• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
نگراں حکومت کو درپیش معاشی چیلینجز

معیشت دان اس بات پر فکر مند ہیں کہ نگراں حکومت ملک کے معاشی پہیے کو کس طرح چلائے گی کیونکہ انتخابات ہوں یا کوئی اور کاروبارِ حکومت، کوئی چیز بھی پیسے کے بغیر نہیں چلتی۔مالیاتی امور کے ماہر ڈاکڑ اشفاق حسن کے خیال میں نگراں حکومت کے سامنے بہت بڑے معاشی چیلنجز ہیں، جن سے نمٹنا ان کے لیے آسان نہیں۔ان کے مطابق ملک کا تجارتی خسارہ بڑھ رہا ہے، زرمبادلہ کے ذخائر کم ہور ہے ہیںاور قرضوں کی ادائیگی کرنی ہے۔ وزراتِ خزانہ کے جو حکام کل تک چین کی بانسری بجارہے تھے، آج وہ نگراں حکومت کو آئی ایم ایف کے پاس جانے کا مشورہ دے رہے ہیں۔

ورلڈ بینک نے بھی پاکستانی معیشت کے بارے میں اہم پیشگوئی کرتے ہوئےکہا ہےکہ پاکستان کو آئی ایم ایف سے مزید قرض لینا ہوگا۔ ورلڈ بینک کے جاری کردہ گلوبل اکنامک آؤٹ لک کے مطابق پاکستانی معیشت کو اندورنی اور بیرونی خدشات کا سامنا ہے، پاکستان کی معاشی شرح نمورواںمالی سال پانچ اعشاریہ آٹھ فیصد تک رہنے کا امکان ظاہر کیاگیا ہےجبکہ آئندہ مالی سال شرح نمو میں خاطر خواہ کمی متوقع ہے اوریہ پانچ فیصد تک محدود رہنا کا خدشہ ظاہر کیا گیاہے۔

اعداد وشمار کے مطابق رواں مالی سال کے پہلے دس ماہ میں جاری کھاتوں کاخسارہ 14 ارب ڈالر رہاجبکہ تجارتی خسارے کا حجم25 ارب ڈالر تک ریکارڈ کیا گیا۔ زرمبادلہ کے ذخائر 10ارب ڈالر کی سطح تک گر چکے ہیں جبکہ اگلے مالی سال پاکستان کو 8 ارب ڈالر کے غیر ملکی قرضوں کی ادائیگی بھی کرنی ہے۔

معیشت پر قیاس آرائیوں کا جائزہ لینا ہوگا

معاشی ماہرین اس بات پر زور دے رہے ہیں کہ معیشت کے حوالے سے جو قیاس آرائیاں، غیر مصدقہ اطلاعات اور افواہیں گردش میں ہیں،انھیںنگراں حکومت بلاتاخیر اپنی ترجیحات کا حصہ بنائے ۔ قوم کے سامنے معیشت کی حقیقی تصویر رکھی جانی چاہیے۔صورتحال یہ ہے کہ ایک طرف ورلڈ بینک نے پاکستانی معیشت کے بارے میں یہ پیشگوئی کی ہے کہ آئندہ مالی سال ملکی معاشی شرح نمو میں کمی کا امکان ہےجبکہ معیشت کی سست روی کے باعث پاکستان کوآئی ایم ایف سے مزید قرض لینا ہوگا، اس کے علاوہ پاکستانی معیشت کو اندورنی اور بیرونی خدشات کا بھی سامنا ہے۔

ادھر یہ بھی کہا جارہا ہے کہ نگراں حکومت، آئی ایم ایف سے بیل آؤٹ پروگرام پر مذاکرات کرنے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتی، تاہم عالمی مالیاتی فنڈ سے معمول کے مذاکرات جاری رکھے جائیں گے۔ مالیاتی فنڈ کے آرٹیکلIV کے تحت روٹین کے صلاح مشورے کیے جاتے ہیں جو فنڈ کے قواعد وضوابط کے تحت اس کی عالمی اقتصادی مانیٹرنگ کی ذمے داریوں کا لازمی حصہ ہیں جن کی روشنی میں دنیا کے 189 رکن ممالک کی معاشی اور مالیاتی پالیسیوں کی مانیٹرنگ کی جاتی ہے۔

اسلام آباد میں قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میںبھی مشترکہ اہداف اور مقاصد کے حصول کے لیے فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) اوردیگربین الاقوامی اداروں کے ساتھ پاکستان کے مل کرکام کرنے کے عزم کا اعادہ کیا گیا۔ قومی سلامتی کمیٹی کا 25 واں اجلاس نگران وزیراعظم جسٹس (ر) ناصر الملک کی زیر صدارت وزیراعظم ہاؤس میں منعقد ہوا۔ فنانشل ایکشن ٹاسک فورس فریم ورک کے تحت ملک کی بین الاقوامی ذمے داریوں کو پورا کرنے کے حوالے سے کیے گئے مختلف اقدامات کا جائزہ لیتے ہوئے اجلاس میں اب تک کی پیشرفت پر اطمینان کا اظہار کیا گیا۔

واضح رہےکہ فنانشل ٹاسک ایکشن کمیٹی پاکستان کو گرے لسٹ میں ڈالنے کا انتباہ دے چکی تھی، یہ ملکی اقتصادیات کے لیے ایک لٹکتی تلوار ہے جس سے بچنے کے لیے سلامتی کمیٹی نے صائب پیشرفت کی ہے، معیشت کو کئی داخلی اور خارجی چیلنجز کا سامنا ہے، معاشی بہتری بھی ہوئی ہے، مثلاً سندھ کے ساحلی علاقوں میں نئی کپاس کی فصل میں ریکارڈ اضافہ ہوا ہے جب کہ دیگر علاقوں میں قلت آب سے فصل کم بھی ہوئی۔اسی طرح لوڈ شیڈنگ، گردشی قرضے، ماحولیات کی ابتری، خشک سالی کا خطرہ اور مہنگائی سمیت بیروزگاری اور جرائم میں اضافہ کی روک تھام کے ساتھ ساتھ امن وامان کی بہتری ناگزیر اہداف ہیں، ملک میں امن ہوگا تو معاشی اہداف حاصل ہوسکتے ہیں، قانون نافذ کرنے والے اداروں اور فوج کے آپریشن کے نتیجہ میں بدامنی اور دہشتگردی کا گراف نیچے گرا ہے مگر معاشی صورتحال پر نگراں انتظامیہ کو کثیر جہتی مستعدی اور نتیجہ خیز حکمت عملی کا مظاہرہ کرنا ہوگا تاکہ ملکی معیشت کے خلاف ہونے والی قیاس آرائیوں کا مکمل سدباب ہو سکے۔واضح رہے کہ نگراں حکومت کی کابینہ نے حلف اٹھانے کے فوری بعد ہی قوم کو اس ضمن میں ذہنی طور پر تیار کرلیا تھاکہ وہ مشکل صوورتحال کے لیے تیار رہیں۔اب دیکھنا یہ ہے کہ آنے والے دنوں میں ہم ان معاشی چیلنجز سے عہدہ برا ہوسکیں گے یا پھر ہمیں آئی ایم ایف کے چنگل میں جانا ہوگا ۔

تازہ ترین