اسلام آباد(طارق بٹ) پچھلے سال نیب نے جو سپریم کورٹ میں سب سے زیادہ کینہ رکھنے والے سیاستدانوں کی میگا کرپشن کے13.33 فیصد مقدمات کی چھوٹی سی فہرست جمع کرائی وہ کرپشن کی محض ایک جھلک تھی۔ اس بات کا یقین ہے کہ ان مقدمات میں ان سیاستدانوں کی اکثریت کو کلین چٹ مل جائے گی کیونکہ نیب نے ان مقدمات کی تحقیق و تفتیش جلدی کرنے کی ہدایات جاری کی ہیں۔ نیب چئیرمین قمر زمان نے ہدا یا ت جاری کی ہیں کہ ان مقدمات کو 10دنوں میں نمٹا یا جائے چاہے وہ ثبوت نہ ملنے کی صورت میں ختم کر دیئے جائیں یا احتساب عدالتوں میں ریفرنسز بھیجے جائیں۔جب وزیر اعظم نے ادارے کی کارکردگی پر سوالیہ نشان اٹھائے تو چئیرمین نیب نے ادارے کی کارکردگی میں بہتری لانے کا عہد کیا ۔ درحقیقت انھوں نے تسلیم کیا کہ وہ ادارے پر مکمل گرفت نہیں رکھتے لیکن وہ اس پر مکمل کنٹرول رکھنے کا مصمم ارادہ رکھتے ہیں۔اگرچہ سیاستدانوں کا پیوند شدہ تحقیقات کو التو ا میں ڈالنے میں تھوڑا بہت حصہ ہے لیکن اس کے مقابلے میں جو بدنامی ان کے حصہ میں آئی وہ بقیہ 86.67 فیصد مقدمات کے مقابلےمیں کہیں زیادہ ہے کیونکہ انھوں نے اعلی عہدوں کو انجوائے کیا اور عوام کے پیسوں پر خصوصی استحقاق حاصل کیا ۔ سیاستدانوں کا سب سے بڑا اعتراض یہ ہے کہ یہ ایک منظم سازش کا حصہ ہے کہ ان پر اس طرح کیچڑ اچھالی جارہی ہے ۔ ان کی تعداد فہرست میں بہت تھوڑی ہے جبکہ مشرف دور میں جنھوں نے غلط کام کئے ان سے پوچھا بھی نہیں جارہا ۔ آمر کے دور کا بمشکل کوئی ایک آدھا کرپشن کیس یا مالیاتی سکینڈل نیب کی رپور ٹ میں پیش نہیں کیا گیا۔ فہرست میں ان بیس کے قریب سیاسی رہنمائوں کے نام شامل ہیں جن پر مالیات، زمینں لینے اور عہدے کے غلط استعمال کے الزامات ہیں ۔ نیب کی فہرست میں جن رہنمائوں کو میگا کرپشن کیسز کی انکوائری کا سامنا ہے ان میں وزیر اعظم نواز شریف، وزیر اعلی پنجاب شہباز شریف، سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی ، راجہ پرویز اشرف، چوہدری شجاعت حسین، سابق صدر آصف علی زرداری، چوہدری پرویز الہی، غازی اختر، ہارون اختر، اسلم رئیسانی، عبدالغفور لہری، اسفندیار کاکڑ، معصوم شاہ، مرید کاظم، آفتاب شیرپائو، محمود زیب، نسیم الرحمان، ارباب سعداللہ، شاہنواز مری، ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان، سینیٹر سحر کامران اور اسحاق ڈار شامل ہیں۔ ان مقدمات میں سے کچھ خصوصا جو نواز شریف ، شہباز شریف ، اسحاق ڈار اور چوہدری شجاعت کے خلاف ہیں وہ پندرا سال سے زیادہ پرانے ہیں۔ یہ عمداایسا کرنے کی پالیسی ہے نیز یہ نیب کی نااہلیت ہے کہ ان مقدمات کا فیصلہ کرنا ابھی تک التو کا شکار ہے ۔ یہ سب مقدمات مارشل لا حکام کے حکم پر شروع کئے گئے اور ایسا سیاسی انتقام کی وجہ سے کیا گیا۔ ان مقدمات کی تحقیقات اور انکوائری اس لئے التو کا شکار رکھی گئی تاکہ ان نمایاں سیا ستد ا نو ں کے سروں پر یہ ایک لٹکتی تلوار رہے اور ایسا پس پردہ مقاصد کے تحت کیا گیا۔ تاہم اب یہ امید کی جارہی ہے کہ ابھی یا جلد نیب اب خود فیصلے لے گا۔ قمر زمان حکومت سے مزید الجھنے میں احتیاط کرتے دکھا ئی دیتے ہیں۔ ہر اہم سیاسی رہنما کو ان مقدمات میں مجرم کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔ لیکن ان میں پرویز مشرف کا کوئی حوالہ نہیں جنہوں نے دس ہزار کنال ملٹری کی زمین شہدا کے خاندانوں کے نا م پر یا سیاسی رشوت کے طور پر اپنے منظور نظر افراد میں غیرقانونی طور پر تقسیم کی اس حقیقت کےباوجود کہ ڈیرہ اسماعیل خان ملٹری اراضی الاٹمنٹ کیس کا نیب سے بہت تعلق ہے۔ جبکہ ان مبینہ کرپشن کے کیسز کی بنیاد پر سیاسی قیادتوں اور سول حکومتوں کو بدنام کیا جاتا رہا ۔ پرویز مشرف اس لحاظ سے خوش قسمت ثابت ہوئے ہیں کہ نیب نے ان سے منسلک ہر چیز سے صرف نظر کیا ہے ۔2005 اسٹاک ایکسچینج کے مطابق پاکستان سٹیل ملز نجکاری خوردبرد کرنا ، 2006 میں پینے کا صاف پانی پراجیکٹ پر مالی بدعنوانی،دفاعی سازوسامان کی خرید و فروخت میں مبینہ خفیہ معاہدے ، ملٹری اراضی کو سیاسی رہنمائوں میں اور اپنے ذاتی سٹاف میں بانٹنا، 2005میں زلزلہ فنڈ میں کرپشن، پنشن اسکینڈل، ڈی ایچ اے اور این ایل سی اسکینڈل اور پام ہوٹل اسکینڈل؛ تقریبا ہر چیز نیب نے پرویز مشرف کی نظر انداز کردی۔