شمیم الدین غوری
جیسے کہ ہم سب جانتے ہیں کہ کرّہ ارض بری طرح ماحولیاتی آلودگی کا شکار ہے۔اس کو پھیلانے میں ا نسانی سر گرمیوں کا بہت بڑا ہاتھ ہے ،یہی سر گر میاں ما حو ل میں تبدیلیاں پیدا کرتی ہیں ۔پوری دنیا میں صدیوں سے ایک ایکولوجیکل سسٹم جاری تھا ۔پھل ،پھول اور پو د ے اپنے وقت پر اُگتے ،انہیں جاندار کھاتے اور نامیاتی اجزاکی صورت میں باقیات چھوڑ دیتے ۔ہر موسم میں بارشیں اپنےو قت پر ہوتیں ۔یہی نامیاتی باقیات دوبارہ مٹی میں مل کر نئی زندگی کو سہارا دیتی ہیں ۔اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ قدرتی سسٹم تما م عالم کو پال رہا تھا ۔تازہ سبزی ،گوشت اور ہوا سب میسر تھیں ،پھر اس سسٹم میں انسان نے دخل اندازی کی اور ماحول دشمن سر گر میوں کے باعث کرۂ ارض کو خطر ناک حد تک نقصان پہنچایا ہے ۔درخت کاٹے ،جنگلات کا خاتمہ کر دیا ،جنگلی جانوروں کا بے دردی سے شکار کیا اور بڑے بڑے کار خانے لگاکر ماحول کو انتہائی آلودہ بنا دیا گیا ہے ۔ماحولیاتی آلودگی کی وجہ سے انسانی جانیں مختلف بیماریو ں میں مبتلا ہورہی ہیں ۔ ایک تحقیق کے مطابق 2015 ء میں ماحولیاتی آلودگی کی وجہ سے مرنے والوں کی سب سے بڑی تعداد 2545518بھارت میں تھی ،اس کے بعد چین میں 1838258 ،پاکستان میں 311189 ،بنگلہ دیش میں 260836اور امریکامیں 155155 اموات ہوئیں ۔ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے مطابق فضائی آلودگی سب سے بڑی قاتل ہے ۔یہ مسئلہ دل کی بیماریاں ،ہارٹ اٹیک ،پھیپھڑوں کا کینسر اور دیگر بیماریوں کا سبب بن رہا ہے ۔ایک رپورٹ کے مطابق گاڑیوں سے خارج ہونے والا دھواں 54 ملین اموات کا ذمہ دار ہے اور لکڑی واُپلوں وغیرہ کا دھواں 92 ملین افراد کی اموات کا باعث بن رہا ہے۔علاوہ ازیں آلودہ پانی سے جو آنتوں ،معدے اور دیگر بیماریا ں پھیل رہی ہیں ،ان سے 81 ملین اموات ہوئیں ۔گرین ہائوس گیسز کی بڑھتی ہوئی مقدار نے ہماری زمین کی فضائی چھتری میں سوراخ کر دیئے ہیں، جس سے اوسط درجۂ حرارت میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔گلیشئر پگھل رہے ہیں ،طوفانوں اور خشک سالی میں اضافہ ہو رہا ہے اور بہت سے ممالک قحط سالی کا شکار ہیں۔
پاکستان میں جس تیزی سے آبادی بڑھ رہی ہے اسی تیزی سے ماحولیاتی آلودگی میں بھی اضافہ ہورہا ہے۔لیکن اس کے باوجود ابھی تک اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے کوئی مناسب بندوبست نہیں کیا گیا ہے ۔جنگلات کی کٹائی ہو یا گوبر جلانےکی بات ہو ،کچرا پھینکنے کا معاملہ ہو یا گندم کے بچے ہوئے پودوں کو جلانا ،ان تمام معاملات پر کوئی کان دھر نے کو تیار نہیں ۔فیکٹریوں کا دھواں،گندے پانی کا فیکٹریوں سے بغیرڈی سیلی نیشن کے اخراج،شہری آبادیوں میں اضافہ،پاور پلانٹس سے نکلنے والا دھواں اور دیگر وجوہات ماحولیاتی آلودگی کا باعث بن رہی ہیں لیکن ہمارے کانوں پر جو نہیں رینگ رہی ۔نہ عوام اس عفریت کو ماننے کے لیے تیار ہے ۔
کراچی جو کبھی عروس البلاد کہلاتا تھااور پاکستان کا سب سے بڑا شہر ،اب یہ پورے پاکستان کا سب سے آلودہ شہر بن گیا ہے۔روزانہ بارہ ہزار ٹن کچرا اس شہر میں پیدا ہوتا ہے اور اس میں سے ایک تہائی بھی شہر سے باہر نہیں جاتا۔زیادہ تر کچرے کو آبادیوں میں ہی آگ لگا کر جلا دیا جاتا ہے۔کوئی جگہ ایسی نہیں جہاں کچرے کے ڈھیر نہ ہوں۔اسکولوں کالجوں کی دیواروں، ہسپتالوں کی عمارتوں،ندی نالوں، پارکوں، فٹ پاتھوں،شاہراہوں، گلیوں غرض ہر جگہ کوڑا ہی کوڑا ہے بلکہ کوڑے کے پہاڑ ہیں۔ لیاری ندی اور ملیر ندی کوڑا پھینکنے اور جلانے کا مرکز ہیں۔لوگ اپنے گھروں کےآس پاس کب تک کوڑا کچرا برداشت کریں گے۔تنگ آکر جلانے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔کراچی کی ماحولیاتی آلودگی کی سب سے بڑی وجہ کچرے کا ٹھکانے نہ لگانا ہے۔ یہاںکی فضا میں کارخانوں کا د ھواں،کچرے کا دھواں،گاڑیوں کا دھواں،خاص طور پر ٹو اسٹروک گاڑیوں اور پرانی ڈیزل والی گاڑیوں کادھواں شامل ہیں۔ کارخانوں سے بلا روک ٹوک دھوئیں کا ا خر ا ج جس میں مضر صحت کیمیکلز بھی شامل ہیں،ماحول کو انسانی صحت کے لئے تباہ کن بنا رہا ہے۔فضائی آلودگی سے سا نس کی بیماریاں، پھیپھڑوں کی بیماریاں ،پھیپھڑوں کا کینسر ،جلدی بیماریاں،کھانسی نزلہ کراچی میں عام ہے۔اسی فضا ئی آلودگی کی بناء پر کراچی کا درجۂ حرارت انتہائی بڑھ گیا ہے ۔
ماہرین ماحولیات کے مطابق کراچی کی ماحولیاتی آلودگی صرف فضا تک محدود نہیں۔ بلکہ پانی کی آلودگی بھی کراچی کا ایک بہت بڑا مسئلہ ہے۔کراچی شہر کو جہاں سے پانی سپلائی ہوتا ہے وہاں کھلی نہریں ہیںاور اکثر پانی کی لائنینں سیوریج کی لائینوں سے مل رہی ہوتی ہیں ۔اکثر ا و قات ایسا ہوتا ہے جب پانی کی سپلائی بند ہوتی ہے تو سیو ر یج کا پانی ان صاف پانی کی لائینوں میں بھر جاتا ہے ۔ جب ان لائینوں میں پانی کھولا جاتا ہے تو گھروں میں پہلے تھوڑی دیر تو گٹر کا پانی آتا ہے ،اس کے بعد لائن کا پا نی آتا ہے ۔ لیکن عوام بھی کیا کرے وہ مجبور ہے اس کےعلاوہ کوئی چارہ بھی نہیں ہے ۔کتنے لوگ اس پانی کےاستعمال سے گیسٹرو،اُلٹی دست ،ٹائیفائیڈ،پیٹ کے کیڑوں اور ہیپاٹائیٹس اور دیگر بیماریو ں میں مبتلا ہو جاتے ہیں ۔
کراچی میں ایک وسیع وعریض سمندر موجود ہے ،مگر ہم نے اس کو تباہ وبر باد کر دیا ہے ۔ہزاروں ٹن کچرا ہم اس میں ڈال رہے ہیں ۔ملیرندی اور لیاری ندی کے ذریعے سیورج کا پانی بغیرڈی سیلی نیشن کئے اس میں بہا رہے ہیں صرف 275 ملین گیلن کی ڈی سیلی نیشن کی ہمارے پا س گنجائش ہے480 ملین گیلن سیورج کا پانی سمندر کو آلودہ کر رہا ہے۔ڈیفنس سوسائٹی سے 275 ملین گیلن،کراچی پورٹ سے 136 ملین گیلن،اس کے علاوہ فشریز،اور دیگر جگہوں سے سیوریج کا پانی سمندر کو اس قد ر آلودہ کر رہا ہے کہ اس میں سے سیوریج کی بدبو آتی ہے۔ اس آلودہ پانی کی وجہ سے ایسے کیڑے سمندر میں پیدا ہو گئے ہیں جو پہلے نظر نہیں آتے تھے۔ان کیڑوں کی وجہ سے سمندر میں ننگے پاؤں کھڑا ہونا مشکل ہے ۔ چند سالو ں بعد خبر آتی ہے کہ ہزاروں مچھلیاں کلفٹن کے ساحل پر مر دہ پائی گئیں۔کبھی خبر آتی ہے کہ لاکھوں کروڑوں سیپیاں سا حل پر مردہ پائی گئیں۔یہ سب ماحولیاتی آلودگی کے ا ثر ا ت ہیں ۔سمندر پر ایک ظلم اور ہو رہا ہے وہ یہ کہ ہماری فشر یز میں گنجائش سے زیادہ لانچیں مچھلی کا شکار کرنے جاتی ہیں۔یہ پہلے ہی ہمارے سمندر میں شکار کی گنجائش سے ڈبل ہیں اور سالانہ ان میں سو کشتیوں کا اضافہ ہو رہا ہے۔ ان میں چھوٹے خانے کے وہ جال بھی ہوتے ہیں جو مچھلیوں کے بچے پکڑ کر پولٹری فیڈ کے لئے استعمال کرتے ہیں۔اس سے سمندر کا قدرتی ماحول بری طرح تباہ ہو رہا ہے۔مچھلی اور جھینگے کی نرسریاں جو ملیر اور لیاری ندیوں کے دہانے اور ماڑی پور سے بھنبھور تک تھیں وہ ختم ہو گئیں۔اقوام متحدہ کی فوڈ اینڈ ایگری کلچر آرگنائزیشن کے مطابق سمندر میں جانے والی کشتیوں کا بیڑہ پچاس فی صد کم کرنے کی ضرورت ہے۔6000غیر ملکی ڈیپ سی ٹر ا لرز کو لائسنس دینے کا مطلب ہے کہ سونے کا انڈہ دینے و ا لی مرغی کو ذبح کر دیا جائے۔کراچی کا ساحل اس قدر آلودہ ہو چکا ہے کہ یہاں بحری حیات کا زندہ رہنا ناممکن ہے ۔سمندری آلودگی کی وجہ سے اس کے کنارے مینگروز کے جنگل ختم ہو رہے ہیں۔مینگروز ہی تو بحری حیات کے محافظ ہوتے ہیں۔ ساحل سمندر کو کٹنے سےروکتے ہیں۔ فشریز کی ماحولیاتی آلودگی کی بنا پر مچھلی اور جھینگے کی پا کستا ن سے درآمد امریکا اور یورپی یونین نے بند کر دی تھی، جس سے زر مبالہ کے نقصان کے ساتھ ساتھ ماہی گیروں نے بھی فاقے کئے۔
شاپنگ بیگز یا پولی تھین بیگز ایک الگ ماحول دشمن چیز ہے ،جس پرکئی دفعہ پابندی لگائی گئی ،مگر ایک دفعہ بھی عمل نہیں کیا گیا ۔یہ وہ عفریت ہے جو ہمارے پورے کراچی کے ماحول کو آلودہ کئے ہوئے ہے ۔گلیوں، محلوں، سڑکوں اورندی نالوں ہر جگہ یہ پائی جاتی ہے۔ کوڑے کو جلانے سے جو زہریلی گیسیں نکل رہی ہیں وہ انسانی صحت کو تباہ کر رہی ہیں۔یہ زمین میں ایک ہزار سال اور پانی میں ساڑھے چار ہزار سال موجود رہتی ہیں۔زمین کی زرخیزی ختم اور بحری حیات کو تباہ کر تی ہیں۔ہمارے ساحلوں پر جو قیمتی اور خوبصورت کچھوے انڈے دینے آتے ہیں وہ انہیں جیلی فش سمجھ کر کھا لیتے ہیں اور ان کی موت ہو جاتی ہے۔ مچھلیاں بھی ان میں لگی خوراک کی خوشبو سے ان میں پھنس کر ہلاک ہو جاتی ہیں۔ہر ندی نالے میں یہ تیرتی نظر آتی ہیں۔اُڑ اُڑ کر گھروں اور دکانوں کو آلودہ کرتی ہیں۔اس کا سب سے زیادہ استعمال کراچی میں ہی ہوتا ہے۔
کراچی میں آواز کا بھی ایک ماحول دشمن کردار ہے۔ پاکستان کا سب سے بڑا شہر ہونے کی بناء پر یہاں بے انتہا ٹریفک ہے۔گاڑیوں کا شور خاص طور پر رکشوں اور بائیکس کا شور برداشت سے باہر ہے۔دنیا بھر میں ایمبولینسوں کے ہوٹر کی آواز انسانی کانوں کی برداشت سے زائد نہیں ہوتی۔ انسانی کان 90 ڈی بی تک کی آواز برداشت کر سکتے ہیں ۔کراچی میں ان کی آواز 90 ڈی بی سے کہیں زیادہ ہوتی ہے جو بچوں کے کان کے پردے پھاڑ سکتی ہے۔بڑوں سے بھی برداشت نہیں ہوتی۔گاڑیوں میں میں بڑے بڑےڈیک لگاکر اونچی آوازوں میں گانے سننا ایک عام بات ہو گئی ہے۔اسی طرح ہوٹل میں اوردُکانوں میں بھی ساراسارا دن اونچی آواز میں گانے بجتے ہیں۔اس طرح شہر کا ماحولیاتی نظام تباہ ہو رہا ہے۔
کراچی میں درختوں کی کٹائی اور ماحول دشمن پودوں ،سفیدے اور کونو کارپس کی موجودگی سے بھی ماحولیات کو بہت نقصان پہنچ رہاہے۔ ان کے پولن نے سانس کی بیماریاں پیدا کی ہیں ۔ان کے پتوں نے اپنی ٹاکسن سے روایتی درختوں کو نقصان پہنچایا۔ زیر زمین پانی کو کم کیا، جس سے بہت سے دیسی درخت سوکھ گئے۔پرندے کسی بھی ماحول کی خوبصورتی ہوتے ہیں وہ ان نا مانوس پودوں اور دیگر آلودگیوں کی بناء پر اس شہر کو چھوڑ گئے یا مر گئے۔ اس کا تد ارک کرنے کی کوششیں ہو رہی ہیں اور دوسرے ماحول د و ست درخت لگانے کے منصوبے زیر غور ہیں ۔کراچی میں اتنی گرمی کبھی نہیں پڑتی تھی جتنی اب ہونے لگی ہے ماہرین اس کو ماحولیاتی آلودگی سے جوڑتے ہیں ۔یہ ماحولیاتی آ لو دگی ہی ہے، جس کی بناء پر ہسپتال بھرے نظر آتے ہیں ۔ اسی بناء پر دو سال پہلے ہیٹ سٹروک سے ہزاروں ا مو ا ت واقع ہوئیں۔ کراچی میں پہلی مرتبہ اس سال شہریوں کو فوگ کا شکار ہونا پڑا۔ہمیں ان خاموش قاتلوں سے بچنے کا بندوبست لازمی کرنا ہوگااوراپنے ماحول کو انسانی دوست بنانا ہوگا۔