• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
کونو کار پس.... فوائد کم، نقصانات زیادہ

یمنیٰ راؤ، جامعہ کراچی

کونوکارپس، دراصل چھوٹے تنے پر مشتمل ایک بڑی جھاڑی ہے۔ اسے’’ Button wood‘‘بھی کہا جاتا ہے اور بنیادی طور پر یہ درخت، شمالی کیریبئن کوسٹ(North Caribbean Coast) سے تعلق رکھتا ہے۔ کونوکارپس ،مٹّی میں موجود زاید نمکیات، گرد و غبار، پانی کی کمی، بڑھتے ہوئے درجۂ حرارت سمیت دوسرے سخت حالات کو، جو شہری زندگی کا خاصہ ہیں، برداشت کرنے کی غیر معمولی صلاحیت رکھتا ہے، اسی بنا پر اسے کئی مُمالک نے اپنے بڑے شہروں میں وسیع پیمانے پر لگایا، جن میں خلیجی مُمالک سرِفہرست ہیں۔ پاکستان میں اس درخت کو 2008 ء میں مصطفیٰ کمال کے دَور میں متعارف کروایا گیا۔ 

اس دَوران شہرِ قائد میں 4.5ملین کونوکارپس لگائے گئے اور دیکھتے ہی دیکھتے تیزی سے پھیلنے والا یہ درخت کراچی کے کئی رہائشی علاقوں اور شاہ راہوں کے اطراف نظر آنے لگا۔ ڈی ایچ اے، کے ڈی اے اور دوسری ہائوسنگ اتھارٹیز سمیت یونی ورسٹی روڈ اور شاہ راہِ فیصل پر اسے بڑے پیمانے پر لگایا گیا۔ تاہم، کراچی میں بڑھتے ہوئے درجۂ حرارت اور دیگر موسمیاتی تبدیلیوں کے ضمن میں اب یہ درخت بھی موضوعِ بحث بنا ہوا ہے۔ ماہرین اور شہریوں کی ایک بڑی تعداد کونوکارپس کو اس خرابی کا ذمّے دار ٹھہرانے پر مُصر ہے، تو بہت سے لوگ ان باتوں کو مبالغہ آرائی قرار دے رہے ہیں۔ لہٰذا، ہمیں اس حوالے سے کچھ حقائق پر نظر ڈالنے کی ضرورت ہے۔

کونو کار پس.... فوائد کم، نقصانات زیادہ

کراچی میں 2008ء میں باہر سے لا کر لگائے گئے اس درخت کو پہلے سے موجود اسپیشیز یوکلپٹس (Eucalyptus)کے نعم البدل کے طور پر لگایا گیا تھا، جسے ماہرین نے ماحول کے لیے خطرناک قرار دیا تھا۔ دراصل کونوکارپس اپنی پانی کی ضروریات خود ہی اپنے پیچیدہ اور باریک جڑوں کے نظام سے پوری کرلیتے ہیں کہ اس کی جڑیں کم جگہ میں بھی زمین کے اندر تیزی سے سرایت کر کے زیرِ زمین پانی جذب کر لیتی ہیں اور اسی وجہ سے اُن علاقوں میں موجود دیگر اقسام کے درختوں کے لیے پانی کی شدید کمی واقع ہو جاتی ہے اور نتیجتاً کچھ ہی عرصے بعد وہ درخت سوکھ کے رہ جاتے ہیں۔ صرف یہی نہیں، کونوکارپس کی تیزی سے پھیلنے والی جڑوں کے باعث زیرِ زمین نالیوں اور پائپس کے بچھے جال کو بھی نقصان پہنچ سکتا ہے اور اس کے نتیجے میں عمارتوں کی بنیادیں بھی متاثر ہو سکتی ہیں۔ نیز، کونوکارپس نومبر اور اپریل میں اپنی ری پروڈکشن (Reproduction) کے لیے پولن گرینز (Pollen grains) کا اخراج کرتے ہیں، جو پولن الرجی کا سبب بنتے ہیں۔ ایک قابلِ غور بات یہ بھی ہے کہ اس درخت کے عام ہوتے ہی یہاں کے مقامی پرندے دوسرے علاقوں کی طرف پرواز کر گئے ہیں، کیوں کہ مقامی درخت نہ ہونے کے باعث عمومی طور پر پرندے کونوکارپس پر بسیرا نہیں کرتے۔ اس درخت سے کچھ زہریلے مادّوں کا بھی اخراج ہوتا ہے، جو پرندوں کے ساتھ، انسانوں کے لیے بھی خطرناک ہیں۔ جامعہ کراچی کے ڈاکٹر ظفر اقبال شمس کی International journal of environmentمیں چھپنے والی ریسرچ رپورٹ کے مطابق، کونو کارپس اسپیشیز کے پتّوں کے Extract میں کثیر تعداد میں Phenolic Compoundsپائے جاتے ہیں، جو مکئی اور لوبیا وغیرہ کی پیداوار اور نشوونما کو روکنے کا سبب بنتے ہیں۔ تحقیق کے مطابق،’’ مقامی درخت نیم، کونوکارپس سے 3گنا زیادہ کاربن جذب کرتا ہے، جس سے واضح طور پر اس خیال کو تقویت ملتی ہے کہ مقامی درخت نہ ہونے کے باعث کثیر تعداد میں کونوکارپس کی افزائش، جو مطلوبہ مقدار میں کاربن جذب کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے، کراچی کے بڑھتے ہوئے درجۂ حرارت کا سبب ہے۔‘‘

یہاں یہ بات بھی ذہن میں رکھنا ضروری ہے کہ کونوکارپس مکمل طور پر نقصان دہ نہیں۔ رہائشی علاقوں کی بجائے جنگلات میں افزائش کر کے اس کی لکڑی کو استعمال کیا جا سکتا ہے۔ نیز، اس کی Allelopathic خصوصیات کے باعث اسے مختلف پودوں کو نقصان پہنچانے والے کیڑے مکوڑوں کے خلاف مؤثر دوا کے طور پر بھی استعمال کیا جا سکتا ہے، لیکن اس کا فصلوں کے لیے استعمال ہرگز مناسب نہیں، کیوں کہ یہ انھیں نقصان پہنچاتے ہیں۔ کونوکارپس کے فوائد اپنی جگہ، لیکن شہری علاقوں میں اس کے سبب ہونے والے نقصانات کو مدّنظر رکھا جائے، تو کراچی میں اس کی کاشت کسی صُورت مناسب قرار نہیں دی جاسکتی۔ ہمیں شہر میں نیم، املی، جامن، برگد، اشوکا، کچنار، چمپا، املتاس اور غیر معمولی خوبیوں کے حامل سوہانجنا (Moringa) کے درختوں کی افزائش کو فروغ دینا چاہیے تاکہ کراچی کے ماحول کو شہریوں اور پرندوں کے لیے محفوظ بنایا جا سکے۔ اس ضمن میں عوام کو بھی حکومتی اداروں پر تنقید میں مصروف رہنے کی بجائے خود بھی ماحول کو بہتر بنانے میں اپنا حصّہ ڈالنا چاہیے۔

تازہ ترین