• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ترکی میں اردوان کی پھر کام یابی

ترکی کے انتخابی کمیشن نے 25؍جون کواعلان کیا کہ رجب طیّب اردوان صدارتی انتخاب کے پہلے مرحلے میں جیت گئے ہیں، مگر یہ اعلان حزبِ اختلاف کے لیے قبول کرنا اتنا آسان نہیں،اس لیے اس نے نتیجہ تسلیم کرنے میں پس و پیش سے کام لیا ہے۔ سرکاری ذرایع ابلاغ 53فی صد ووٹ طیّب اردوان کے کھاتے میں ڈال رہے ہیں اور ان کے قریبی حریف محرم انجے کو صرف 31فی صد ووٹ ملنے کی اطلاع دی گئی ہے۔ حتمی نتائج کا اعلان جمعے کو متوقع ہے۔

ترکی کے ان انتخابات کی اہمیت اس لیے بہت بڑھ گئی ہےکہ اب ترکی میں نیا آئین نافذ کیا جائے گا جس کے تحت صدر کو بہت زیادہ اختیارات حاصل ہو جائیں گے۔ ظاہر ہے کہ اختیارات کا فردِ واحد میں بہت زیادہ ارتکاز جمہوریت کو کم زور کر دیتا ہے، چاہے ایسا ارتکاز صدر یا وزیراعظم کے عہدے میں ہو یا کسی اور عہدے میں۔جمہوریت کی کام یابی کےلیےاختیارات میں توا ز ن بہت ضروری ہوتا ہے اور زیادہ تر مطلق العنان حکم رانوں کی کوشش ہوتی ہے کہ مختلف پہلوئوں سے اقتدارپر مکمل قبضہ کر لیں تاکہ کوئی ان کے سامنے دم نہ مار سکے۔

یہ غالباً پہلا موقع تھا کہ ترکی میں صدارتی انتخاب کے ساتھ پارلیمانی انتخابات ہوئے۔ سرکاری ذرایع ا بلا غ کے دعوے کے مطابق حکم راں جماعت نے 42فی صد ووٹ حاصل کیےہیںاور حزبِ مخالف کو صرف 23فی صد ووٹ ملےہیں۔ انتخابی نتائج کو قابلِ اعتبار ظاہر کر نے کے لیےیہ دعوے بھی کیے جا رہے ہیں کہ رائے دہی کا تناسب 85سے 90فی صد کے درمیان رہا۔ اگر واقعی ایسا ہے تو یہ بہت بڑا کارنامہ ہے کیوں کہ عام طور پر بڑے ترقی یافتہ ممالک میں بھی اگر نصف لوگ بھی ووٹ ڈالنے نکل آئیں تو اسے بہت سمجھا جاتا ہے۔

ترکی کے انتخابی قانون کے مطابق اگر پہلے مرحلے میں کوئی بھی صدارتی امیدوار 50فی صد ووٹ حاصل نہ کر سکے تو دوسرے مرحلے کا آغاز ہوتا ہے جس میں صرف دو سب سے زیادہ ووٹ لینے والے امیدواروں کے در میا ن مقابلہ ہوتا ہے۔ حزبِ مخالف کا کہنا ہے کہ سرکاری دعووں کے مطابق 53فی صد ووٹس کا حصول گم راہ کن ہو سکتا ہے اور ممکن ہے کہ حتمی نتائج کے اعلان تک صدر کےچار تا پانچ فی صد ووٹس کم ہو جائیں جس سے دوسرے مرحلے کی ضرورت پیش آ سکتی ہے۔

اہم بات یہ ہے کہ ترکی میں دو سال قبل جولائی 2016میں ہونے والی ناکام بغاوت کے بعد سے اب تک صدر اردوان نے ہنگامی حالت نافذ کر رکھی ہے اور انتخابات کے لیےبھی ان میں کوئی نرمی نہیں کی گئی۔ ان حالات میں پوری ریاستی مشینری صدر اردوان کے ا شا ر و ں پر چلتی رہی ہے اور حزبِ مخالف کو بہت زیادہ دبائو کا سامنا تھا کیوں کہ دو برسوںمیں صدر اردوان نے خود کو بچا نے کے غیر معمولی اقدامات کیے اور جو بھی وکیل، صحافی، استاد یا کوئی اور ان کو مخالف نظر آیا اسے مختلف بہانوں سے اور بغاوت کا حامی قرار دے کر بند کر دیا گیا۔ پھر میڈیا گروپس کو بھی نشانہ بنایا گیا جس سے پورا جمہوری عمل متاثر ہوااور ان انتخابات کی شفافیت بری طرح مجروح ہوئی ہے۔ چوں کہ وہ ہنگامی حالت غیر معینہ مدّت تک نافذ نہیں رکھ سکتے تھےاس لیےجوانتخابات نومبر 2019 میںہونےتھے انہیں انہوں نے قبل از وقت کرانے کا اعلان کر دیا جس کا انہیں فائدہ ہوا ہے اور 15سال سے برسرِاقتدار اردوان ایک بار پھر منتخب ہو گئے ہیں۔

اب صدر اردوان جو نیا آئین نافذ کریںگے اس کے تحت صدر بہ راہ راست اعلیٰ سرکاری عہدوں پر تعینا تیا ں کر سکیں گے جن میں تمام وزراء کے علاوہ نائب صدور کی تقرری بھی شامل ہو گی۔ پھر یہ کہ صدر اردوان ملک کے قانونی نظام میں بھی مداخلت کر سکیں گے اور جب چاہیں گے ہنگامی حالت نافذ کر سکیں گے۔ گو کہ کئی دیگر مما لک میں بھی صدارتی نظام نافذ ہے، مثلاً امریکا اور فرانس میں، مگر کہیں بھی صدور کو اتنے اختیارات حاصل نہیں ہیں جتنے اب اردوان حاصل کرنے جا رہے ہیں۔

سیاسی تاریخ بتاتی ہے کہ جہاں بھی حکم راں اتنے ا ختیارات حاصل کرلیتا ہے یا کرنا چاہتا ہے اس کا جواز عام طور پر یہ بتایا جاتا ہے کہ اس سے اقتصادی حالات بہتر بنانے میں مدد ملے گی اور اس طرح باغیوں کو کچلا جا سکے گا۔ اردوان نے بھی ان ہی دو وجوہ کو بہانہ بنایا ہے اور بے چارے کُرد تو ہمیشہ سے ترکی کی مرکزی حکومت کے ظلم و ستم کا شکار رہے ہیں اور اب ان میں اضافے کا ا مکان ہے۔ حالاں کہ کُردوں کا مسئلہ ایسا نہیں ہے کہ اسے گفت و شنید سے حل نہ کیا جا سکے۔ مساوی شہری حقوق حاصل کرنا ان کا حق ہے، لیکن تقریباً ہر ترک حکومت نے کُردوں کو ان کے حقو ق دینے سے انکار کیا اور ان کے مطا لبات کو ملک دشمن گردانا گیاجس سے ترکی کی جمہوریت کم زور ہوئی ہے اورکُرد کم تر درجے کے شہری بن گئے ہیں۔ انتخابات جیتنے کے بعد اردوان نے پرانے دعوے دہر ا ئے ہیں کہ وہ ’’دہشت گردوں کا خاتمہ‘‘ کر دیں گے اور شام کے علاقوں کو بھی آزاد کرائیں گے تاکہ شامی مہا جر ین اپنے گھروں کو واپس جا سکیں۔

یاد رہے کہ 2014میں صدر بننے سے قبل اردوان 11سال وزیراعظم کے عہدے پر فائز رہ چکے تھے۔ نئے آئین کے تحت جب ان کی مدّت صدارت 2023 میں ختم ہو گی تو وہ ایک اور مدّت کے لیے بھی صدارتی انتخاب لڑ سکیں گے جس کے بعد ممکنہ طور پر وہ 2028تک برسراقتدار رہ سکتے ہیں۔ اگر ایسا ہوا تو وہ ربع صدی سے زیادہ ترکی پر حکومت کرچکے ہوں گے۔

سوچنے کی بات یہ ہے کہ حالیہ انتخابات سے پہلے طیّب اردوان نے یہ بات یقینی بنا لی تھی کہ پرنٹ اور ا لیکٹرانک میڈیا مکمل طور پر ان کا حامی ہو اور حزبِ مخالف کو ذرایع ابلاغ میں بہ مشکل 10فی صد کوریج دی گئی۔ پھر گلیوں، بازاروں اور چوراہوں پر ہر طرف حکم راں جما عت کے جھنڈے، پوسٹرز اور بینر زوغیرہ لگادیے گئے جن کے مقابلے میں حزبِ مخالف کی موجودگی بہت کم نظر آئی۔ پھر بھی اردوان کا 53فی صد یا نصف سے کچھ زیادہ ووٹ حاصل کرنا یہ ظاہر کرتا ہے کہ انہیں دعووں کے برعکس اتنی مقبولیت حاصل نہیں جتنی کہ ظاہر کی گئی تھی۔

حزبِ مخالف کے کئی رہنمائوں اور آزاد صحافیوں کا کہنا ہے کہ ترکی میں برسرِاقتدار جماعت نے تقریباً فا شز م اختیار کر لی ہے جو جمہوریت کےلیے تازیانہ ہے۔ کسی بھی جماعت کا 55سال تک برسرِاقتدار رہنا اور پھر حزبِ مخالف کو کچلنا کسی بھی طرح جمہوریت کے لیےاچھا شگون قرار نہیں دیا جا سکتا۔نئے آئین کے ساتھ طیّب اردوان وزیراعظم کا عہدہ ہی ختم کرنے کے درپے ہیں اور صدر اور وزیراعظم دونوں کے اختیارات اپنے ہاتھوں میں مرکوز کر لیں گے۔وہ اعلیٰ ترین ججز کا انتخاب اور تعیناتی بھی خود کر سکیں گے۔ اس طرح ان کے اقتدار کو کہیں سے بھی کوئی خطرہ نہیں رہے گا۔ فوج کو تو وہ پہلے ہی زیرنگیں کر چکے ہیں۔

یہ عجیب بات ہے کہ کمال اتا ترک کے انقلاب کے تقریباً 100 سال بعد ترکی میں ایک اور اتنا طاقت ور حکم راںابھر رہا ہے۔ انقلاب کے بعد تقریباً 80سال تک تو ترک فوج اقتدار پر حاوی رہی اور جمہوریت کو چلنے نہیں دیا۔ مگر پچھلے 20برسوں میں صورت حال میں تبدیلی آ ئی ہے اور ترک عوام جوفوج کی بار بار کی مداخلت سے نالاں تھے، انہوں نے فوج کے خلاف اردوان کا ساتھ دیا ہے۔اگر ابتدائی 80سال تک جمہوریت کو چلنے دیا جاتا تو صدر اردوان کے لیے یہ ممکن نہ ہوتا کہ وہ فوج کے ساتھ عدلیہ کو بھی اپنے ماتحت کر لیں۔ مگر کیا کریں کہ جمہوریت سے روگردانی کا خمیازہ پورے معاشرے کو بھگتنا پڑتا ہے اور اگر فوجی بالادستی ختم ہو بھی جائے تو سول حکم راںوہی حرکتیں شروع کر دیتے ہیں۔

ترکی کے نقشے پر نظر ڈالنے سے پتا چلتا ہے کہ طیّب اردوان نے وسطی ترکی سے اکثریت حاصل کی ہے اور یورپ کے قریبی علاقوں ،یعنی مغربی اور ترقی یافتہ ترکی سے حزبِ مخالف نے زیادہ ووٹ لیے ہیں۔ ایچ ڈی پی پارٹی کے امیدوار دیمر تاس نے مشرقی ترکی کے کُرد علاقوں میں کام یابی حاصل کی ہے۔

اب چوں کہ اردوان اور ان کے اتحادی پارلیمان میں بھی اکثریت حاصل کر چکے ہیں، لہذا ترکی کا مستقبل قر یب طیّب اردوان ہی کے اقتدار میں نظر آتا ہے۔ کاش کہ کوئی تو اسلامی ملک ایسا ہو جہاں جمہوری روایات کی بالادستی ہو۔

تازہ ترین