• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ڈاکٹر رانا محمّد اطہر رضا، فیصل آباد

اگر ہم روئے زمین پر بسنے والے تمام جان داروں کا ایک دوسرے سے تقابل اور موازنہ کریں، تو یہ حقیقت آشکار ہوتی ہے کہ خدائے رب العزّت نے سب سے زیادہ توجّہ اشرف المخلوقات، آدم کی تخلیق پر کی کہ گوشت کے اس لوتھڑے کو دِل، دماغ جیسے اعضاء ہی سے نہیں نوازا، سوچنے سمجھنے کی صلاحیت بھی عطا کی۔انسانی جسم مختلف اعضاء کا مجموعہ ہے، جن میں سے زیادہ کی تعداد یا تو ایک ہے یا پھر زیادہ سے زیادہ دو۔ مثلاً دِل ایک ہے،تو آنکھیں دو، گُردے اور کان بھی دو ہی ہیں، لیکن انسان کو دانت دو نہیں دیئے، ورنہ ہماری مثال بھی ہاتھی جیسی ہی ہوتی۔

دانت جسم کا وہ واحد جزو ہے، جس کی نہ صرف تعداد زیادہ ہے(ایک فرد کے دونوں جبڑوں میں32دانت ہوتے ہیں)،بلکہ یہ دو قسم کے بھی ہوتے ہیں۔ یعنی دودھ کے دانت، جنھیں طبّی اصطلاح میں "Deciduous teeth"کہا جاتا ہے اور یہ زمانۂ شیرخواری میں نکلتے ہیں، جب کہ دوسری قسم پکے دانت،’’Permanent teeth‘‘ہے، جو 25سال کی عُمر تک مکمل ہوجاتے ہیں۔دانت شکل اور جسامت کے اعتبار سے ایک دوسرے سے یک سر مختلف ہیں۔یہ اس کارخانے کے مانند ہیں، جس میں انواع و اقسام کی مشینری اپنی بساط، استطاعت، ساخت کے مطابق امور انجام دیتی ہے۔ سامنے کے دانت چیزوں کو کاٹنے کےلیے استعمال ہوتے ہیں، جب کہ پچھلے دانت چبانے میں مدد دیتے ہیں۔اس کےعلاوہ دانتوں کی ایک اہم خصوصیت یہ بھی ہے کہ وہ رنگ و نسل کے اعتبار سے تمام انسانوں میں یک ساں ہیں۔ ایسا نہیں کہ افریقا کے جنگلات میں مقیم افراد کے دانت رنگ کے اعتبار سے عرب کے صحرائوں میں رہنے والوں یا یورپ کی برف پوش وادیوں میں رہائش پزیر سفید چمڑی والوں سے مختلف ہوں۔ اور یہ بھی خالقِ کائنات کی صنّاعی کا ایک عظیم مظہر ہے کہ دنیا میں کسی بھی ایک شخص کے دانت دوسرے کے مُنہ میں فٹ نہیں ہوسکتے۔ لمبوترے، کتابی، گول اور چپٹے چہرے والے افراد کے دانتوں کی ساخت بھی مختلف ہوتی ہے۔ البتہ کسی کے دانت نوکیلے، کسی کے چوڑے اورکسی کے باریک ہوسکتے ہیں۔ اس کا انحصار افراد کے چہرے کی بناوٹ اور ساخت پر ہوتا ہے۔

غرض یہ کہ دانت قدرت کا ایک اَن مول تحفہ ہیں، مگر انسان کی طرف سے ان کی ناقدری کا یہ عالم ہے کہ وہ انھیں جسم کا ایک غیر اہم جزو جان کر ان کی طرف سے اکثر و بیش تر لاپروائی برتتا ہے۔ اسی لیے متعدد افراد دانتوں کے سڑنے (Dental caries) اور مسوڑھوں کی سوزش (Gingivitis) سے متاثر ہوجاتے ہیں۔ دانتوں کی صحیح طور پر حفاظت نہ کرنے کی وجہ سے کئی اقسام کی بیماریاں حملہ آور ہوجاتی ہیں۔دانت کے درد(Tooth Ache)کی وجہ سے اکثر بڑے اور چھوٹے بلبلاتےنظر آتے ہیں۔ ایسی صورت میں فوری طور پر ماہرِ امراضِ دندان ہی سے مشورہ کیا جائے، تاکہ وہ دانت کی تکلیف دیکھ کر اس کا بہتر علاج کرسکے۔ اکثر مریض اس خواہش کا اظہار کرتے ہیں کہ شدید درد کی صورت میں فوراً دانت نکال دیا جائے، حالاں کہ دانت نکلوانا،دانت کی تکلیف کا علاج نہیں، بلکہ کئی اور بھی مؤثر طریقۂ علاج موجود ہیں، جنہیں رُوبہ عمل لاکر فوری طور پر مریض کو شدید درد سے نجات دلائی جاسکتی ہے۔ جیسا کہ ایک طریقۂ علاج میں متاثرہ دانت کو خشک (Drier) کر کے فاسد مواد نکال دیا جاتا ہے اور مخصوص دوا پر مشتمل عارضی پٹی (TEMPORARY DRESSING)دانت کے سوراخ میں رکھ کر ادویہ دے دی جاتی ہیں۔ پھر تین دِن بعد درد ختم ہونے کی صورت میں دانت کو بَھر دیا جاتا ہے۔بعض مریضوں کو دانتوں میں ٹھنڈا، گرم محسوس ہوتا ہے۔ اس صورت میں متعلقہ دانت کا ایکسرے کرکے اس کی تھراپی (Root Canal Therapy) کردی جاتی ہے۔ اور اگر بالفرض آر سی ٹی بھی کام یاب نہ ہو، تو پھر (Apicectomy)کی جاتی ہے، مگر اکثر اس کی نوبت نہیں آتی ہے۔ اگر دانت کی کوئی سائیڈ ٹوٹی ہوئی ہو، تو بِرج (bridge) بناکر اس پر خول (CROWN) چڑھا کر بھی محفوظ بنایا جاسکتا ہے۔غرض یہ کہ دانت خدائے قدوس و رحمٰن کی ایسی اَن مول اور بیش بہا دولت اور نعمت ہے کہ جس کی جتنی بھی حفاظت اور قدر کی جائے ،کم ہے۔

(مضمون نگار، سینئر ڈینٹل سرجن ہیں)

تازہ ترین