• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ایک معما ہے، سمجھنے کا نہ سمجھانے کا

یہ واقعہ 16؍دسمبر 2016ء کو میرے ساتھ پیش آیا، اور ذہن پر جیسے نقش ہوگیا ۔میری بیٹی، داماد اور نواسا عمرے کی سعادت کے لیے سعودی عرب جارہے تھے، اس سلسلے میں ان کے پاسپورٹ، ویزے اور ٹکٹ کے معاملات میں نے سنبھال لیے تھے۔ ساری کارروائیاں مکمل ہوگئیں، تو تمام کاغذات اپنے بیگ میں احتیاط سے رکھ کر آفس چلا گیا۔ میں زمان ٹائون، کورنگی کے ایک اسکول میں بہ حیثیت ایڈمنسٹریٹر ملازمت کرتا ہوں۔ آفس پہنچ کر فون پر اپنے داماد اور بیٹی کو یہ خوش خبری سنادی کہ ’’تمام کاغذی کارروائی پوری ہوگئی ہے، تم لوگ بھی اپنی تیاری مکمل کرلو۔ چوں کہ روانگی میں آٹھ روز ہیں، لہٰذا کسی روز شام کوپاسپورٹ سمیت تمام کاغذات میں خود پہنچادوں گا۔‘‘ وہ مطمئن ہوکر سفر کی تیاریوں میں مصروف ہوگئے۔

میرا بیٹا ان دنوں بیمار تھا۔ اس کا ہل پارک پر واقع جنرل اسپتال سے علاج چل رہا تھا۔ اگلے روز ڈاکٹر عزیزعبداللہ سے اس سلسلے میں اپوائنٹمینٹ لیا ہوا تھا۔ میں نے سوچا بیٹے کاچیک اپ کروانے کے بعد واپسی پر بیٹی کے گھر اس کے عمرے کے ڈاکومینٹس دیتا ہوا گھر لوٹ آئوں گا۔ چناں چہ وقتِ مقررہ پربیٹے کو اس کے آفس سے پِک کیا۔ چلنے سے پہلے کار کی پچھلی سیٹ پر تمام ڈاکومینٹس ایک بیگ میں ڈال کر رکھ لیے۔ تقریباً ساڑھے پانچ بجے اسپتال پہنچے۔ راستے میں عصر کی اذان ہوچکی تھی، میں نے گاڑی پارک کرکے بیٹے سے کہا کہ’’تم ڈاکٹر کے کمرے میں چلے جائو۔ میں نماز ادا کر کے وہیں آجائوں گا۔‘‘ واپس آیا، تو بیٹا ویٹنگ روم میں بیٹھا تھا، پانچ منٹ بعد اس کی باری آگئی۔ ڈاکٹر نے رپورٹس وغیرہ دیکھ کر اطمینان کا اظہار کیا اور دوائیں بدل کر نئی تجویز کردیں۔ مرض تقریباً ختم ہوچکا تھا۔ یہ جان کر ہم خوشی خوشی جب گاڑی میں بیٹھنے لگے، تو اچانک میری نظر پچھلی سیٹ پر گئی اور ساری خوشی کافور ہوگئی، وہاں سے بیگ غائب تھا۔ میں نے دروازے کے لاک پر نظر ڈالی، تو معاملہ سمجھ میں آگیا۔ 

بائیں طرف کاشیشہ ٹوٹا ہوا تھا۔ کسی نے شیشہ توڑ کر میرا بیگ نکال لیا تھا۔اس اچانک افتاد پر میرا دماغ سن ہوگیا۔ کچھ نہیں سوجھ رہا تھا کہ کیا کروں۔ فوری طور پر اپنے ایک رشتے دار کو فون کیا،تو اس نے مشورہ دیا کہ پہلے فیروزآباد تھانے میں جا کر رپورٹ درج کروائیں۔ میں اپنے بیٹے سمیت تھانے گیا، وہاں کچّی ایف آئی آر درج کروائی۔ اس ساری کارروائی میں رات کے ساڑھے دس بج گئے۔ گھر واپس آئے، تو سر، درد سے پھٹا جا رہا تھا۔ مجھے بیگ میں رکھی رقم کی کوئی پروا نہیں تھی،میرے لیے بیٹی کے عمرے کے کاغذات سب سے زیادہ قیمتی تھے۔ بیٹے نے مشورہ دیا کہ فی الوقت ہم بیگ ملنے تک انہیں چوری کی اطلاع نہ دیں، وہ پریشان ہوجائیں گے۔ مجھے ساری رات پریشانی میں نیند نہیں آئی۔ کروٹیں بدلتا رہا۔ 

علی الصباح ساڑھے پانچ بجے نمازِ فجر کے بعد اللہ تعالیٰ سے گڑگڑا کر بیگ کی بازیابی کی دعائیں مانگیں، کسی طرح بھی دل کو قرار نہیں آ رہا تھا، پھر بِنا کچھ سوچے سمجھے گاڑی اسٹارٹ کی اور ہل پارک پہنچ گیا، جہاں گزشتہ روز اسپتال والی سڑک پر گاڑی پارک کی تھی، اس کے بالمقابل سڑک کی دوسری طرف ایک ہوٹل تھا، وہاں کچھ لوگ بیٹھے چائے پی رہے تھے۔ میں بھی وہیں چلا گیا۔ ایک چائے کا آرڈر دیتے ہوئے میں نے ہوٹل کے مالک سے کہا ’’کل میری گاڑی سے کسی نے شیشہ توڑ کر کالے رنگ کا بیگ اڑا لیا ہے، کیا آپ نے کسی کو یہ حرکت کرتے دیکھا؟ اس میں میرے عمرے کے کاغذات تھے۔‘‘وہ برہم ہو کر بولا ’’یہاں صبح سے شام تک سیکڑوں گاڑیاں پارک ہوتی ہیں، ہم سب پر نظر رکھیں، تو اپنا دھندا کیسے چلائیں، ہم کوئی چوکیدار ہیں؟‘‘

میں شرمندہ سا ہوکر جانے لگا، معاًایک ملنگ سے آدمی پر میری نظر پڑی، جو زمین پر بیٹھا چائے پی رہا تھا۔ وہ میری باتیں سن چکا تھا۔ وہ اپنی چائے ختم کر کے تیزی سے اٹھا اور یہ کہتا ہوا نکل گیا ’’نہ جانے کیوں، تجھے لوگوں کو تنگ کرنے میں مزہ آتا ہے۔‘‘ پتا نہیں، وہ مجھ سے مخاطب تھا یا خودکلامی کررہا تھا۔ میں وہاں سے نامراد واپس آگیا۔ میرا ارادہ تھا کہ بیٹی اور دامادکے گھر جاکر انہیں یہ بری خبر سنا ہی دوں، مگر پتا نہیں کیوں ہمّت نہیں پڑ رہی تھی۔ باہر نکلنے لگا، تو ایک بیرے نے بتایا کہ ’’یہ شخص جس سے آپ بات کررہے تھے، یہ صبح کی شفٹ کا انچارج ہے اورکافی اکھّڑ مزاج آدمی ہے، 4بجے اس کی شفٹ بدل جائے گی اور شام کو نیا انچارج آ جائے گا، اس سے دریافت کرلیجیے گا۔‘‘بیرے کی بات سن کر میں نے بیٹی کے گھر جانے کا ارادہ ترک کردیا اورشام ساڑھے پانچ بجے پھر اسی ہوٹل جا پہنچا۔ نئے انچارج کو نئے سرے سے پھر وہی کہانی سنانی پڑی۔ کاغذات کی اہمیت بیان کی کہ وہ نہیں ملے، تو میری بیٹی اور داماد عمرے کی سعادت سے محروم رہ جائیں گے۔ 

نئے انچارج نے ہم دردی سے میری پوری بات سنی اور کہنے لگا ’’میں پرسوں شام گاہکوں میں اتنا مصروف تھا کہ اِدھر ادھر دیکھنے کی بھی فرصت نہیں ملی، مگر اکثر ایسا دیکھا اور سنا ہے کہ چور اچکے اس قسم کی واردات کے بعد رقم نکال کر بیگ اِدھر ادھر جھاڑیوں میں پھینک جاتے ہیں۔ ادھر کچھ لڑکے کرکٹ کھیلا کرتے ہیں، ان سے جا کر پوچھ لیں، شاید وہ کچھ بتا سکیں۔‘‘ میں چلنے لگا، تو کائونٹر کے پاس اسی ملنگ پر نگاہ پڑی، جو زمین پر بیٹھا چائے پیتے ہوئے بڑے انہماک سے میری روداد سن رہا تھا۔ مجھے دیکھ کر وہ اٹھ کھڑا ہوا اورچائے ادھوری چھوڑ کر کل کی طرح خودکلامی کرتا ہوا مجھ سے پہلے باہر نکل گیا۔ جاتے جاتے اس نے کل والا جملہ پھر ادا کیا تھا کہ ’’نہ جانے کیوں تجھے لوگوں کو تنگ کرنے میں مزہ آتا ہے۔‘‘

مجھے حیرانی سی ہوئی کہ یہ ملنگ کس سے مخاطب ہے اور چائے ادھوری چھوڑ کر کیوں عجلت میں اٹھ کر چلا گیا۔ میں نے انچارج سے اشارے سے پوچھا ’’یہ کون ہے؟‘‘ اس نے جواب دیا ’’اللہ کا کوئی نیک بندہ ہے۔ کچھ عرصےسے روزانہ صبح، شام چائے پینے آتا ہے۔ پیسے پورے دیتا ہے، مگر چائے اسی جگہ زمین پر بیٹھ کر پیتا ہے، مجذوب لگتا ہے، خود ہی اپنے آپ سے باتیں کرتا رہتا ہے۔‘‘ میں نے انچارج کو ایک چِٹ پر اپنا موبائل نمبر لکھ کر دیا کہ کوئی خبر ملے، تو مطلع کردے۔ پھروہاں سے اس جگہ پہنچا، جہاں لڑکے کرکٹ کھیل رہے تھے۔ 

ان سے پوچھ گچھ کی، مگرکوئی کام یابی نہیں ملی۔ میری پریشانی بڑھتی ہی جارہی تھی کہ بیٹی اور داماد کو یہ خبر کیسے سنائوں؟ تھانے میں میرے بیٹے نے جا کر پتا کیا تھا، وہ اس کیس میں کوئی دل چسپی ہی نہیں لے رہے تھے۔ تین روز گزر چکے تھے اور ان کے جانے میں محض چند روز باقی رہ گئے تھے۔ دل میں آیا اب بیٹی کے گھر جا کر بتا ہی دینا چاہیے۔ یہ سوچ کر گھر سے نکلنے ہی لگا تھا کہ پونے گیارہ بجے میرےموبائل فون کی گھنٹی بجی۔ دیکھا، تو اسی ہوٹل کے شام والے انچارج کا فون تھا۔ اس نے اپنے تعارف کے بعد بتایا کہ’’ آج صبح والے انچارج کی طبیعت خراب ہونے کی وجہ سے میں اس کی جگہ صبح ہوٹل آیا، تو ہوٹل کے دروازے پر ایک کالا بیگ پڑا دیکھا،جسے اٹھا کر اندر لے آیا۔ شاید یہ آپ ہی کا بیگ ہو، آپ فوراً پہنچ کر بیگ شناخت کرلیں۔‘‘ یہ خبر میرے تنِ مردہ میں جان ڈال گئی۔ میں گاڑی بھگاتا چشمِ زدن میں وہاں پہنچ گیا۔ میرا کالا بیگ کائونٹر ہی پر رکھا تھا۔

اسے بے تابی سے کھولا، چیک کیا، تمام کاغذات اور رقم اسی طرح رکھی تھی۔ایسا لگتا تھا جیسے کسی نے اسے چھیڑا تک نہیں۔ مجھے تو یقین ہی نہیں آ رہا تھا کہ یہ وہی بیگ ہے۔ بھلا چرائی گئی یا گم شدہ چیزیں اس طرح کبھی ملتی ہیں؟ زمین پر بیٹھا مجذوب چائے پیتے ہوئے اسی طرح خودکلامی کررہا تھا۔ اس کا یہ جملہ کہ ’’نہ جانے کیوں تجھے لوگوں کو تنگ کرنے میں مزہ آتا ہے۔‘‘ مجھے کچھ کچھ سمجھ میں آگیا تھا۔ میرا وہ بیگ تین روز بعد جوں کا توں ہوٹل کے دروازے پر پہنچ گیا تھا۔ جو کچھ میں سمجھا تھا، وہ مبہم اور محض وہم بھی ہوسکتا ہے، مگر اتنا یقین ضرور ہے کہ اس بیگ کی بازیابی میں اس مجذوب کا کچھ نہ کچھ ہاتھ ضرور تھا۔

(نجیب اقبال، کراچی)

تازہ ترین
تازہ ترین