• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان والے بہت بھولے ہیں۔ پارلیمنٹ کو میونسپلٹی سمجھ بیٹھے ہیں۔ ا ن کا خیال ہے کہ کچرا اٹھانا، نالیاں بنانا، سڑکوں کے گڑھے ٹھیک کرنا اور گھروں کے غلیظ پانی کو ٹھکانے لگانا ارکان پارلیمان کا کام ہے۔ خدا جانے یہ کس کے ذہن کی اختراع ہے اور کون یہ سوچتا ہے کہ گلی محلے کے ترقیاتی کام انجام دینے کا فرض پارلیمان کے منتخب نمائندوں کی ذمے داری ہے۔اسی احمقانہ تصور کے نتیجے میں با اختیار پارٹی اپنے ارکان کو ترقیاتی فنڈ کے نام پر بڑی بڑی رقمیں دیتی ہے۔ اتنی بڑی کہ ملک کا ہر باشندہ رکن پارلیمان بننا چاہتا ہے ۔ اس وقت بھی چند سو نشستوں کے لئے کئی ہزار امیدوار کامیابی کی آس لگائے بیٹھے ہیں اور سوچ رہے ہیں کہ ایک بار جیت جائیں تو باقی عمر چین سے گزرے گی۔اوپر سے غضب یہ کہ ملک کو چلانے والوں کے کاسہ سر میں یہ ذرا سی بات نہیں سماتی کہ جسے انگریزی میں پارلیمنٹ کہتے ہیں اس کو ہماری طرف مجلس قانون ساز کہا جانا چاہئے۔ یعنی ملک کا ایسا باشعور اور با صلاحیت ادارہ جو ہر روز کے بدلتے ہوئے حالات کے پیش نظر قانون سازی کرے ،گلی کوچوں کی نالیاں اور گٹر نہ صاف کرے۔پڑھے لکھے لوگ ہوں، اپنے فرائض سے خوب اچھی طرح واقف ہوں،نہایت با شعور ہوں اور وہ شے جس کو جہاں بانی کہتے ہوں اس کا تجربہ یا شعور رکھتے ہوں۔ ملک میں ایک اصطلاح چلی ہے جس کا ترجمہ ہوگا، قابل چناؤ۔ کچھ وضع قطع سے ، کچھ رکھ رکھاؤ سے ، کچھ علم اور آگہی سے نہ صر ف صورت شکل سے بلکہ حلئے سے بھی اتنے اہم مقام کے اہل نظر آتے ہوں۔ اس کے بر عکس چند ایک کو چھوڑ کر جیسی جیسی صورتیں نظر آتی ہیں، وہی جاگیرداروں، وڈیروں، سرداروں، پیروں اور نمبرداروں کی شکلیں ، دکھ ہوتا ہے کہ یہ رئیس زادے اور نازوں کے پلے شتر غمزے دکھانے والے شاہزادے ملک کا نظام کیا خاک چلائیں گے۔ اس میں شک نہیں کہ ملک میں چند ایک پارلی مینٹرین ایسے بھی ہیں کہ جن کو ہم یہاں سے سلام کریں لیکن کتنے ہی ایسے ہیں کہ نہ ہوتے تو وطن کی حق میں کیا ہی اچھا ہوتا۔
ہم جو برطانیہ میں رہتے ہیں اور کبھی لندن کے ایوان پارلیمان کے سامنے سے گزرنا ہوتا ہے تو بارہا ارکان وہیں آتے جاتے ،لوگوں سے ملتے جلتے یا اپنے ڈرائیوروں کا انتظار کرتے نظر آتے ہیں۔ایک بار تو وزیر اعظم کو کار دستیاب نہ تھی تو بائیسکل پر بیٹھ کر ایوان پارلیمان آگئے تھے۔ یہ سارے کے سارے ٹیلی وژن پر کثرت سے نظر آتے ہیں اور انہیں پہچاننا دشوار نہیں۔یہ دیکھنے میں قانون ساز نظر آتے ہیں۔ ٹی وی پر ان کی تقریریں ، ان کی دلیلیں اور استدلا ل سن کی جی خوش ہوتا ہے۔ ایسی ہی تقریروں نے بارہا قوموں کی رائے بدل دی اور پھر قوموں نے اپنا نظام بدل دیا۔ تاریخ میں ایسی تقریریں محفوظ ہیں جنہوں نے قوموں کی تقدیریں بدل دیں۔ کوئی اچھا مانے یا برا، ایک بات کہوں گا کہ کبھی اچھے زمانوں میں مشرقی پاکستان ہمارا تھا، قومی اسمبلی کراچی میں تھی ، ان دنوں پارلیمان میں ایسے ایسے مباحثے ہوتے تھے کہ گھروں میں اور چائے خانوں میں عرصے تک ان کے تذکرے ہوتے تھے ۔ ان ہی دنوں وہ شعر پڑھا گیا تھا جس میں ہر شاخ پہ الّو کے بیٹھنے کا ذکر تھا اور گلستاں کے انجام کی فکر لاحق تھی۔ بلاشبہ ان دنوں گرما گرمی بھی ہوتی تھی او رکرسیاں بھی چل جاتی تھیں لیکن ارکان کی اکثریت قانون سازی کے نظام سے واقف تھی اور جانتی تھی کہ ان کے فرائض میں کیا شامل ہے اور کیا نہیں۔
آج جو خدا جانے کیسی کیسی چالیں چل کر پارلیمان میں جا بیٹھتے ہیں اور پھر سوائے ٹی اے ڈی ا ے وصول کرنے اور ترقیاتی فنڈ کی خاطر حکومت کی چاپلوسی کرنے کے انہیں دوسرا کوئی کام نہیں آتا۔ کم سے کم دیکھنے ہی میںاسمارٹ ہوں اور اس مقام کے اہل نظر آئیں۔لیکن اس کے برعکس یوں ہے کہ یہ کہیں کے گدّی نشین یا پہنچے ہوئے بزرگ ہوں گے اور حلئے سے ہی لگیں گے کہ کسی مرید پر تھپڑوں کی بارش کرکے آئے ہیں۔ ایسے بزرگوں کو کہیں ان کے ووٹروں نے آڑے ہاتھوں لیا تو ان کو ہم نے ووٹروں سے یہ کہتے سنا ہے کہ اس ذرا سی پرچی (بیلٹ پیپر) پر اتراتے ہو؟غنیمت ہے اس کے بعد یہ نہیں کہا کہ تمہیں اور تمہارے بال بچوں کو کولھو میں پیل دیں گے۔شکر ہے ’ووٹر کوعزّت دو‘کے نعرے نے کچھ اثر تو دکھایا۔
جو کہنے کی بات ہے وہ رہی جاتی ہے۔ جس جمہوریت کے پاکستان میں ڈنکے بجا کرتے ہیں، بعض لوگوں کی اطلا ع کے لئے عرض ہے کہ اس میں پارلیمان کے ارکان قانون سازی کرتے ہیں۔ ان سے نیچے پورے ملک کے گوشے گوشے میں بلدیاتی ادارے ہوتے ہیں،انہیں آپ کوئی بھی نام دے دیں۔ کونسل، یونین کونسل، ضلع کونسل یا میونسپل کارپوریشن۔ گلی کوچوں کی خبر گیری کرنا ان کا کام ہوتا ہے۔ میں جس سرزمین پر آباد ہوں، یہاں سڑکیں، نالیاں، پانی، نکاسی، پارک ، کھیل کود، پولیس، سڑکوں کی روشنی، بوڑھوں کی دیکھ بھال، یہاں تک کہ علاقے کے قبرستانوں کی نگہداشت صرف اور صرف ان بلدیاتی اداروں کی ذمے داری ہوتی ہے۔ترقیاتی فنڈ ادھر ادھر کے اٹھائی گیروں کو نہیں،ان اداروں کو ملتے ہیں، یہ اپنے مقامی ٹیکس لگاتے اور وصول کرتے ہیں۔ان کے الگ الیکشن ہوتے ہیں، ان میں بھی پارٹیاںکھڑی ہوتی ہیں، ان کی بھی انتخابی مہم چلتی ہے اور ان ہی کے راستے مستقبل کے ارکان پارلیمان وجود میں آتے ہیں۔یہ سب کہتے ہوئے مجھے احساس ہے کہ یہ بڑی ہی بنیادی باتیں ہیں جو نئی نہیں لیکن سوچتا ہوں کہ اگر کان میں ڈال دی جائیں تو کسی کا کچھ بھی نہیں بگڑتا۔ یا بگڑتا ہے؟
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین