• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان اور پولینڈ کے تعلقات اور جنرل باجوہ کا دورہ

پاکستان اور پولینڈ کے تعلقات اور جنرل باجوہ کا دورہ

پاکستان کی برّی فوج کے سربراہ ،جنرل قمر جاوید با جوہ کا پولینذ کا حالیہ دورہ اس امر کی غمازی کرتا ہے کہ پا کستان اپنے دفاعی معاملات کے حوالے سے سنجیدہ طور پر یہ کوششیں کر رہا ہے کہ اس کا سارا انحصار صرف ایک ملک یعنی،امریکا پر نہ رہے،بلکہ جن ممالک سے بھی باہمی تعا و ن کے نتیجے میں مثبت معاہدے ہو سکتے ہیںکیے جا ئیں ۔ اس ضمن میں پولینڈ کو پاکستان خاص اہمیت دے رہا ہے ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ماضی میں کمیونسٹ ملک ہونے کے با و جودپاکستان اور پولینڈ کے دیرینہ تعلقات رہے ہیں۔ ا ن تعلقات کی ابتدا ایک خاص صورت حال میںجنگِ عظیم دوم کے دوران 1942 میں ہوئی تھی جب برطانیہ نے پولینڈ کے 30 ہزار باسیوں کو جو پولینڈمیںحالات کی وجہ سے مشکلات کا شکار تھے کراچی میں’’مہاجر کیمپس‘‘ میں منتقل کر دیاتھا۔ یہ صورت حال جنگ عظیم دوم کے اختتام یعنی 1945تک قائم رہی۔ مگر جنگ ختم ہونےکے بعد بھی پولینڈ کے لوگوں کی ایک قابلِ ذکر تعداد کراچی میں مقیم رہی۔ قیامِ پاکستان کے بعد ان میں سے متعدد ا فر ا دنےپاکستان کی شہرت اختیار کر لی اور مختلف جامعات اور تعلیمی اداروں سے وابستہ ہو گئے۔

اسی دوران پاک فضائیہ کی تشکیل کا مسئلہ تھا تو پولینڈ کے درجنوں پائلٹس اور ایئر مینز نے پاک فضائیہ میں 1948 میں شمولیت اختیار کر لی تھی۔ بلکہ یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ پاک فضائیہ کی بنیاد ان ہی پائلٹس نے رکھی جن میں کموڈور Turowicz کا نام سرِفہرست ہے۔ بعد میں انہوں نے سپارکومیں بھی معمار کے طور پر اپنی خد ما ت فراہم کیں۔ پاکستانی ایئر فورس نے 2006 میں ان کی یاد گار ایئر فورس میوزیم میں رکھی ۔سابقہ وزیرِ دفاع، خرم دستگیر خان نے اپریل 2018 میں پولینڈ کا جودورہ کیا اسے بھی دونوں ممالک نے کموڈور Turowicz کے نام سے منسوب کیا۔

پاکستان کے پہلے وزیر اعظم شہید ملت، لیاقت علی خا ن نے اپنی وزارت عظمیٰ کےابتدائی دنوں ہی میں پولینڈ سے روابط قائم کرنے کی کوششیں شروع کر دی تھیں۔ پاکستان نے 17دسمبر 1962کو کمیونسٹ پولینڈسے با قا عدہ سفارتی تعلقات قائم کر لیےتھے۔پاکستان وہ پہلا اسلامی ملک تھا جس نے یہ اقدام کیا۔ پاکستان کی تاریخ کے بدترین واقعات میں سے ایک واقعہ پولینڈ ہی سے وابستہ ہے۔پولینڈ کے صدر کے دورہ پاکستان کے موقعے پر 17نومبر 1970کو ان پر کراچی ایئر پورٹ پر قا تلا نہ حملہ ہواتھا جس میں پولینڈ کے نئے وزیر خارجہ قتل ہو گئے اور تین پاکستانی بھی راہیِ ملکِ عدم ہو گئے تھے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ قاتل کو یہ پڑھایا گیا تھا کہ سوشلسٹوں کو قتل کرنا عین جنت کا راستہ ہے۔لہذا اس نے سرکاری و ین ان افراد پر چڑھا دی تھی۔ اس واقعے سے یہ اندازہ لگایاجا سکتا ہے کہ قتل و غارت گری کی آگ اسی وقت جلا د ی گئی تھی،جو اب آتش فشاں بن چکی ہے۔

پاکستان میں 2005 میں آنے والے قیامت خیز زلزلے کے موقعے پر بھی پولینڈ نے افرادی قوت بھیج کر بحالی کے کام میں بڑھ چڑھ کر مدد کی تھی۔پاکستان کے امریکاسے سرد ہوتے تعلقات کی وجہ سے پاکستان نے ا پنادفاع مستحکم کرنے کی غرض سے متبادل ذرایع کی جا نب توجہ دینا شروع کردی ہے۔اس ضمن میں پولینڈ کو پا کستا ن اس وجہ سے اہم مقام دے رہا ہے کہ چھوٹے ہتھیا ر و ں اور دفاعی سازوسامان کے حوالے سے پولینڈ کے پاس ا علیٰ تربیت یافتہ افرادی قوت اور 60کمپنیز ہیں۔پھر یہ کہ پولینڈ جو ہتھیار تیار کررہا ہے ان کی صلاحیت کسی طور پر بھی جدید ہتھیاروں سے کم نہیں ہے۔دراصل پاکستان، پولینڈ کی مدد سے دفاع کے جدید معیارات تک پہنچنا چاہتا ہے۔ ہیوی مشین گنز، نائٹ ویثرن پاکستان کے الخالد ٹینک ٹو، Unmanned Aerial Vehicle ،ریموٹ کنٹرول ہتھیاروں وغیرہ کے ضمن میں پولینڈ کی صلاحیت سے فائدہ اٹھانا چاہتا ہے۔

اسی طرح پاکستان کی یہ خواہش ہے کہ کامرہ وغیرہ میں پولینڈ کے تربیت یافتہ افراد آکر تربیت فراہم کر یں اورپاکستان کے فوجی افسران پولش ملٹری اسکولزمیں تر بیت حاصل کریں۔ جنرل قمر جاوید باجوہ کے حالیہ دورے سے پہلے ہی پاکستان کے اعلیٰ سطح کے وفود پولینڈ کا دورہ با لخصوص گزشتہ سال سے کر رہے ہیں۔ اس ضمن میں سابق وفاقی وزیر، رانا تنویر حسین نے گزشتہ سال پولینڈ کا دورہ کیاتھا اور ان امکانات پر تفصیلی غوروخوض کیا گیا تھاجو دو نو ں ممالک کے درمیان دفاعی تعاون کو بڑھا سکتے ہیں۔ اس کے بعد ہیوی انڈسٹریز ٹیکسلا کے سربراہ نے دورہ کیا اور پاکستان آرڈنیس فیکٹریز کے حکام نے بھی دورے کیے ۔ان تمام دوروں کا مقصد رانا تنویر کے دورے کے ذیل میں امکانات کو حقیقت میں تبدیل کرنے کے حوالے سے تھا۔ اس کے بعد پاک فضائیہ کے سربراہ ایئر مارشل سہیل امان نے پولینڈ کا دورہ کیا۔ ان کے دورے سے یہ واضح ہو گیا کہ پاکستان کےاعلیٰ ترین فوجی حکام کو بھی ان معا ملا ت میں پولینڈ کو کلیدی حیثیت میںبرقرار رکھنا چاہتے ہیں۔

گزشتہ اپریل میں سابق وزیر دفاع خرم دستگیر نے پولینڈ کا دورہ کیا توپانچ برسوں میںاپنی حکومت کے دور میں ہونے والی پاکستان کی کام یابیاں بھی گنوائیں۔ ا نہو ں نے پاکستان کی اقتصادی ترقی ، جمہوریت کے تسلسل ا و رانسداد دہشت گردی کے حوالے سے پاکستان کی کام یا بیوں کا ذکر کیاجنہیں تسلیم بھی کیا گیا۔ اس دورے کے دو ران دونوں ممالک کے درمیان باقاعدہ دفاعی معاہدہ بھی ہوا۔جنرل قمر جاوید باجوہ کا حالیہ دورہ درحقیقت ان مستقل اقدامات ہی کا تسلسل ہے جو گزشتہ دو،تین برسوں سے ہو رہے تھے۔ اس سے پہلے انہوں نے اپریل کے مہینےمیں روس کا بھی دورہ کیا تھاتاکہ پاکستان کی دفاعی ضروریات پوری کرنے کے لیےنئے دروا کیے جا سکیں۔ اور ان سب کے لیےمنصفانہ انتخابات کے ذریعے جمہو ر یت کا تسلسل ضروری ہے۔ 

تازہ ترین