• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
میکسیکو میں بائیں بازو کی فتح

٭چین درحقیقت اسرائیل کی اعلیـ ٹیکنالوجی، خوراک، زراعت، پانی اور بایو ٹیکنالوجی کے شعبوں میں سرما یہ کا ر ی بڑھا رہا ہے٭گزشتہ برس اسرائیل کے وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو نے چین کا دورہ کیا تو اس وقت دس ایسے معاہدوں پرد ست خط ہوئے تھے جن کی مالیت پچیس ارب ڈالرزہے ٭دونوں ممالک کے ثقافتی تعلقات بھی بہت تیزی سے آگے بڑھ رہے ہیں۔ گزشتہ نومبر میںچین نے تل ابیب میں اپنا کلچرل سینٹر کھولا

میکسیکو کے صدارتی انتخاب میں بائیں بازو سے تعلق رکھنے والے امیدوار آندرے مینویل لوپیز اوبرا دورنے(جنہیں مختصراًآملو کہا جاتا ہے) کام یاب ہو نےکےبعدملک میںبڑی تبدیلیوں کاعندیہ دیاہے۔آ ملو میکسیکو سٹی کے میئررہ چکے ہیں۔انہیں ڈالے گئے و و ٹس کا تناسب تریپن فی صد تھا۔پاکستان میں عمران خا ن کی طرح میکسیکو میں آملو کا بھی سب سے اہم نعرہ بد عنوانیوں کے خلاف جنگ رہاہے۔اس کے علاوہ وہ ا مریکی صدر ٹرمپ کے بھی شدید ناقد رہے ہیںاور وہ با رہا یہ بات کہہ چکے ہیں کہ وہ امریکا کے ساتھ میکسیکو کے تعلقات پر کڑی نظر رکھیں گے۔یاد رہے کہ امر یکامیں صدر ٹرمپ کےبرسراقتدار آنے کے بعد شمالی ا مریکاکے ممالک ،یعنی امریکا، کینیڈا اور میکسیکو شدید قسم کے تنائو کا شکار رہے ہیں کیوں کہ ٹرمپ نےا یک طرف تو NAFTA یعنی نارتھ امریکن فری ٹریڈ ایگریمنٹ کو خطرے میں ڈال دیا ہے اور دوسری طر ف وہ میکسیکو کے ساتھ سرحدپر طویل اور اونچی دیوار کھڑی کرنےکے درپے ہیں۔اپنے وعدےکے مطا بق ٹرمپ نے اب اس دیوار کے مختلف ڈیزائنز بھی د یکھنے شروع کردیے ہیں۔ظاہرہے کہ ان حرکتوں کا اثر میکسیکو پر بہ راہ راست پڑرہا ہے اور لوگ میکسیکوکے نو منتخب صدر سے کسی بھرپور اقدام کی توقع رکھتے ہیں ۔

اگرچہ صدر ٹرمپ نے میکسیکو کے نومنتخب صدر کو تہنتی پیغام بھیج دیا ہے،لیکن توقع ہے کہ آنے والے د نوں میں امریکا اور میکسیکو کے تعلقات بہتر نہیں ہوں گے۔ امریکی صدر نہ صرف سرحدی دیوار بنانے پر مصر ہیں بلکہ انہوں نے میکسیکو سے آنے والے مہاجرین پر بھی سختیاں شروع کردی ہیں۔ خاص طورپرمہاجرین کو ان کے بچوں سے الگ کرنے کی پالیسی پر پوری دنیا میں شدید تنقید ہوئی ہے اور ٹرمپ کو اس سلسلے میں مداخلت کرکے اپنی انتظامیہ کا پہلا فیصلہ واپس لینا پڑا تھا۔

میکسیکو میں بائیں بازو کی فتح

نومنتخب صدر،آملونےیہ بھی وعدہ کیا ہے کہ وہ شہر ی آزادیوں کا پوری طرح احترام کریں گے اور کوئی بھی ایسا قدم نہیں اٹھائیںگے جس سے خفیہ یا اعلانیہ طور پر آمریت کا شائبہ بھی محسوس ہو۔ان کا یہ اعلان ا ور طرزعمل اس طرزعمل سے بالکل مختلف ہے جو ترکی میں صدر اردوان نے اپنا رکھا ہے اور جو ان کے شخصی اقتدار کو تقویت دے رہا ہے۔

جنوبی امریکا میں اکیسویں صدی میں بائیں بازو کے کئی راہ نما برسراقتداررہ چکے ہیں، مگر ان میںسے کو ئی بھی اپنی معیشت کو مستحکم نہیں کرسکا۔اس لیے خطرہ ہےکہ کہیں آملو بھی اپنے ملک کو وینزویلا کے نقش قدم پرچلانے کی کوشش نہ کریں۔یادرہے کہ وینز ویلا میں شدید قسم کا اقتصادی بحران ہےاور افراط زرکی شرح یا منہگائی بہت بڑھ گئی ہے۔

آملونےاپنی قوم سے جو وعدے کیے ہیں ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ وہ سا بق حکومت کی طرف سے کیے جانے والے توانائی یا بجلی کے معاہدوں پر نظرثانی کریں گے اور اگر ان میں بدعنوانی پائی گئی تو ذمے د ا روں کے خلاف کارروائی کر یں گے۔آملو ان راہ نما ئو ں میں سے ہیں جو بدعنوانی کو معاشرے کاسب سے بڑا ناسور قرار دیتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ زوال پذیر سیاسی انتظامیہ بدعنوانی کوپروان چڑھاتی ہے جس سے سماجی واقتصادی مسائل اورعدم مساوات پیداہوتی ہے اور امیری اور غریبی کا فرق بہت بڑھ جاتاہے،چناں چہ معاشرے میں تشدد جنم لیتا ہے۔ آملو کا منصوبہ ہے کہ وہ بدعنوانی میں ملوث کسی بھی شخص کو نہیں بخشیں گے چاہے ان میں خود صدر کے قریب ترین لوگ ہی کیوں نہ شامل ہوں۔نئے صدر کا دعویٰ ہے کہ وہ اپنی حفاظتی کابینہ سےروزانہ میٹنگ کریںگے تاکہ انہیں مو ثر قیا د ت فرا ہم کی جاسکے۔

میکسیکو میں بائیں بازو کی فتح

میکسیکوان ممالک میںشامل ہےجہاں تشددعروج پررہاہے۔یہ ملک خاص طورپرنشہ آور اشیا اورادویات کی پیداواراوراسمگلنگ کے حوالے سے دنیا بھر میںبدنام ہے۔ وہاں انتخابی مہم کے دوران بھی تشددجاری ر ہاجس کے نتیجے میںایک سو تیس سے زیادہ امیدوار اور کارکن ہلاک ہوئے۔

انتخابی مہم کے دوران آملو نے ٹرمپ کے خلاف سخت ترین زبان استعمال کی تھی،لیکن کام یابی کے بعد کی جانے والی تقریر میں انہوں نے نسبتاً نرم لہجہ ا ختیا ر کیا اور کہاکہ وہ پڑوسیوںسے بہتر تعلقات کےلیے ہر ممکن کوشش کریں گے۔ ان کے اس لہجے سے میکسیکو کے کاروباری حلقوں میں بھی کچھ اطمینان پیدا ہوا ہے جویہ سمجھ رہے ہیں کہ بائیں بازوسے تعلق رکھنے والا صد ر ان کے لیے مزید مسائل پیدا کرے گا کیوں کہ وہ پہلے ہی امریکا کے خراب رویےکےباعث پریشا نی کا شکار رہے ہیں۔ آملو نے یہ اعلان بھی کیا ہے کہ وہ کسی کاروبار کو ریاستی ملکیت میں نہیں لیں گے۔ان کا یہ وعدہ بھی ہےکہ وہ مالیاتی نظم وضبط بہتربنائیںگے ا ور محصولات میںاضافہ نہیں کریںگے۔ آملو کی سماجی حکمت عملی میںیہ وعدہ بھی شامل ہے کہ وہ بوڑھوں کےلیےپینشن میںدگنااضافہ کریںگےجس سے میکسیکومیں آمدن کے بڑے فرق کو کم کرنے میں مدد ملے گی۔

نومنتخب صدر پینسٹھ سال کے ہیں اور وہ2000میں میکسیکو کے میئر منتخب ہوئے تھے۔ وہ 2006 اور 2012 میں بھی صدارتی انتخاب لڑچکے ہیں جن میں ا نہیں ناکامی ہوئی تھی۔اس مرتبہ انہوںنےتین جما عتی اتحادکےپلیٹ فارم سےانتخاب لڑااورکام یاب ہو ئے ۔یہ اتحاد انہوں نےپچھلا الیکشن ہارنے کےبعد 2014 میں تشکیل دیا تھا۔اس طرح انہوں نے میکسیکو کی دو بڑی سیاسی جماعتوں یعنی PRI اور PAN کا اقتدار پرتسلط ختم کر دیا ہے۔قابل ذکر بات یہ ہے کہ آملو نے اپنے قریب ترین حریف کے مقابلے میں دگنے سے زیادہ ووٹ حاصل کیے ہیں۔ا ن کےقریبی حریف انایا (Anaya)نےصرف بائیس فی صد ووٹ حاصل کیے۔قابلِ تعریف بات یہ ہے کہ انتخابی نتائج کے اعلان کے بعد تمام حریفوںنے نہ صرف اپنی شکست تسلیم کی بلکہ آملو کو مبارک باد بھی دی۔یہ اچھی اورپختہ جمہوریت کی علامت ہے۔ناپختہ جمہوریت میں عام طور پر ہارنے والے امیدوار فوری طورپردھاندلی کا رونا شروع کردیتے ہیں۔

میکسیکو میں PRI نامی سیاسی جماعت سوبرسوں میںزیادہ ترعرصےبرسراقتداررہی، مگر اب وہ تیسرے نمبر پر آئی ہے۔ وہاں جمہوریت کی پختگی کا ایک ثبوت یہ ہے کہحالیہ انتخابات میں تریسٹھ فی صدافرادنے وو ٹ ڈالے جو اچھا تناسب ہے۔ ترکی کی طرح یہاں بھی صدارتی انتخاب کےساتھ پارلیمانی انتخابات بھی ہوئےجن میںایک سو اٹھائیس سینیٹرزاورپانچ سوارا کین کانگریس منتخب ہوئے۔ ساتھ ہی دیگر ریاستی اور مقامی عہدے داروں کا انتخاب بھی عمل میں آیا۔کافی تشددکے باوجود وہاں انتخابی عمل کی تکمیل یقیناًقابل تعر یف ہے۔

نئے صدرکوپارلیمان کے ایوان زیریںیا قو می اسمبلی میں بھی اکثریت حاصل ہوگی اور غالباً سینیٹ میں بھی۔تاہم انہیںجن مسائل کا سامنا ہوگا ان میں و عدےکےمطابق بدعنوانی کاخاتمہ بھی شامل ہے۔درا صل اس نعرے کے ساتھ راہ نما منتخب تو ہوسکتے ہیں، مگراس پر عمل کرنا خاصا مشکل ہوتاہے کیوں کہ کرپشن معاشرے میں نیچے تک پھیلا ہوتاہے اور اس کی سب سے بڑی قانون پر عمل درآمد نہ ہونا ہے۔ صرف بڑی مچھلیاںپکڑنےکے دعوے سے معاشرے سے کرپشن ختم نہیںہوتا۔اس کےلیے جمہوری ادا ر و ں کامضبوط ہوناضروری ہےجس کے لیے جمہوری روایات کی تر و یج اوران پر عمل درآمد ہوناچاہیے۔ اسی طرح تشدد کے خاتمے کے لیے صرف دہشت گردوں کو پکڑنایا ما ر ناکافی نہیں ہوتابلکہ اس کی بنیادی وجوہ پر نشانہ لگانا پڑ تاہے۔تشدد اور کرپشن کے خاتمے کے لیے ریاستی ا د ا روں کا مل کر کام کرنا بہت ضروری ہوتاہے کیوں کہ کوئی ایک ادارہ یہ کارنامہ انجام نہیں دےسکتا۔

تازہ ترین