اردو ادب کی تاریخ میں ایسے کئی نام ملتے ہیں جن کی شوخ اور شگفتہ تحریریں ہمیں گدگداتی ہیں۔ شفیق الرحمن، کرنل محمد خان،ابن انشا اورضمیر جعفری وہ چند نام ہیں جن سے اردو ادب کے قارئین بہ خوبی واقف ہیں۔ لیکن عہدِ حاضر کا ایک مزاح نگار ایساہے جس کی شہرت صرف پا کستا ن تک محدود نہیں بلکہ دنیا میں جہاں بھی اردو بولی اورلکھی جاتی ہے، وہاں اس کا نام شناساہے۔یہ عہد حاضرکے معر و ف مزاح نگار مشتاق احمد یوسفی ہیں۔ان کی چار کتا بیں چر ا غ تلے(1961)، خاکم بہ دہن ( 1969) ، زر گز شت ( 1976 )اور آبِ گُم( 1990 )میں شایع ہوئیںجو خو ا ص وعوام میںبے حد مقبول ہیں۔پانچویں کتاب ،شامِ شعرِ یاراں کے نام سے 2014 میںمنظر ِ عام پر آئی ،مگر اسے ان کی پہلے والی کتابوں جیسی پذیرائی حاصل نہیں ہوسکی۔اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ کتاب ان کی مرتب کردہ نہیں تھی بلکہ ان کے مختلف مواقعے پرلکھے گئے مضامین کو جمع کرکے شایع کردیا گیا تھا۔ یوسفی صاحب کا اپنی تحر یر و ں کے حوالے سے کیا رویہ رہا ہے، تو ہم یہ پائیں گے کہ ا ن کے ہاں اپنی تحریروں کو چھپوانے کی عجلت نہیں ہے۔ ان کے بارے میں ایک بات مشہور ہے جو وہ اکثر مواقع پر خود بھی کہا کرتے تھے: ’’مسوّدے کو لکھنے کے بعد کچھ عرصے کے لیے رکھ دو اور پھر دوبارہ پڑھ کر دیکھو۔ اس کے بعد اگر چھپنے کے قابل ہو تو شایع کرواؤ۔‘‘ یہی برتاؤ انہوں نےاپنی تحریروں کے ساتھ کیا۔اسی لیے شامِ شعرِ یاراں سے قبل ان کی آ خری کتاب پچیس برس پہلے ا شا عت پذیر ہوئی تھی۔ اگر چہ یوسفی صاحب اب جسمانی طور پر اس دنیا میںنہیں رہے،لیکن اردو کے مزاحیہ ادب پر ان کا سایہ تادیر قائم رہے گا۔
اردو کے ممتاز ناقدِ فن ڈاکٹر محمد حسن کے بہ قول طنز و مزاح نے تو مشتاق یوسفی کی تحریروں میں انتہائی عروج کی منزل طے کر لی جو شاید اردو ادب کو میسر ہو سکتی تھی۔ یوسفی کی رسائی اردو نثر کی معراج تک ہوئی ہے۔ اور یہ معراج نثرنگاری کی معراج بھی ہے اور طنز و مزاح کی بھی کہ اسے عالمی ادب کے سامنے فخر و انبساط سے پیش کیا جا سکتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔ اردو نثر نے ایسے معجزے کم دیکھے ہیں۔ اور ان معجزوں میں کچھ حصہ مغرب کی ژرف نگاہی بلکہ ژرف نگاری کا بھی ہے۔ عہدِ جدید کی دین ہے ہمہ جہتی انداز۔ ذرا سی بات میں ہزاروں نت نئے پہلو پیدا کرنا اور اس کے ذریعے ہر سمت میں تخیل کے دروازے کھولنا۔ اور یہی کیفیت ہے مشتاق احمد یوسفی کی تحریروں کی جنہیں صرف مزاح نگاری کے ضمن میں رکھ کر فراموش نہیں کیا جا سکتا کہ اس میں آگہی اور بصیرت ہی نہیں ، ادبی اسلوب کی رمز شناسی اور تہہ داری بھی موجود ہے۔
ممتاز مزاح نگار اور شاعرسید ضمیر جعفری کا کہنا تھا کہ یوسفی کی جس ادا پر میں بطورِ خاص فریفتہ ہوں ، وہ ہے اس کی اتھاہ محبت۔ یوسفی اپنے کھیت میں نفرت ، کدورت یا دشمنی کا بیج بوتا ہی نہیں ۔۔۔۔یوسفی دور مار توپ ہیں۔ مگر اس توپ کا گولہ کسی نہ کسی سماجی برائی پر جا کر پڑتا ہے۔ ہاں اتنا ضرور ہے کہ وہ کُشتوں کےپُشتے نہیں لگاتے۔ خود زندہ رہنا چاہتے ہیں۔ دوسروں کو زندہ رہنے کا حوصلہ دیتے ہیں۔
مشتاق احمد یوسفی کا ہر مضمون عام آدمی کا ایسا خاکہ ہے جس میں کروڑوں انسانوں ہی کی نہیں بلکہ پوری تہذیب اور ثقافت کی تصویر ملتی ہے۔یوسفی صاحب کو نفسیاتِ انسانی اور جذباتِ انسانی کا مکمل شعورتھا۔اس لیے جب وہ کسی کیریکٹر کو پیش کرتےہیں تو ہر شخص کو اس کیریکٹر میں اپنا عکس ضرور دکھائی دیتا ہے۔یاد رہے کہ مزاح نہ لطیفہ گوئی ہے ، نہ تضحیک نہ طنز۔ مز ا ح وہی مزاح ہے جو بہ ظاہر ہلکی پھلکی لطافت اور ظرافت میں ڈوبی تحریر لگے، لیکن قاری کو لطیفے پر قہقہہ لگا کر بھول جا نے کے بجا ئےیک لخت اس تحریر کی گہرائی میں جا کر سنجیدگی سے اپنے آپ کا جائزہ لینے پر مجبور کر دے۔ رد عمل بجلی کی چمک کی طرح ذہن میں اس طرح کوندے کہ اسے لگے کہ کسی نے اس کی دکھتی رگ پر ہاتھ رکھ دیا ہو۔
مزاح کے اس معیار پر جب ہم مشتاق احمد یوسفی کی تحریروں کا جائزہ لیتے ہیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ مشتاق احمد یوسفی مزاح کی معراج پر ہیں۔جو تحریریں مزاح کے اس معیار پر پورا نہیں اترتیں وہ پھکڑ پن ، لطیفوں ، پھبتیوں اور فقرہ بازیوں کا شکار ہو جاتی ہیں۔ ان میں طنز ، تحقیر ، تضحیک ، رکیک وغیرہ تو ہوتا ہے ، مزاح پیدا نہیں ہو سکتا۔
یوسفی صاحب کے فن کا کمال یہ ہے کہ وہ طنز یا تحقیر نہیں برتتے۔یوں بھی جہاں مزاح بھرپور ہو وہاں طنز کی ضرورت نہیں پڑتی کیوں کہ پختہ مزاح بہ ذاتِ خود بہت بڑا طنز ہے جو معاشرے کی ہر بےراہ روی کو بےنقاب کر دیتا ہے۔ لیکن عہدِ حاضر میں اس حقیقی فن کا فقدان ہے۔ جیسا کہ یوسفی صاحب ایک جگہ لکھتے ہیں:’’اصل بات یہ ہے کہ ہمارے ہاں ہر شخص یہ سمجھتا ہے کہ اسے ہنسنا اور کھانا آتا ہے۔ اسی وجہ سے پچھلے سو برس سے یہ فن ترقی نہ کر سکا‘‘۔
دراصل مزاح وہی ہے جو قہقہوں یا مسکراہٹ کے پس ِ پردہ ہو۔ یوسفی صاحب طنز کو شامل کر کے مضمون کو خشکی اور کڑواہٹ سے دور رکھتے ہیں۔ فرماتے ہیں:’’ اگر طعن و تشنیع سے مسئلے حل ہو جاتے تو بارود ایجاد نہ ہوتی‘‘ ۔
ان کی تحریروں میں انشائیے، خاکے ، آپ بیتی اور پیروڈی سب کچھ شامل ہے۔ اور ان سب میں طنزومزاح کی وہ پرلطف روانی موجود ہے جسے پڑھ کر اردو زبان کے مزاحیہ ادب کا ہر قاری مشتاق احمد یوسفی کاگرویدہ نظر آتاہے۔مشتاق احمد یوسفی کی تخلیقات میں سماج کی بدلتی قدروں اورماضی کی یادوں کا منظرنامہ موجود ہے۔
مشتاق احمد یوسفی کی ظرافت نگاری کا جائزہ لیا جائے تو ان کے ہاں مزاح نگاری کے ساتھ طنزیہ تحریر یں بھی وافرتعداد میں موجود ہیں جن میں انہوں نے سیاست ، سما ج،مذہب اورادب میں پیدا ہونے والی کج رویوں او ر خا میوں کو نشانۂ طنز بنایاہے۔ ان کی طنزنگاری میں ہم دردی کا جذبہ شامل ہے۔ ان کا ماننا تھا کہ جب تک انسان کسی شہر سے خوب رج کر پیار نہ کرے تب تک اس کی خوبیوں سے واقف نہیں ہوسکتا۔ اس لیے وہ سماج کی ان بے راہ رویوں کو بڑی سنجیدگی سے پیش کرتے ہیں جن سے انسانی سماج ہر روز نبردآزما ہوتا رہتا ہے ۔’’آب گُم‘‘ میں شامل مضمون ’’اسکول ماسٹر کا خواب‘‘ایسا ہی طنزیہ مضمون ہے جس میں انہوں نے سماج کی ان سچائیوں کو مختلف کر د ا ر و ں کے ذریعے بے نقاب کیا ہے اور قارئین کو یہ سوچنے کے لیے مجبو رکیا ہے کہ سماج میں بے دھڑک جاری اس ر شو ت خوری کے لیے کون ذمّے دار ہے، ہمارا معاشرتی نظام یا انسانی ضرورت ۔ جس کے متعلق وہ مکالماتی انداز میں لکھتے ہیں:
’’ماسٹر نجم الدین برسوں سے چتھڑے لٹکائے ظالم سماج کو کوستے پھرتے ہیں۔ انہوں نے ساڑھے چارسو ر و پے کھلائے،جب جاکے بھانجے کے میٹرک کے نمبر بڑ ھے۔ اور رحیم بخش کو چوان سے مسکین کون ہوگا؟ ظلم ظالم اور مظلوم دونوں کو خراب کرتا ہے۔ ظلم کا پہیہ جب اپنا چکر پورا کر لیتاہے اورمظلوم کی باری آتی ہے تو وہ بھی وہی کچھ کر تا ہےجو اس کے ساتھ کیا گیا تھا۔ اژدھا سالم نگلتا ہے ۔ شارک دانتوں سے خون کر کے کھاتی ہے ۔ شیر ڈاکٹروں کے بتائے ہوئے اصولوں کے مطابق اچھی طرح چبا چبا کر کھاتاہے۔ بلی چھپکلی ، مکڑی اور مچھر حسبِ مقدور خون کی چسکی لگاتے ہیں۔بھائی میرے بخشتا کوئی نہیں۔ وہ یہا ں تک پہنچے تھے کہ معاً انہیں انکم ٹیکس کے ڈبل بہی کھاتے یاد آگئے۔ اور وہ بے ساختہ مسکرادیے۔ بھائی میرے بخشتا کوئی نہیں سب ایک دوسرے کے رزق ہیں۔ بڑے جتن سے ایک دوسرے کو چیرتے پھاڑتے ہیں، تب نظر آتی ہے اک لقمۂ تر کی صورت‘‘۔
مشتاق احمد یوسفی کی ان تحریروں نے معاشرے کی ان سچائیوں کو اجاگر کر دیا جو ہمارے معاشرے کو کسی نہ کسی طرح سے آلودہ کیے ہوئے ہیں۔ انہوں نے اپنے موضوعات کے لیے ہمیشہ انسانی زندگی کے روز مرہ کے معمولات اوران سے متعلق چیزوں سے کام لیا ہے۔ان کی مزاح نگاری کی سب سے بڑی خاصیت یہ ہے کہ وہ اپنی ظریفانہ تحریروں میں بڑی معصومیت اورسنجیدگی کے ساتھ اپنی بات کہہ جاتے ہیں۔ انہوں نے چارپائی کے استعارے میں جس طرح اس کی تہذیبی خصوصیات کا ذکر کیاہے اسی طرح بدلتے ہوئے سماجی دھارے کی بات کہی ہے۔ اس کے متعلق انہوں نے اشاروں اشاروں میں یہ کہہ دیا تھا کہ یہ مضمون اس تہذیب کا قصیدہ نہیں بلکہ ’’مرثیہ‘‘ ہے۔
انہوں نےاپنی تمام تحریروں کوپرلطف اوردل چسپ بنانے کے لیے ہر طرح کے حربے استعمال کیے ۔ ان کی تحریروں میں تاریخ ، فلسفہ، تلمیحات، کردار نگاری ، منظر نگاری، مکالمہ نگاری، اشعار کے برمحل استعمال کے سا تھ پیروڈی کی بھی مختلف قسمیں دیکھنے کو ملتی ہیں۔ خاص طور سے انہوں نے جوا لفاظ اور اشعار کی پیروڈی کی ہے وہ تو قابل داد ہے۔
ان کی تحاریر کے مطالعے سے پتا چلتاہے کہ ان میں ماضی کی حسین یادوں کے ساتھ سماجی، سیاسی، تہذیبی اور ادبی کارفرمائیاں بھی موجود ہیں جسے انہوں نے اپنی تخلیقی صلاحیت اور فن کاری سے اردو زبان کے طنزیہ ومزاحیہ ادب کا حصہ بنا دیا۔ ان کی ان ادبی کاوش کو مقبول بنانے میں ان کے رنگا رنگ موضوعات کے ساتھ ان کے دل کش اندازِبیان، شوخ اورشگفتہ طرزِ ادا کا بھی ہاتھ ہے۔ اس بنا پر یہ کہا جاسکتاہے کہ مشتاق احمد یوسفی کی طنزومزاح نگاری میں ادبی لطافت کی چاشنی کے ساتھ معیاری رنگ وآہنگ بھی شامل ہے۔
اردو مزاح نگاری کی تاریخ میں ان کا فن توجہ اور سنجید ہ توجہ کا حامل ہے،کیوں کہ ان کا فن محض وقت گزاری کا ذریعہ نہیں بلکہ ایک سنجیدہ عمل ہے۔ بہ قول ممتاز ناقد ، احسن فاروقی:’’وہ مزاح کو محض حماقت نہیں سمجھتے اور نہ محض حماقت ہی سمجھ کر پیش کرتے ہیں بلکہ اُسے زندگی کی اہم حقیقت شمار کرتے ہیں‘‘۔ڈاکٹر ظہیر فتح پوری کے مطابق:’’ہم اردو مزاح کے عہدِیوسفی میں جی رہے ہیں‘‘۔ابنِ انشاء بھی ان کے بارے میں لکھتے ہیں:’’ اگر مزاحیہ ادب کے موجودہ دور کو ہم کسی نام سے منسوب کر سکتے ہیں تو وہ یوسفی ہی کا نام ہے‘‘۔
ہر بڑا فن کار اپنے عہد کے لیے نئے پیمانے متعین کرتا ہے اور پہلے سے موجودہ روایت کی از سرِنو تشکیل کر تاہے۔ اس لیے ہم دیکھتے ہیں کہ بڑا ادب خود کسوٹی بن جاتاہے۔اوراس کسوٹی پر بعد میں آنے والوں کی تخلیقا ت پرکھی جاتی ہیں۔ بلا شبہ یوسفی اپنے عہد کی ایک ایسی ہی کسوٹی ہے جس میں نہ صرف یہ کہ پہلے سے موجود رو ا یا ت جمع ہو گئی ہیں بلکہ جدید اسلوب سے انہوں نے اس کی خوب صورت تشکیل بھی کی ہے۔ انہوں نے’’چراغ تلے‘‘ ،’’خاکم بہ دہن‘‘،’’زرگزشت‘‘،’’ آبِ گُم‘‘اور’’ شامِ شعرِ یاراں‘‘کی صورت میں اردو ادب کو مزاح کے بہترین نمونوں سے نوازا۔
اپنی ان تخلیقات میں یوسفی صاحب اوّل سے آخر تک لوگوں سے پیار کرنے والے فن کار نظر آتے ہیں اور اس سے بڑھ کر ایک تخلیق کار کی کام یابی اور کیا ہو سکتی ہے کہ وہ جھنجلاہٹ میں مبتلا نہیں ہوتا۔بلکہ ہنس ہنس کر اور ہنسا کر زندگی کو گلے لگاتا ہے۔ اس طرح وہ زندگی کو نئے زاویہ نظر سے دیکھتا بھی ہے اور قاری کو بھی دکھاتا ہے۔ لیکن صرف ہنسنے اور ہنسانے کا عمل مزاح نگاری نہیں کہلا تا ۔اس کے لیے لہجے کی ظرافت، عظمتِ خیال اور کلاسیکی رچائوکے ساتھ مہذّب جملوں کی ضرورت ہے۔ اگر مزا حیہ ادب کی روایت کو بہ غور دیکھا جائے تو یہ حقیقت سا منے آتی ہے کہ مزاح نگاری نے وقت کی آواز بن کر سچا کر دار ادا کیا ہے۔ مرزا غالب، فرحت اللہ بیگ، رشید احمد صدیقی، پطرس بخاری، مجید لاہوری، کرنل محمدخان، شفیق الرحمن اور ابنِ انشاوغیر ہ کی تخلیقات میں معاشرے کی نا ہم واریوں کا پہلو کبھی نظر انداز نہیں ہوا۔ یوسفی صاحب بھی اس صف میں نظر آتے ہیں کہ انہوں نے مزاحیہ نثر میں بدنظمی کا شائبہ تک پیدا نہیں ہونے دیا۔
طنز میں، طنزنگار زندگی کی کسی ناہم واری یا کم زو ر ی کو، لفظوں کے نشتر لگاتاہے تاکہ بہتری اور اصلاح کی صورت پیدا ہو- یوسفی صاحب کے ہاں، مزاح، ظرافت اور طنز تینوں کی کارفرمائی ہے-اردو مزاح نگاروں کی ا کثر یت قہقہہ آور صورتِ حال اور مضحکہ خیز کرداروں کی مدد سے مزاح پیدا کرتی ہے۔ اس سلسلے میں رتن ناتھ سرشار ( خوجی)، امتیاز علی تاج (چچا چھکن)، پطرس بخاری کے مضا مین، کرنل محمد خان کی بہ جنگ آمد، شفیق الرحمٰن اور ابنِ انشا کی مثالیں پیش کی جا سکتی ہیں۔ انگریزی اصطلاح میں اسے 'سلیپ ا سٹِک کامیڈی کہا جاتا ہے۔لیکن مشتاق احمد یوسفی نے اپنی راہ ان سب سے الگ نکالی۔ چند استثنائی مثالوں کو چھوڑ کر ان کے ہاں مزاح صورتِ حال کی منظر کشی سے نہیں، بلکہ صورتِ حال پر فلسفیانہ غور و فکر اور گہرا اور چبھتا ہوا تبصرہ کر کے پیدا کیا جاتا ہے۔ اس سلسلے میں ان کی فلسفے کی تعلیم ضرور کام آئی ہو گی۔وہ کرداروں کی اچھل پھاند سے نہیں، بلکہ لفظوں کے ہیرپھیر، تحریف، لسا نی بازی گری اور بات سے بات نکال کر مزاح پیدا کرتے ہیں۔ اس سلسلے میں ان کا وسیع ذخیرۂ الفاظ اور اس سے بھی وسیع تر مطالعہ ان کی رہنمائی کرتا ہے۔ وہ ایسے مزاح نگار ہیں جن کی تحریر سے سرسری نہیں گزار جا سکتا، بلکہ ہر ہر فقر ے کو بڑی توجہ اور احتیاط سے پڑھنا پڑتا ہے اور بعض اوقات دوبارہ یا سہ بارہ پڑھ کر ہی اس سے بھرپور حظ کشید کیا جا سکتا ہے۔
دستِ ذلیخا میں وہ لکھتے ہیں :’’۔۔۔۔ مزاح نگار کے لیے نصیحت ،فصیحت اور فہمائش حرام ہیں۔وہ اپنے اور تلخ حقائق کے درمیان ایک قدِآدم دیوارِقہقہ کھڑی کرلیتا ہے۔وہ اپنا روئے خنداں،سورج مکھی کےپھول کی مانند ،ہمیشہ سرچشمئہ نور کی جانب رکھتا ہے اور جب اس کا سورج ڈوب جاتا ہے تو اپنارخ اس سمت کرلیتا ہے،جدھر سے وہ پھر طلوع ہوگا‘‘۔
ایک اور مقام پر وہ لکھتے ہیں:’’حسِ مزاح ہی در اصل انسان کی چھٹی حِس ہے۔یہ ہو تو انسان ہر مقام سے آسانی سے گزر جاتا ہے۔۔۔۔۔۔مزاح،مذہب اور الکحل ہر چیز میں بآسانی حل ہوجاتے ہیں،بالخوص اردو ادب میں۔لیکن مزاح کے اپنے تقاضے،اپنے ادب، آ د ا ب ہیں۔شرطِ اوّل یہ ہے کہ برہمی،بےزاری اور کد و ر ت دل میں راہ پائے۔ورنہ بومرنگ پلٹ کر خود شکاری کا کام تمام کردیتا ہے۔مزا توجب ہے کہ آگ بھی لگے اور کوئی انگلی نہ اٹھاسکے کہ ’’یہ دھوآں سا کہاں سے اٹھتا ہے‘‘مزاح نگار اس وقت تک تبسم زیرِ لب کا سزا وار نہیں ، جب تک اس نے دنیا اور اہلِ دنیا سے رج کے پیار نہ کیا ہو۔ان سے ،ان کی بے مہری وکمنگاہی سے۔ان کی سرخوشی و ہوشیاری سے۔ان کی تردامنی اور تقدس سے ۔ ا یک پیمبر کے دامن پر پڑنے والا ہاتھ گستاخ ضرور ہے ، مگر مشتاق وآرزومند بھی ہے۔یہ زلیخا کا ہاتھ ہے۔خواب کو چھوکردیکھنے والا ہاتھ‘‘۔
صبا کے ہاتھ میں نرمی ہے ان کے ہاتھوں کی
مشتاق احمد یوسفی کے کچھ بہت تیکھے جملے
٭الحمداللہ بھری جوانی میں بھی ہمارا حال اور حلیہ ایسا نہیں رہا کہ کسی خاتون کے ایمان میں خلل واقع ہو ٭ ا سلام آباد درحقیقت جنت کا نمونہ ہے ۔۔۔ یہاں جو بھی آ تا ہے حضرتِ آدم کی طرح نکالا جاتا ہے٭پرانا مقدمے باز آدھا وکیل ہوتا ہے اور دائم المرض آدمی پورا ا تا ئی ٭ طوطے سے مستقبل کا حال پوچھنے کا فائدہ یہ ہے کہ ہمیشہ ایک اور نیک فال نکالتا ہے، جس کا سبب یہ ہےکہ دماغ کے بجائے چونچ سے کام لیتا ہے٭مرد کی آنکھ اور عورت کی زبان کا دم سب سے آخر میں نکلتا ہے٭لفظوں کی جنگ میں فتح کسی بھی فریق کی ہو، شہید ہمیشہ سچائی ہوتی ہے٭جو ملک جتنا غربت زدہ ہوگا، اتنا ہی آلو اور مذہب کا چلن زیادہ ہوگا٭دشمنوں کے حسبِ عداوت تین در جے ہیں: دشمن، جانی دشمن اور رشتے دار٭مسلمان کسی ایسے جانور کو محبت سے نہیں پالتے جسے ذبح کرکے کھا نہ سکیں٭محبت اندھی ہوتی ہے، چناں چہ عورت کے لیے خوب صورت ہونا ضروری نہیں، بس مرد کا نابینا ہونا کافی ہوتا ہے٭بڑھاپے کی شادی اور بینک کی چوکیداری میں ذرا فرق نہیں، سوتے میں بھی ایک آنکھ کھلی رکھنی پڑتی ہے ٭آدمی ایک بار پروفیسر ہوجائے تو عمر بھر پروفیسر ہی رہتا ہے، خواہ بعد میں سمجھ داری کی باتیں ہی کیوں نہ کر نے لگے٭مصائب تو مرد بھی جیسے تیسے برداشت کرلیتے ہیں، مگر عورتیں اس لحاظ سے قابلِ ستائش ہیں کہ انہیں مصا ئب کے علاوہ مردوں کو بھی برداشت کرنا پڑتا ہے٭حجّام کی ضرورت ساری دنیا کو رہے گی تاوقتیکہ ساری دنیا سکھ مذہب اختیار نہ کرلے اور سکھ یہ کبھی ہونے نہیں دیں گے ٭سردی زیادہ اور لحاف پتلا ہو تو غریب غربا منٹو کے ا فسا نے پڑھ کر سو رہتے ہیں٭امریکا کی ترقی کا سبب یہی ہے کہ اس کا کوئی ماضی نہیں٭مرض کا نام معلوم ہو جا ئے تو تکلیف تو دور نہیں ہوتی، الجھن دور ہوجاتی ہے ٭ پا کستان کی افواہوں کی سب سے بڑی خرابی یہ ہے کہ سچ نکلتی ہیں٭فقیر کے لیے آنکھیں نہ ہونا بڑی نعمت ہے ٭بدصورت انگریز عورت نایاب ہے، بڑی مشکل سے نظر آتی ہے، یعنی ہزار میں ایک۔ پاکستانی اور ہندوستانی اسی سے شادی کرتا ہے٭ہم نے تو سوچا تھا کراچی چھوٹا سا جہنم ہے، جہنم تو بڑا سا کراچی نکلا٭آپ راشی، زانی ا ور شرابی کو ہمیشہ خوش اخلاق، ملنسار اور میٹھا پائیں گے کیو ں کہ وہ نخوت، سخت گیری اور بدمزاجی افورڈ ہی نہیں کر سکتا ٭ہارا ہوا مرغا کھانے سے آدمی اتنا بودا ہوجاتا ہے کہ حکومت کی ہر بات درست لگنے لگتی ہے ٭ جس دن بچے کی جیب سے فضول چیزوں کے بجائے پیسے برآمد ہوں تو سمجھ لینا چاہیے کہ اب اسے بے فکری کی نیند کبھی نہیں نصیب ہوگی ٭انسان واحد حیوان ہے جو اپنا زہر دل میں رکھتاہے٭مرد عشق و عاشقی صرف ایک ہی مرتبہ کرتا ہے، دوسری مرتبہ عیاشی اور اس کے بعد نری بدمعا شیا ں ٭آسمان کی چیل، چوکھٹ کی کیل اور کورٹ کے وکیل سے خدا بچائے، ننگا کرکے چھوڑتے ہیں٭قبر کھودنے والا ہر میت پر آنسو بہانے بیٹھ جائے تو روتے روتے اند ھا ہوجائے٭خون، مشک، عشق اور ناجائز دولت کی طر ح عمر بھی چھپائے نہیں چھپتی٭تماشے میں جان تماشائی کی تالی سے پڑتی ہے، مداری کی ڈگڈگی سے نہیں ٭ لذ یذ غذا سے مرض کا مقابلہ کرنے کا حوصلہ اور طاقت پیدا ہو تی ہے٭نام میں کیا رکھا ہے؟ دوست کو کسی بھی نام سے پکاریں، گلوں ہی کی خوش بو آئے گی ٭ فر ضی بیماریوں کے لیے یونانی دوائیں تیربہ ہدف ہوتی ہیں ٭ جس بات کو کہنے اور سننے والے دونوں ہی جھوٹ سمجھیں اس کا گناہ نہیں ہوتا٭یورپین فرنیچر صرف بیٹھنے کے لیے ہوتا ہے جبکہ ہم کسی ایسی چیز پر بیٹھتے ہی نہیں جس پر لیٹا نہ جا سکے ٭میرا تعلق تو اس بھولی بھالی نسل سے رہا ہے جو خلوصِ دل سے سمجھتی ہے کہ بچے بزرگوں کی دعا سے پیدا ہوتے ہیں٭(جنرل ضیا الحق اپنی تقریروں میں) چنگیزی طرزِ ادا سے مزاح کا ناس مار دیتے تھے، کیو ں کہ مزاح ان کے مزاح، منصب، مونچھ، سری جیسی ابلو ا ں آنکھوں اور وردی سے لگّا نہیں کھاتا٭عورتیں ہمیشہ سچ بولتی ہیں ۔ ۔ ۔۔۔۔۔ وہ ا یک دوسرے کی عمر ہمیشہ صحیح بتاتی ہیں ٭ حالاتِ حاضرہ پر تبصرہ کرتے وقت جو شخص اپنے بلڈ پریشر اور گالی پر قابو رکھ سکے وہ یا تو ولی اللہ ہے یا پھر وہ خود ہی حالاتِ حاضرہ کا ذمّے دار ہے٭ اندرونِ لاہور کی چند گلیاں اتنی تنگ ہیں کہ اگر ایک طرف سے مرد اور دوسری طرف سے عورت گزر رہی ہو تو درمیان میں صرف نکاح کی گنجائش رہ جاتی ہے٭ جو اپنے ماضی کو یاد نہیں رکھنا چا ہتا وہ یقیناً لوفر رہا ہوگا٭ سمجھ دار آدمی نظر ہمیشہ نیچی اور نیت خراب رکھتا ہے٭مجھے اس پر قطعی تعجب نہیں ہوتا کہ ہمارے ملک میں پڑھے لکھے لوگ خونی پیچش کا علاج تعو یز، گنڈوں سے کرتے ہیں۔ غصہ اس بات پر آتا ہے کہ وہ واقعی اچھے ہوجاتے ہیں٭ بناؤ سنگھار ہر عورت کا حق ہے،بہ شرط یہ کہ وہ اسے فرض نہ سمجھ لے٭بڑھیا سگریٹ پیتے ہی ہر شخص کو معاف کر دینے کا جی چاہتا ہے، خواہ وہ رشتے دار ہی کیوں نہ ہو٭ موسم، معشوق اور حکومت کا گلہ ہمیشہ سے ہمارا قومی، تفریحی مشغلہ رہا ہے٭مرد پہلے بحث کرتے ہیں، پھر لڑتے ہیں۔ عورتیں پہلے لڑتی ہیں، پھر بحث کرتی ہیں ۔ مجھے ثانی الذکر طریقہ زیادہ مقبول نظر آتا ہے۔اس لیے کہ اس میں آئندہ سمجھوتے اور میل ملاپ کی گنجائش باقی رہتی ہے٭ غزل کھا گئی نوجواں کیسے کیسے۔
ایک ملاقاتی سے مشتاق یوسفی کی دل چسپ باتیں
٭ایک صاحب نے یوسفی صاحب سے ملاقات کا احوال قلم بند کیا ہے۔وہ فرماتے ہیں:
یُوسفی بولے: ’’آپ ہی کی عُمر کی ہوں گی ،وہ لڑکی جو ہم سے ملیں۔ ڈاکٹر بن رہی تھیں شاید۔ رخصت ہوتے وقت اٹھلا کر کہنے لگیں کہ یوسفی صاحب! ایک بات تو بتائیے۔ آپ جیسے عُمر رسیدہ مرد جب مجھ جیسی نوجوان لڑ کیو ں سے ملتے ہیں تو جاتے جاتے یہ کیوں کہتے ہیں کہ بھئی! ملتی رہا کرو‘‘۔
سوال ہوا کہ جس لڑکی نے آپ کو لُچا کہا، آپ اُس پر برہم نہیں ہوئے؟تو انہوں نے جواب دیا :’’نہیں، میاں! کہتی تو وہ ٹھیک ہی تھی‘‘۔
طبیعت پُوچھی توجواب ملا:’’میاں! اپنے آپ پر پڑا ہُوں۔ زندگی میں تو غم سے چھٹکارا نہیں ملنے کا‘‘۔
عرض کیا کہ جی ہاں! غالب نے بھی یہی کہا تھا کہ قیدِ حیات و بندِ غم اصل میں دونوں ایک ہیں‘‘۔ یہ سنتے ہی وہ سنبھل کر بیٹھ گئےاور بولے :’’نہیں! قیدِ حیات و بنتِ عم اصل میں دونوں ایک ہیں‘‘۔
پوچھا آپ کی کتابوں میں سے کون سی آپ کے دل کے بہت نزدیک ہے؟توآنکھوں میں شرارت بھری چمک لیے بولے ::’’کتابوں کی تو خبر نہیں البتہ کچھ چہر ے ضرور دل کے نزدیک ہیں جن کا نام لینے میں ہمیں تکلّف ہے‘‘۔
اس سوال پر کہ آج کل آپ انٹرویو دیتے ہیں کیا؟وہ بولے:’’کچھ دن قبل ایک مُحترمہ انٹرویو لینے آ دھمکیں۔ پہلا سوال ہی یہ کیا کہ یوسفی صاحب! آپ نے کبھی عشق کیا ہے؟ ہم نے کہا بی بی! ابھی تو آپ ٹھیک سے بیٹھی بھی نہیں اور یہ مُطالبہ؟‘‘
مصروفیات کے بارے میں پوچھا گیا تو جواب ملا : ’ ’ میاں! انسان اُس وقت تک کلچرڈ نہیں ہوسکتا جب تک ا پنی ہی کمپنی سے محظوظ ہونا نہ سیکھ لے۔ہے آدمی بجائے خود اک محشرِ خیال‘‘۔
پسندیدہ پھلوں کے بارے میں سوال پر بولے : ’’ ڈ رائی فروٹ۔ خاص کر نکاح کا چھوہارا۔ ویسے تو مونگ پھلی بھی پسند ہے، مگر مونگ پھلی اور آوارگی میں خرابی یہ ہے کہ آدمی ایک دفعہ شروع کر دے تو سمجھ میں نہیں آتا کہ ختم کیسے کرے۔۔۔بھئی آج کل مونگ پھلی پھانکنے کا وقت کس کے پاس؟ اب تو کمپیوٹرائزڈ تیز رفتار دور ہے۔ ہما ر ی یہ حالت ہے کہ ایک اچھا جملہ تین چار دن تک نہال اور سرشار کیے رکھتا ہے‘‘۔
پاکستان کی سیاست اور آمریت پرطنز
لیڈر خود غرض، علما مصلحت بیں ، عوام خوف زدہ اور راضی بہ رضائے حاکم، دانش ور خوشامدی اور ادارے کھو کھلے ہو جائیں (رہے ہم جیسے لوگ جو تجارت سے وابستہ ہیں تو: کامل اس فرقہ تجارسے نکلا نہ کوئی ) تو جمہوریت آ ہستہ آہستہ آمریت کو راہ دیتی چلی جاتی ہے۔ پھر کوئی طالع آزما آمر ملک کو غضب ناک نگاہوں سے دیکھنے لگتا ہے۔ تیسری دنیا کے کسی بھی ملک کے حالات پر نظر ڈالیے: ڈکٹیٹر خود نہیں آتا، لایا اور بلایا جاتا ہے۔ اور جب آجاتا ہے تو قیامت اس کے ہم رکاب آتی ہے۔ پھر وہ روایتی اونٹ کی طرح بدوؤں کو خیمے سے نکال باہر کرتا ہے۔ باہر نکالے جانے کے بعد کھسیانے بدؤ ایک دوسرے کا منہ نوچنے لگتے ہیں۔ پھر ایک نایاب بلکہ عنقا شے کی جستجو میں نکل کھڑے ہوتے ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ اپنے سے زیادہ غبی اور تابع دار اونٹ تلاش کرکے اسے دعوت دینے کے منصوے بنانے لگتے ہیں تاکہ اس کی پیٹھ پر بیٹھ کر اپنے خیمے میں رہ سکیں اور آقائے سابق الانعام یعنی پچھلے اونٹ پر تبرّا بھیج سکیں۔ یہ حقیقت ہے کہ ڈکٹیٹر سے زیادہ مخلص اور کوئی نہیں ہو سکتا۔وہ اس معنی میں کہ وہ خلوصِ دل سے یہ سمجھتا ہے کہ ملک و ملت سے جس طرح ٹوٹ کر وہ محبت کرتا ہے اور جیسی اور جتنی خدمت وہ تنِ تنہا کرسکتا ہے، وہ پوری قوم کے بوتے کا کام نہیں۔ نیز اسی کی ذاتِ واحد خلاصہ کائنات اور بلا شرکتِ غیرے سر چشمہ ہدایت ہے، لہذا اس کا ہر فرمان بہ منزلہ صحیفہ سماوی ہے:
آتے ہیں غیب سے یہ فرامیں خیال میں
اس میں شک نہیں کہ اس کے پاس ان مسائل ( Non-issues) اور فرضی قضیوں کا نہایت اطمینان بخش حل ہوتا ہے جو وہ خود اپنی جودتِ طبع سے کھڑے کرتا ہے۔ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ اخباری معمے(کراس ورڈ) بنا نے والوں کی طرح پہلے وہ بہت سے حل اکٹھے کر لیتا ہے ا ور پھر اپنے ذہنِ معما ساز کی مدد سے ان سے آڑے ترچھے مسائل گھڑتا چلاجاتاہے۔
رائے کی قطعیت اور اقتدار کی مطلقیت کا لازمی شاخسانہ یہ کہ وہ بندگانِ خدا سے اس طرح خطاب کرتا ہے جیسے وہ سب پتھر کے عہد کے وحشی ہوں اور وہ انہیں ظلمت سے نکال کر اپنے دورِ ناخدائی میں لانے اور بن ما نس سے آدمی اور آدمی سے انسان بنانے پر مامور من اللہ ہے۔ وہ ہمہ وقت اپنی سیسہ پلائی ہوئی دیوار سے خطاب کرتا رہتا ہے۔ مگر قدِ آدم حروف میں اس پر لکھا ہوا نوشتہ اسے نظر نہیں آتا۔ مطلق العنانیت کی جڑیں دراصل مطلق الانانیت میں پیوست ہوتی ہےں۔ چنانچہ اوامر و نواہی کا انحصار اس کی جنبشِ ابرو پر ہوتا ہے۔ انصاف کے خود سا ختہ ترازو کے اونچے اونچے پلڑوں کو، اپنی تلوار کا پاسنگ، کبھی اس پلڑے اور کبھی اس پلڑے میں ڈال کر برابر کر دیتا ہے:
ہر کہ آمد عدالتِ نو ساخت
ایسی سرکارِ دولت مدار کو مابدولت مدار کہنا زیادہ مناسب ہوگا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔پھر جیسے جیسے امورِ سلطنت پر وفورِ تمکنت اور ہوسِ حکم رانی غالب آتی ہے ۔ آمر اپنےذاتی مخالفین کو خدا کا منکر اور اپنے چاکر ٹولے کے نکتہ چینوں کو وطن کا غدار اور دین سے منحرف قرار دیتا ہے۔ اور جو اس کے دستِ آہن پوش پر بیعت میں عجلت سے کام نہیں لیتے ان پر اللہ کی زمین کا رزق، اس کی چھا ؤں اور چاندنی حرام کر دینے کی بشارت دیتا ہے۔ اد یبو ں اور تلامیذ الرحمن کو شاہی مطبخ کی بریانی کھلا کر یہ بتلاتا ہے کہ لکھنے والے کے کیا فرائض ہیں اور نمک حرامی کسے کہتے ہیں ۔ وہ یہ جانتا ہے کہ ادب اور صحافت میں ضمیر فروش سے بھی زیادہ مفیدِ مطلب ایک اور قبیلہ ہوتا ہے جسے مافی الضمیر فروش کہنا چاہیے۔ اس سے وہ تصدیق کر ا تا ہے کہ میرے عہد میں اظہار و ابلاغ پر کوئی قدغن نہیں، مطلب یہ کہ جس کا جی چاہے جس زمین اور جس بحر میں قصیدہ کہے۔ قطعاّ کوئی روک ٹوک نہیں۔ بلکہ وزن ، بحر اور عقل سے خارج ہو تب بھی ہم حارج نہیں ہوں گے۔ (غنودیم، غنودیم ۔آبِ گُم)