سکھر (بیورو رپورٹ/چوہدری محمد ارشاد) وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے محکمہ تعلیم کی بہتری کیلئے اپنے عہدے کا منصب سنبھالنے کے بعد سندھ میں تعلیمی ایمرجنسی نافذ کی تاکہ تعلیمی نظام کو ہنگامی بنیادوں پر بہتر بنایا جا سکے،لیکن حالیہ ثانوی و اعلیٰ ثانوی تعلیمی بورڈ سکھر کی جانب سے جاری کئے جانے والے دسویں جماعت سائنس گروپ کے سالانہ امتحانات نے سندھ حکومت کی دس سالہ کارکردگی کی قلعی کھول کر رکھ دی۔تین اضلاع میں صرف ایک امیدوار دوسری پوزیشن حاصل کر سکا باقی تمام پوزیشنیں نجی اسکولوں کے حصے میں آئیں۔سندھ حکومت کی جانب سے متعدد ایسے اقدامات بھی کئے گئے جس کے تحت غریب عوام کو ریلیف ملا جن میں مفت کتابیں دینے، سرکاری اسکول وکالجز سے فیس ختم کرنا شامل ہے، یہ اقدامات خوش آئند ہیں لیکن اس سے نظام تعلیم بہتر نہیں ہو سکا، اگر پیپلزپارٹی کے دس سالہ دور حکومت میں نظام تعلیم کی بہتری کے دعووں پر نظر ڈالی جائے تو حالیہ ثانوی و اعلیٰ ثانوی تعلیمی بورڈ سکھر کی جانب سے جاری کئے جانے والے دسویں جماعت کے سالانہ امتحانات کے نتائج ہیں جن میں سکھر ، گھوٹکی، خیرپور اور نوشہروفیروز اضلاع سے صرف ایک طالبہ نے دوسری پوزیشن حاصل کی ، پانچ پوزیشنیں نجی اسکولوں کے حصے میں آئیں۔طلبہ میں سٹی اسکول سکھر کے محمد عظیم 768 مارکس کے ساتھ پہلی، پاک ترک انٹرنیشنل اسکول ، کالج خیرپور کے حیدر امام 761مارکس کے ساتھ دوسری، ایکسلینس اسکول و کالج پنوعاقل کے حمزہ نے 760مارکس کے ساتھ تیسری پوزیشن حاصل کی جبکہ طالبات میں بحریہ فاؤنڈیشن کالج کنڈیارو کی ثناء نے 767مارکس کے ساتھ پہلی، گورنمنٹ گرلز ہائیر سیکنڈر اسکول بیراج کالونی سکھر کی دعا شاہ نے 761کے ساتھ دوسری، سٹی اسکول خیرپور کی اریبا عامر نے 760مارکس کے ساتھ تیسری پوزیشن حاصل کی۔سرکاری اور نجی تعلیمی اداروں کے 49ہزار 764طلبہ وطالبات میں سے صرف 2ہزار 577 امیدوار اے ون گریڈ میں پاس ہو سکے جن میں زیادہ تعداد نجی تعلیمی اداروں کی بتائی جارہی ہے۔ گزشتہ سال میٹرک کے امتحانات میں سرکاری اسکول کے کوئی بھی طلبہ وطالبات پوزیشن لینے میں کامیاب نہیں ہو سکے، طلبہ اور طالبات میں پہلی تین پوزیشنیں نجی اسکولوں نے حاصل کیں جوکہ حکومت کے سرکاری سطح پر معیار تعلیم کو بہتر بنانے ، تعلیمی ایمرجنسی نافذ کرنے اور دس سالہ کارکردگی پر سوالیہ نشان ہے۔ حکومت نے جو بھی اقدامات کئے جن میں خاص طورپر تمام اسکولوں میں اساتذہ کی حاضری کو یقینی بنانے کے لئے بائیو میٹرک سسٹم نافذ کیا گیا اور دیگر اقدامات کئے گئے لیکن سرکاری سطح پر تعلیمی نظام کو آج بھی بہتر نہیں بنایا جا سکا، گزشتہ دس سال میں بھی صورتحال اس سے مختلف نہیں رہی۔ سکھرسندھ کا تیسرا بڑا شہر ہے اور یہاں محکمہ تعلیم کے ضلعی اور ڈویژنل کے تمام افسران موجود ہوتے ہیں لیکن سکھر شہر میں سرکاری اسکولوں کی صورتحال بھی دیہی اسکولوں سے کچھ زیادہ مختلف نہیں ہے ، آج بھی سکھر شہر میں ایسے متعدد اسکولز موجود ہیں جہاںبنیادی سہولتیں بھی موجود نہیں۔ جبکہ بڑی تعداد میں ایسے اسکولز بھی ہیں جہاں اساتذہ کی تعداد زیادہ اور طلبہ وطالبات کم ہے ، حکومت بند اسکولوں کو کھولنے کا دعویٰ بھی کرتی رہی لیکن آج بھی سکھر سمیت خیرپور، گھوٹکی اور نوشہروفیروز میں متعدد اسکولز بند پڑے ہیں۔ مختلف سیاسی، سماجی ، مذہبی تنظیموں، شہری ، عوامی، تجارتی حلقوں کی جانب سے سرکاری اسکولوں میں گرتے ہوئے معیار تعلیم پر سخت تشویش کا اظہا رکیا گیا ہے۔