• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
امریکہ کے صدارتی انتخابات سے2دن پہلے امریکہ میں ایک فلم ایبٹ آباد آپریشن کے بارے میں ریلیز کی گئی۔ اس فیچر فلم میں اسامہ بن لادن کی ہلاکت کا ڈرامہ پیش کیا گیا ہے۔ اس فلم کو ریلیز کرنے کیلئے وقت کا انتخاب اس طرح سے کیا گیا کہ لوگ فلم دیکھیں اور اوباما حکومت کے کارنامے سے مسحور ہو جائیں اور اسی سحر میں اوباما کو ووٹ ڈال دیں۔ فلم ذرا پہلے ریلیز ہو جاتی تو لوگوں کو سوچنے سمجھنے کا موقع مل سکتا تھا۔ میں یہ کالم فلم ریلیز ہونے کے دوسرے دن لکھ رہا ہوں لیکن اس فلم کی وجہ سے اوباما کامیابی کے دریا کے پار اتر بھی گئے تو ان کو ایک اور دریا کا سامنا ہو سکتا ہے جس میں کوئی شخص ”فلم گیٹ اسکینڈل“ کھڑا کر سکتا ہے کہ القاعدہ کے خلاف خفیہ مشن کو اوباما نے اپنے الیکشن کیلئے استعمال کیا۔
امریکہ کی دوعملی دیکھئے۔ جب انہوں نے مبینہ طور پر اسامہ بن لادن کو ختم کر دیا تو اس کی لاش کی نہ تصویر بنائی نہ فلم بنائی بلکہ اس کو خفیہ طور پر سمندر میں بہا دیا۔ کہا یہ گیا کہ ایسا احترام کے طور پر کیا گیا ہے حالانکہ یہی امریکی عراق میں صدام حسین کی لاش کو بے حرمت کرتے ہوئے فلم بنا کر دنیا کے ہر چینل پر دکھاتے رہے اور پھر حال ہی میں انہوں نے قذافی کی مسخ شدہ لاش کی فلموں کی بھی خوب تشہیر کی۔ اسامہ بن لادن کے خلاف آپریشن اگر سچ مچ ایسا ہی ہوتا جیسا کہ اخبارات میں بیان کیا گیا تھا تو پھر اس کی تصاویر بھی بنتیں، فلمیں بھی بنائی جاتیں اور خوب خوب چلائی بھی جاتیں۔ امریکہ کے عوام کو جھوٹ کے جال میں رکھنے والوں نے اس آپریشن کی کہانیوں کے ذریعے یہ تسلی دی کہ ہم نے اسامہ بن لادن کو ختم کر دیا ہے، بعد میں اس کہانی کی فلم بنا کر اس تاثر کو مضبوط کرنے کا اقدام کیا گیا۔
بیسویں صدی کے وسط میں یہ نظریہ پیش کیا گیا تھا کہ فلم کے ذریعے لوگوں کے ذہنوں میں اپنی بات پوری سچائی کے ساتھ بٹھائی جا سکتی ہے۔ کہا جاتا تھا کہ المناک مناظر پر عورتیں خوب آنسو بہا کر روتی ہیں، مرد آزردہ ہو جاتے ہیں اور فلم اگر دردناک ہو تو لوگ بار بار اسے دیکھتے ہیں اور ہر بار جذباتی طور پر اسی ردعمل کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ جب سوویت یونین نے اپنے ایک خلا باز یوری گگارین کو خلا میں بھیجا تو پوری دنیا میں روس کی دھوم مچ گئی۔ اب امریکہ کو اس سے آگے بڑھنا تھا چنانچہ اری زونا کے میدانوں میں ایک فلم کی شوٹنگ ہوئی۔ وہاں چاند گاڑی اتاری گئی، امریکی جھنڈا لہرایا گیا اور نیل آرمسٹرانگ اور کرنل ایلن کی سایوں سمیت چہل قدمی شوٹ کی گئی۔ یہاں نیل آرمسٹرانگ نے ایک ڈائیلاگ بھی مارا، جس میں چاند پر پہلا قدم اور انسان کی بات ہوئی۔ پھر یہ فلم پوری دنیا میں سچے واقعے کے طور پر ریلیز کر دی گئی اور کہا گیا کہ آپ یہ سب کچھ براہ راست دیکھ رہے ہیں، انسان چاند پر پہنچ گیا ہے۔ ساری دنیا میں یہ فلم اس طرح ہٹ ہو گئی کہ چاند پر انسان کے جانے کی بات جزو ایمان بن گئی۔ ہمارے ہاں بھی ایک مشہور مقولہ وجود میں آ گیا ”لو جی دنیا چاند پر پہنچ گئی اور ہم ابھی تک یہ نہ کر سکے، وہ نہ کر سکے وغیرہ وغیرہ“۔ ہمارے امریکہ پرست دوست چاند پہ نہ جانے کی بات پر ناراض اور سیخ پا ہو جاتے ہیں لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ چاند پر جانے کے بعد چاند کی کہانی ختم اس لئے کر دی گئی کہ اس میں کوئی حقیقت نہ تھی۔ چاند کی فلم اور اسامہ بن لادن والی فلم کے کرداروں میں ایک مماثلت یہ پائی جاتی ہے کہ اسامہ بن لادن کی مبینہ میت کو سمندر میں بہا دیا گیا تھا اور چاند والے نیل آرمسٹرانگ کی میت بھی سمندر میں بہائی گئی۔امریکہ نے فلم کی ٹیکنالوجی کو پروپیگنڈا اور جھوٹ کو سچ ثابت کرنے کیلئے کئی بار استعمال کیا ہے۔ عراق پر حملے سے پہلے امریکہ کے وزیر خارجہ کولن پاول نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں فلم چلائی اور دکھایا کہ بڑے بڑے ٹرالر WMD یعنی بڑی تباہی والا اسلحہ ایٹمی میزائل لے جا رہے ہیں۔ اس فلم کو دیکھ کر چاند کی فلم کے زیر اثر ممالک نے عراق کی تباہی کی اجازت دے دی پھر عراق میں ہزاروں لوگوں پر بمباری کرنے کے2ماہ بعد اسی کولن پاول نے بیان دیا کہ WMD کی فلم سچی نہیں بلکہ یہ اسٹوڈیو میں فلمائی ہوئی فلم تھی اور ہم نے یہ فلم لوگوں کو جذباتی بنانے کے لئے تخلیق کی تھی۔لوگوں کو جذباتی بنا کر اپنے مقاصد حاصل کرنے اور ہزاروں انسانوں کو بمباری کے ذریعے ہلاک کرنے کا ڈرامہ امریکہ نے دنیا میں بار، بار کیا ہے۔ سوات میں پچھلے دنوں ایک این جی او کے ذریعے ایک عورت کی پیٹھ پر کوڑے برسانے کی فلم بنائی گئی۔ اس فلم نے بھی خوب جذباتی فضا بنائی تھی لیکن اس کے بعد معلوم ہوا کہ وہ بھی محض ایک فلم تھی اور اس کے سب طالبان اداکار تھے اور کوڑے کھا کر لہراتی، بل کھاتی ہوئی خاتون بھی اداکارہ تھی۔ایبٹ آباد آپریشن پر بنائی جانے والی یہ امریکی فلم اب کیا سین دکھائے گی، نگاہیں اس کی منتظر رہیں گی کیوں کہ لوگ جب فلم کے سحر سے باہر آئیں گے تو پھر سوچیں گے کہ یہ فلم کیوں بنائی گئی اور پھر جیسا کہ سیانے پہلے بھی کہہ چکے ہیں کہ امریکہ میں ”فلم گیٹ اسکینڈل“ بھی کھڑا ہو سکتا ہے اور ایسا ہو گیا تو پھر کہا جا سکے گا کہ ”فلمیں یا تخت پر پہنچاتی ہیں یا تختہ کر دیتی ہیں“۔
تازہ ترین