سکھر (رپورٹ: چوہدری محمد ارشاد، بیورو چیف)عام انتخابات ہوں یا بلدیاتی انتخابات سکھر ضلع پیپلزپارٹی کا مضبوط قلع تصور کیا جاتا ہے، 2008کے عام انتخابات میں پیپلزپارٹی نے ضلع بھر میں قومی اور صوبائی اسمبلی کی 6نشستوںپر کلین سوئیپ کامیابی حاصل کی۔2013کے انتخابات میں پیپلزپارٹی نے قومی اسمبلی کی 2اور صوبائی اسمبلی کی 3نشستوں پر کامیابی حاصل کی ، پی ایس ون سکھر کی نشست پر ایم کیو ایم کے امیدوار کامیاب ہوئے اور بلدیاتی انتخابات میں ضلع کونسل اور یونین کمیٹیوں میں پیپلزپارٹی کی کامیابی کا تسلسل جاری رہا، چند ایک نشستوں کے علاوہ باقی تمام نشستوں پر پیپلزپارٹی کے امیداور کامیاب ہوئے،سکھر کا میئر اور ضلع کونسل کے چیئرمین بھی پیپلزپارٹی کے پلیٹ فارم سے منتخب ہوئے ہیں۔عام انتخابات ہوں یا بلدیاتی انتخابات اس وقت تک جو بھی انتخابات ہوئے ہیں اس میں پیپلزپارٹی کا پلڑا بھاری رہا ہے۔سید خورشید احمد شاہ جو کہ قومی اسمبلی کی نشست199سے منتخب ہوتے رہے ہیں ان کی نشست199اب این اے206 سکھر ون میں تبدیل ہوچکی ہے جس سے وہ انتخابات میں حصہ لے رہے ہیں جبکہ سابق رکن قومی اسمبلی نعمان اسلام شیخ جن کی سابقہ نشست این اے 198تھی وہ اب این اے 207سکھر ٹو ہوگئی ہے جس سے وہ الیکشن لڑرہے ہیں۔جن کے والد پیپلزپارٹی کے سینیٹر اسلام الدین شیخ اور بھائی بیرسٹر ارسلان اسلام شیخ سکھر کے میئر ہیں۔پیپلزپارٹی کی جانب سے قومی اسمبلی دو اور صوبائی اسمبلی کی چارنشستوں میں صرف ایک نشست پی ایس 25پر امیدوار تبدیل کیا گیا ہے اور پہلی مرتبہ سید خورشید احمد شاہ کے بیٹے سید فرخ شاہ پی ایس 24سے انتخابات میں حصہ لے رہے ہیں،باقی پانچ امیدواروں میں سابق رکن قومی اسمبلی سید خورشید احمد شاہ ، نعمان اسلام شیخ، سابق رکن صوبائی اسمبلی سید ناصر حسین شاہ، سید اویس قادر شاہ اور جام اکرام اللہ دھاریجو شامل ہیں۔سید خورشید احمد شاہ جو کہ ایک طویل عرصے سے پیپلزپارٹی کے پلیٹ فارم سے سیاست کررہے ہیں اور نہ صرف سکھر بلکہ ملک میں ایک سیاسی قدآور شخصیت کے طور پر شناخت رکھتے ہیں، پہلے ان کے بھتیجے اور داماد سید اویس قادر شاہ ان کے ساتھ سیاست میں موجود تھے اب ان کے بیٹے سید فرخ شاہ نے بھی میدان سیاست میں قدم رکھ دیا ہے اس سے قبل سید فرخ شاہ ضلع کونسل کے انتخابات میں یونین کونسل کی نشست پر بلا مقابلہ کامیاب ہوئے تھے اور اب وہ باقاعدہ صوبائی اسمبلی کی نشست سے الیکشن لڑرہے ہیں اور اپنے سیاسی کیریئر کا آغاز کررہے ہیںانہیں اپنے والد سید خورشیدا حمد شاہ کی سیاست کا بہت زیادہ فائدہ ہوگا۔سابق قائد حزب اختلاف سید خورشید احمد شاہ عوام میں بہت زیادہ مقبولیت رکھتے ہیں جس کی بڑی وجہ پانچ سال تک قائد حزب اختلاف رہنے کے باوجود سیدخورشید احمد شاہ ہر ہفتے سکھر آتے اور اپنے حلقے اور ضلع بھر کے لوگوں سے ملنے سمیت سندھ کے مختلف اضلاع کے بھی دورے کرتے رہے، پیپلزپارٹی 2018ء کے انتخابات میں بھی سکھر ضلع میں اپنی کامیابی کے حوالے سے پر امید دکھائی دیتی ہے۔ جبکہ دوسری جانب اس مرتبہ پیپلزپارٹی کے لئے کامیابی اتنی آسان نہیں ہوگی کیونکہ ان کے مد مقابل پاکستان تحریک انصاف، گرینڈ ڈیمو کریٹک الائنس، متحدہ مجلس عمل اور ایم کیو ایم پاکستان کے امیدوار بھرپور انداز میں انتخابات میں حصہ لے رہے ہیں، اور پہلی مرتبہ پی ایس پی اور تبدیلی پسند پارٹی کے امیدوار بھی انتخابی معرکے کا حصہ بن چکے ہیں۔ گرینڈ ڈیمو کریٹک الائنس کی جانب سے تحریک انصاف کے ساتھ مل کر الیکشن لڑنے کا فیصلہ بھی کیا گیا ہے اور گرینڈ ڈیمو کریٹک الائنس اورتحریک انصاف قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلی کی نشستوں پر مل کر الیکشن لڑیں گے، صوبائی اسمبلی میں دو مضبوط امیدوار گھوٹکی کے مہر برادران میں سے سردار علی گوہر خان مہر صوبائی اسمبلی کی نشست پی ایس 22اور پیپلزپارٹی کے ناراض رہنما محمد علی شیخ پی ایس 23پر پیپلزپارٹی کے مد مقابل ہیں، یہ دونوں صوبائی اسمبلی کی نشستیں این اے 206سے منسلک ہیں جبکہ قومی اسمبلی کی نشست پر تحریک انصاف کے سید طاہر حسین شاہ سید خورشیدا حمد شاہ کے مد مقابل الیکشن لڑرہے ہیں اور متحدہ مجلس عمل کے راشد محمود سومرو ، پی ایس پی کی ناہید بیگم سمیت دیگر امیدوار بھی سید خورشید احمد شاہ کے مد مقابل ہوں گے، اسی طرح این اے 207سکھر ٹو کی نشست پر پیپلزپارٹی کے امیدوار نعمان اسلام شیخ کے مد مقابل تحریک انصاف کے مبین احمد جتوئی اورمتحدہ مجلس عمل ، ایم کیو ایم، پی ایس پی، تبدیلی پسند پارٹی اور دیگر سیاسی، مذہبی جماعتوں سمیت آزاد امیدوار انتخابات میں حصہ لے رہے ہیں، موجودہ انتخابی صورتحال میں پیپلزپارٹی کے خلاف قدآور سیاسی شخصیات کے مد مقابل آنے اور پیپلزپارٹی کے خلاف بننے والے اتحاد کو مد نظر رکھتے ہوئے سید خورشید احمد شاہ نے ضلع کی تمام نشستوں پر انتخابی مہم کی کمان سنبھال لی ہے اور وہ نہ صرف اپنی نشست این اے 206بلکہ این اے 207سمیت صوبائی اسمبلی کی تمام نشستوں پر اپنے امیدواروں کے ساتھ انتخابی مہم میں مصروف عمل ہیں۔ کیونکہ خاص طور پر شہری علاقوں میں پیپلزپارٹی کے امیدواروں کو عوام کے سوال و جواب کا سامنا کرنا پڑرہا ہے اور یہ پہلا موقع ہے کہ عوام اپنے امیدواروں سے پوچھ رہے کہ انہوں نے دس سالوں میں شہریوں کیلئے کیا کیا، صورتحال اس قدر خراب ہے کہ نیوپنڈ اور ٹکر محلہ جو کہ گنجان آبادی والے علاقے ہیں وہاں عوام نے اپنے منتخب نمائندوں پر سوالات کی بارش کردی۔