سکھر(چوہدری محمد اشاد بیورو چیف) عام انتخابات 2018کا وقت جیسے جیسے قریب آتا جارہا ہے انتخابی گہماگہمی اور سرگرمیاں بھی تیز ہوتی جارہی ہیں تاہم 2018کے انتخابات میں ان کے امیدواروں کو ووٹرز کے سوالات کا بھی سامنا کرنا پڑرہا ہے، یہ پہلا موقع ہے کہ ملک کے مختلف علاقوں سے ووٹرز اور امیدواروں کے درمیان ترقیاتی منصوبوں، صحت، تعلیم، بجلی، گیس، پانی سمیت بنیادی سہولیات کے حوالے سے تبادلہ خیال بھی کیا جارہا ہے اور کہیں کہیں تو ووٹرز امیدواروں سے یہ پوچھ رہے ہیںکہ آپ اپنے دور حکومت میں کیا کیا ہے۔ اس صورتحال سے ان جماعتوں کے امیدوار زیادہ مشکلات کا شکار دکھائی دیتے ہیں جو اقتدار میں ہونے کے باوجود اپنے علاقوں میں خاطر خواہ ترقیاتی کام یا عوام کے مسائل حل نہیں کرا سکے اب وہ عوام کو مطمئن کرنے کی کوشش کررہے ہیں اور عوام سے بڑے بڑے وعدے کررہے ہیں کہ اقتدار میں آکر آپ کے مسائل کو ترجیحی بنیادوں پر حل کریں گے، انتخابات میں تمام سیاسی جماعتیں اس فکر میںہیں کہ اپنی خوبیوں کو اجاگر کریں اور ان کی خامیوں پر پردہ پڑا رہے۔ پیپلزپارٹی کو 2018کے انتخابات میں 2013سے بھی زیادہ مشکلات کا سامنا دیکھنے میں آرہا ہے ۔ تحریک انصاف ، مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی شامل کے رہنمائوں نے تو جہاز اور ہیلی کاپٹروں کا بھی انتظام کرلیا ہے تاکہ ایک دن میں مختلف مقامات پر عوامی اجتماعات سے خطاب کیا جا سکے۔مذہبی جماعتوں کا اتحاد متحدہ مجلس عمل بھی سیاسی جماعتوں کے سامنے انتخابات میں بھرپور حصہ لے رہا ہے ، سندھ میں پیپلزپارٹی کے لئے ایم ایم اے سے زیادہ مشکلات گرینڈ ڈیمو کریٹک الائنس (جی ڈی اے )پیدا کر سکتی ہے۔