• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
,

اذانِ مغرب اور اقامت کے دوران کتنا وقفہ کیا جاسکتا ہے ؟

تفہیم المسائل

سوال : نمازِ مغرب میں اذانِ مغرب اور اقامت کے دوران کتنا وقفہ کیا جاسکتا ہے ؟کیا اذان کے فوراً بعد بغیر کسی تاخیر جماعت قائم کرنا لازم ہے اور تاخیر میں کوئی شرعی قباحت ہے ؟(محمد رمیز احمد ، کراچی )

جواب : ہرنماز کی اذان واقامت( بشمول نمازِ مغرب )کے درمیان وقفہ کرنا مشروع ہے، لیکن آج کل اذانِ مغرب کے بعد وقفہ نہیں کیا جاتا اور فوراً اقامت کہہ دی جاتی ہے۔ ہر چند کہ نمازِ مغرب کا وقت دوسری نمازوں کے مقابلے میں کم ہے، لیکن اتنا کم بھی نہیں جتنا عام لوگوں نے سمجھ رکھا ہے اور اس قدر حساس ہوگئے ہیں کہ اگر کبھی اتفاقاً کسی مسجد میں کچھ وقفہ (دو تین منٹ) کرلیا جائے تو اسے خلافِ شریعت سمجھا جاتا ہے اور بعض نمازی جذباتی انداز اختیار کرتے ہوئے شور مچانے لگتے ہیں ، یہ جاننے کی زحمت گوارا نہیں کرتے کہ شریعت میں اس عمل کی گنجائش یا رعایت موجود ہے یا نہیں ؟اگرچہ اذان کے بعد نسبتاًنمازِ مغرب عجلت سے پڑھنا مستحب ہے لیکن مغرب کا سارا وقت صحیح ہے اور کراہت سے خالی ہے ، چند منٹ کی تاخیر ہوجائے تو کوئی حرج نہیں ہے۔ اسی بناء پر رمضان المبارک میں نمازِ مغرب میںتقریباً دس منٹ یا کم وبیش کا وقفہ کیا جاتا ہے، تاکہ لوگ گھر پر یا مساجد میں افطار کرکے جماعت میں شامل ہوسکیں ۔اکثر صحابۂ کرامؓ مغرب کی اذان کے بعد اور اقامت سے پہلے دورکعت نفل پڑھتے تھے ،تاہم قلّتِ وقت کو ضرور مدِ نظر رکھتے تھے ،حضرت انس بن مالکؓ بیان کرتے ہیں : ترجمہ:’’ جب مؤذن اذان سے فارغ ہوجاتا تو نبی کریم ﷺ کے اصحاب کھڑے ہوکر جلدی جلدی ستونوں کے قریب آجاتے ،اتنے میں نبی کریم ﷺتشریف لے آتے اور صحا بہ ٔ کرام ؓاسی حال میں نمازِ مغرب سے پہلے دو رکعت پڑھتے اور اذان اور اقامت کے درمیان کوئی اور چیز نہ ہوتی ،(صحیح بخاری ،رقم الحدیث : 625)‘‘۔امام بخاریؒ حضرت عبداللہ مُزنی سے نقل کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا:ترجمہ:’’ نمازِ مغرب سے پہلے نماز (نفل ) پڑھا کرو ،تیسری مرتبہ فرمایا: جس کی مرضی ہو پڑھے، رخصت آپ نے اس لئے دی کہ کہیں لو گ اسے سنت نہ بنالیں، (صحیح بخاری ،رقم الحدیث :7368) حضرت انس بن مالک ؓ بیان کرتے ہیں کہ مدینہ میں جب مؤذن مغرب کی اذان دیتا تو ہم لوگ ستونوں کی آڑ میں ہوکر دو رکعت نماز (نفل) پڑھتے تھے، حتیٰ کہ اگر کوئی نیا آدمی مسجد میں آتاتو زیادہ تعداد میں لوگوں کے نماز میں مشغول ہونے کی وجہ سے وہ سمجھتا کہ شاید جماعت ہوچکی ہے،(صحیح مسلم ،رقم الحدیث :1936) علامہ بر ہان الدین ابو الحسن علی بن ابی بکر مرغینانیؒ لکھتے ہیں :’’(موذن) اذان اور اقامت کے درمیان جلسہ کرے (بیٹھے)سوائے نمازِ مغرب کے ،یہ امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے نزدیک ہے اور صاحبین(امام ابو یوسفؒ اور امام محمدؒ) نے فرمایا :مغرب میں بھی تھوڑی دیر بیٹھے ،اس لئے کہ (اذان واقامت کے درمیان) فصل(جدائی) ضروری ہے اور وصل (دونوں کوملانا) مکروہ ہے ،اور محض معمولی سکتے سے فصل واقع نہیں ہوتا ،کیونکہ وہ تو کلماتِ اذان کے درمیا ن بھی ہوتا ہے ۔پس مؤذن اس طرح بیٹھے جس طرح خطیب دونوں خطبوں کے درمیان بیٹھتا ہے اور امام اعظم ابو حنیفہؒ کے نزدیک (زیادہ)تاخیر بھی مکروہ ہے،لہٰذا کراہت سے بچنے کے لئے معمولی سی فصل کافی ہے ،( ہدایہ اولین،جلد1ص: 88مکتبہ رحمانیہ ،لاہور)‘‘۔ علامہ علاؤالدین حصکفی ؒلکھتے ہیں:’’ ( مؤذن اذان واقامت کے درمیان بیٹھے)،یہ رعایت کرتے ہوئے اتنے مناسب وقت تک(ٹھہرا رہے) کہ لوگ مستحب وقت کی رعایت کے لئے اپنے ضروری کاموں سے فارغ ہوکر جماعت کے لئے حاضر ہوسکیں ،سوائے نمازِ مغرب کے ،پس(اذان مغرب کے بعد) تین چھوٹی آیات کے برابر خاموش کھڑا رہے ،اور اذان واقامت میں وصل (ملانا،وقفہ نہ کرنا)بالاتفاق مکروہ ہے ،علامہ ابنِ عابدین شامی ؒ’’ فیسکت قائماً‘‘ کے تحت لکھتے ہیں :ترجمہ:’’یہ وقفہ(تین چھوٹی آیات کے برابر کھڑا رہنا ) امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ ا للہ کے نزدیک ہے اور صاحبین(امام محمدؒ وامام ابو یوسف ؒ) کے نزدیک یہ ہے کہ مؤذن اتنی مقدار بیٹھے ،جس طرح خطیب دو خطبوں کے درمیان بیٹھتا ہے اور اختلاف افضلیت میں ہے ،پس اگر مؤذن بیٹھ گیا ،تو امام اعظمؒ کے نزدیک بھی مکروہ نہیں ہوگا ،(ردالمحتار علیٰ الدرالمختار ،جلد2،ص:52،دار احیاء التراث العربی ،بیروت)‘‘۔(جاری ہے)

تازہ ترین
تازہ ترین