور بزنس، غیر سنجیدہ سیاست سنجیدگی کے ساتھ۔ عوام کے لئے سیاست کرتا ہوں، عوام کے پیسے سے سیاست کرتا ہوں‘‘
نواب امبر شہزادہ نے سچ بول دیا ہے ہمارے سیاستدان یہی کرتے ہیں۔ سیاسی فلسفے کے تحت ڈاکٹر امبر شہزادہ فرماتے ہیں ’’الیکشن بروقت نہیں ہوں گے، ابھی احتساب ہو گا، سزائیں ہوں گی، ہنگامے ہوں گے، افراتفری ہو گی، لوٹی ہوئی دولت اپنا رنگ دکھائے گی، ابھی بیانیے بیان ہوں گے، ابھی جھوٹ بولے جائیں گے، ابھی بے وقوف بنایا جائے گا، ابھی بے شرم، بے شرمی کی انتہا کریں گے‘‘۔ جاتے جاتے رخشندہ نوید کا شعر پیش خدمت ہے کہ؎
یوں لگ رہا ہے جیسے ابھی لوٹ آئے گا
جاتے ہوئے چراغ بجھا کر نہیں گیا
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین