• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

25 جولائی 2018 ء کو ہونے والے عام انتخابات کے نتائج سے پاکستان میں کیا سیاسی منظر نامہ بن سکتا ہے ، اس کے حوالے سے کوئی حتمی پیش گوئی نہیں کی جا سکتی لیکن امیدواروں کے کاغذات نامزدگی کی چھان بین اور منظوری کے عمل میں جو ہوا ، اس سے لوگوں کو مستقبل کے سیاسی منظر نامے کے بارے میں کچھ اندازہ ہونے لگا ہے۔
پاکستان مسلم لیگ (ن) اور پاکستان پیپلز پارٹی کے بہت سے اہم رہنماؤں کے کاغذات نامزدگی مسترد ہو گئے ہیں اور دونوں سیاسی جماعتوںکے قائدین اپنے بیانات میں یہ تاثر دے رہے ہیں کہ صرف ان کے لوگوں کا احتساب کیا جا رہا ہے اور پاکستان تحریک انصاف کو عام انتخابات میں میدان صاف کرکے دیا جا رہا ہے ۔ دونوں سیاسی جماعتوں کا یہ الزام کیا حقیقت پر مبنی ہے ؟ کاغذات نامزدگی کی جانچ پڑتال ریٹرننگ آفیسرز نے کی ، ریٹرننگ افسروں کے فیصلوں کو ایپلیٹ ٹریبونلز میں چیلنج کیا گیا اور پھر ایپلیٹ ٹریبونلز کے فیصلوں کے خلاف ہائی کورٹ میں آئینی درخواستیں دائر کی گئیں ، جن امیدواروں کے کاغذات نامزدگی مسترد ہوئے ، انہیں قانونی طور پر دو مرحلوں میں انصاف حاصل کرنے کا موقع فراہم کیا گیا لیکن پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے لوگوں کا کہنا یہ ہے کہ جانچ پڑتال کے دوران مختلف معیارات اختیار کئے گئے ۔
سیاست میں الزامات در الزامات کا سلسلہ چلتا رہتا ہے لیکن غیر جانبدار سیاسی مبصرین بھی اپنی رائے قائم کرتے ہیں ۔ حقیقت یہ ہے کہ اس مرتبہ انتخابی عمل کے ساتھ ساتھ احتساب کا عمل بھی جاری ہے ۔ ایسا پہلے کبھی نہیں ہوا ۔ ہر الیکشن سے پہلے کچھ حلقوں کی طرف سے یہ نعرہ لگایا جاتا تھا کہ ’’ پہلے احتساب ، پھر انتخاب ‘‘ ۔ پاکستان میں جب بھی مارشل لاء لگا پہلے گند صاف کرنے کا اعلان کیاگیا اور پھر عام انتخابات کے انعقاد کا وعدہ کیاگیا ۔ یہ وعدہ انہوں نے کبھی وفا نہ کیا تاوقتیکہ ان پر داخلی اور خارجی دباؤ میں اضافہ ہوا اور وہ الیکشن کرانے پر مجبور ہوئے ۔ جمہوری ادوار میں بھی عام انتخابات سے پہلے احتساب سامنے آتا رہا ۔ مگر احتساب کے نام پر کبھی انتخابات موخر نہیں ہوئے اور احتساب بھی نہیں ہوا کیونکہ عام تاثر یہ ہے کہ احتساب غیر سیاسی قوتیں کرتی ہیں ۔ پہلی مرتبہ انتخابی عمل اور احتسابی عمل ساتھ ساتھ چل رہے ہیں یہ احتسابی عمل نہ تو فوجی حکمرانوں کے ذریعہ ہو رہا ہے اور نہ ہی غیر سیاسی قوتیں بظاہر سامنے ہیں ۔ کاغذات نامزدگی کے ساتھ سپریم کورٹ کے حکم پر جو حلف نامہ جمع کرایا گیا ، اس حلف نامے نے وہ کام کیا ، جو احتساب کے بدنام زمانہ قوانین ’’ پروڈا ‘‘ اور ’’ ایبڈو ‘‘ بھی نہ کر سکے ۔ احتساب کا باقی کام نیب ریفرنسز کے ذریعہ ہو رہا ہے ۔ عدلیہ اپنا کام قانون کے مطابق کر رہی ہے لیکن پہلے سے زیادہ متحرک ہو کر ۔ نیب یعنی قومی احتساب بیورو بھی پہلے سے زیادہ متحرک ہے ۔ نیب کی کارروائیاں انتخابی عمل کے دوران بھی جاری ہیں اور بعد میں بھی جاری رہیں گی ۔ اس طرح کاغذات نامزدگی کے ساتھ لیا گیا حلف نامہ بھی سیاست دانوں کا پیچھا نہیں چھوڑے گا ۔ یہ حلف نامہ عام انتخابات کے بعد بھی سیاسی منظر نامے کی تشکیل میں اہم ’’فیکٹر’‘ رہے گا ۔ منتخب ہونے والے ارکان اسمبلی اس کی وجہ سے کمزور رہیں گے اور ان کے لئےپہلے کی طرح ’’اسٹینڈ ‘‘ لینا اور اپنی سیاسی وفاداری برقرار رکھنا آسان نہیں ہو گا ۔
احتسابی عمل کا کچھ اثر انتخابی عمل اور انتخابی نتائج پر بھی ہو گا اور انتخابات کے بعد بھی احتسابی عمل اپنا رنگ دکھائے گا ۔ سیاست دانوں کو ان کی اس دولت نے سیاسی طور پر کمزور کر دیا ہے ، جس کے ذرائع بتانے سے وہ قاصر ہیں ۔ پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ سیاست دان اس قدر کمزور دکھائی دے رہے ہیں ۔ پہلے ایسا کبھی نہیں ہوا ۔ ان کی یہ کمزوری ایک ایسے مرحلے پر سامنے آئی ہے ، جب پاکستان سمیت پوری دنیا میں کوئی نظریاتی یا سیاسی تحریکیں موجود نہیں ہیں اور پاکستان میں سیاسی جماعتوں کا اپنے کارکنوں سے رشتہ بھی کمزور ہے ۔
اس صورت حال کا ایک دوسرا پہلو بھی ہے، جس پر بہت کم لوگ توجہ دے رہے ہیں ۔ اس احتسابی عمل سے ’’ سیاسی نظیر ‘‘ (Political Elimination)کا عمل بھی جاری ہے ۔ ماضی میں بھی یہ کام ہوا ہے لیکن اس کا ردعمل بھی سامنے آیا ہے ۔ پاکستان میں نئی سیاسی صف بندیاں ہوئیں اور طاقتور عوامی سیاسی جماعتیں ابھر کر سامنے آئیں اگرپاکستان مسلم لیگ (ن) اور پاکستان پیپلز پارٹی جیسی سیاسی جماعتوں کی قیادت یہ سوچنے لگی ہے کہ انہیں دیوار سے لگایا جا رہا ہے یا انہیں سیاسی طور پر ختم کرنے کی کوشش ہو رہی ہے تو وہ ردعمل میں جارحانہ حکمت عملی بھی اختیار کر سکتی ہیں ۔ اس انتخابی عمل کے دوران جو سیاسی ماحول بن گیا ہے اور جس کی بنیاد پر انتخابی نتائج آ سکتے ہیں ۔ ان سے ملک میں سیاسی استحکام نظر نہیں آ رہا ۔ احتساب کا عمل غیر جانبدارانہ ہے یا نہیں ؟ اس سوال پر سیاسی جماعتیں اپنی آراء کا اظہار کر رہی ہیں لیکن اس احتسابی عمل سے سیاسی تصادم کی فضاء بن رہی ہے ، جو انتخابات سے پہلے یا بعد میں کوئی بھی صورت حال اختیار کر سکتی ہے کیونکہ احتساب کے اس عمل کے پس پردہ کوئی سیاسی مقاصد نہ بھی ہوں ، تب بھی اس عمل کو سیاسی طور پر متنازع بنا دیا گیا ہے ۔ اس کا اصل سبب یہ ہے کہ احتساب بظاہر صرف سیاست دانوں کا ہو رہا ہے۔ پاکستان تحریک انصاف ، پاکستان پیپلز پارٹی اور پاکستان مسلم لیگ (ن) میں سے مرکز میں حکومت چاہے کسی بھی سیاسی جماعت کی ہو یا کوئی مخلوط حکومت ہو ، ہر صورت میں وہ سیاسی تصادم کی بنتی ہوئی فضا سے متاثر ہوگی ۔ مستقبل کے سیاسی منظرنامے میں سیاسی استحکام کے لئے خطرات نظر آ رہے ہیں ۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین