ڈاکٹر مدثر یٰسین
انگور ایک ایسا پھل ہے جس کا ذکر قرآن پاک میں بھی موجود ہے اور یہ بادشاہوں کاپھل بھی کہلاتا ہے ۔انگور تقریباً دنیا کے ہر ملک میں کاشت کیا جاتا ہے ۔ دنیا میں سب سے زیادہ انگور چین ، امریکہ ، اٹلی اور فرانس میں پیدا ہوتا ہے اور اس کی پیداوار 70ہزار ملین ٹن ہے ۔ 8ہزار سال پہلے تجارتی پیمانے پر جس علاقے میں باقاعدہ طور پر انگور کی کاشت کی گئی تھی اس کو اب مڈل ایسٹ کہتے ہیں ۔ پاکستان میں انگور 15302ہیکٹر رقبے پر کاشت کیا جاتا ہے اور اس کی سالانہ پیداوار 64317ٹن ہے ۔ پاکستان میں سب سے زیادہ انگور بلوچستان میں 15153ہیکٹر رقبے پر کاشت کیاجاتا ہے جس سے مجموعی پیداوار کا 63150 ٹن پھل حاصل ہوتا ہے ۔ اس کے علاوہ اب یہ تقریباً پنجاب کے تمام اضلاع میں بھی کاشت کیا جا رہا ہے اور جنوبی پنجاب میں باقاعدہ طور پر "چولستان گر یپس ویلی "کا اعلان کر دیا گیا ہے جہاں گورنمنٹ آف پنجاب کی مدد سے زمینداروں کو سبسڈی دے کر انگور کی کاشت کی جارہی ہے ۔
روز مرہ زندگی میں انگور کا بہت عمل دخل ہے اس سے مختلف اقسام کے جوسز اور جیلیز وغیرہ بنائی جاتی ہیں اور سب سے اہم بات یہ کہ مختلف بیماریوں مثلاً کینسر ، دل کے امراض ، آنکھوں اور شوگر کے امراض میں مبتلا مریضوں کو استعمال کروانے سے خاطر خواہ فائدہ ہوتا ہے ۔انگور کو باقی دوسرے پھلوں کے مقابلے میں کم پانی کی ضرورت ہوتی ہے اور اس پودے کی اوسط پیداواری زندگی 30سے35سال ہے اور اس کی کاشت پر آنے والے اخراجات بھی کم ہیں ۔ ایک عام سی بات جو دیکھنے میں آئی ہے کہ کاشتکارانگوروں کا رنگ تبدیل ہوتے ہی اس کو پودے سے کاٹنا شروع کر دیتے ہیں۔ جبکہ سائنسی لحاظ سے انگور میں جب (soluble solid concentration/ titratalle acidity) کی مقدار 14سے 17.5فیصد تک ہو تو یہ قابل برداشت حالت میں آچکا ہوتا ہے۔ اصل میں کاشتکار بھائیوں کو انگور کی پیداواری ٹیکنالوجی بارے میں معلومات کی کمی اور فنی تربیت کے فقدان کی وجہ سے بہت سے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے جس کی وجہ سے وہ پودے سے قبل از برداشت ہی پھل توڑنا شروع کر دیتے ہیں اوراس طرح مارکیٹ میں پھل کی مطلوبہ قیمت حاصل نہیں کر پاتے ۔ چونکہ انگور کا پھل پودے پر ہی پکتا ہے تو اس کو توڑنے سے اور منڈی لے جاتے وقت اگر چند ضروری احتیاتی تدابیر کو مد نظر رکھا جائے تو پھل کا ضیاع کم ہو گا ۔ منڈی میں بھائو بھی اچھا مل جائے گا جب انگور کا پھل قابل برداشت حالت میں آنا شروع ہوتا ہے تو اس میں شوگر (مٹھاس )کی مقدار بڑھنا شروع ہو جاتی ہے اور اس وقت دانے کے سائز میں ہفتہ وار 5فیصد اضافہ ہو نا شرو ع ہو جاتا ہے ۔
1۔ پھل کی کٹائی کرنے سے کچھ روز قبل آبپاشی کا عمل بند کر دینا چاہیے ۔
2۔ کٹائی کرنے سے قبل پھل کے رنگ کو اچھی طرح سے جانچ لینا چاہیے اور صرف پکے ہوئے پھل کو کاٹیں ۔
3۔ بارش ہونے کی صورت میں پھل کی کٹائی کم از کم تین دن کے وقفے سے کرنی چاہیے ۔
4۔انگور کا پھل پودے پر ہی پکتا ہے اس لیے اس کی قابل برداشت حالت کا خاص خیال رکھا جائے ۔
5۔پھل کو احتیاط سے کاٹنے کے بعد کمزور داغداد اور بیماری والے دانوں کو گچھے سے کاٹ کر علیحدہ کر لینا چاہیے ۔
6۔پھل کو صبح کے وقت کم درجہ حرارت میں کاٹنا چاہیے اور اس کو کاٹنے کے بعد یا تو پودے کے نیچے ہی فوراً صفائی کر کے پیک کر دینا چاہیے یا پھر کاٹے ہوئے پھل کو سایہ دار جگہ پر لے جا کر اس کی صفائی کر کے پیک کیا جائے ۔
7۔ دوران صفائی بے رنگ گچھے ، چھوٹے سائز کے دانے ، گلے سڑے بیمار اور پھپھوندی والے دانوں کو نکال کر تلف کر دینا چاہیے ۔
8۔ دوران کٹائی درجہ حرارت کا خاص خیال رکھنا چاہیے کیونکہ 32ڈگری سینٹی گریڈ پر انگور کا پھل ایک گھنٹے بعد خراب ہونا شروع ہو جاتا ہے جبکہ 4ڈگری سینٹی گریڈ پر ایک دن تک سلامت رہ سکتا ہے ۔
9۔پھل کو ہمیشہ ہواداراور صاف ستھرے ڈبوں میں پیک کرنا چاہیے ۔اگر اوپر دی گئی چند ضروری گزارشات اور احتیاتی تدابیر کو مد نظر رکھا جائے تو بہت سے نقصان سے بچا جا سکتا ہے ۔
انگور کی پیداواری ٹیکنالوجی اور ہر قسم کی تکنیکی معاونت کیلئے محمد نواز شریف زرعی یونیورسٹی ملتان کے وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر آصف علی اپنی تمام ٹیکنیکل ٹیم کے ہمراہ ہر وقت کسانوں کی مدد کیلئے کوشاں رہتے ہیںاور ان کی جانب سے اعلان ہے کہ کوئی بھی زمیندار ٹیکنیکل مدد کیلئے کسی بھی وقت یونیورسٹی انتظامیہ سے رابطہ کر سکتا ہے۔ مستقبل میں جامعہ انگور کے کاشتکاروں کی تربیت کیلئے مختلف شارٹ کورسز کا بھی آغاز کر وا رہی ہے اور ساتھ ساتھ ان کی ٹریننگ اور مسائل کے حل کیلئے پراجیکٹ بھی لانچ کر رہی ہے تاکہ انگور کی کاشت کو بڑھایا جا سکے ۔