• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بے خانماں و برباد تارکینِ وطن کا کوئی پُرسانِ حال نہیں

بے خانماں و برباد تارکینِ وطن کا کوئی پُرسانِ حال نہیں

وہ زمانہ کتنا دِل فریب تھا کہ جب ابنِ بطوطہ نے مراکش سے نکل کر 3برِاعظموں کے20ممالک کی سیر کی تھی۔ جہاں جی چاہا، غیر معیّنہ مدّت تک ڈیرا ڈال لیا اور ملازمت بھی کی۔ پھر وطن واپس آ کر سفرنامہ لکھا اور اَمر ہو گئے۔ اسی طرح مارکو پولو وینس سے نکلے اورشہنشاہِ چین کے دربار تک جا پہنچے۔ انہوں نہ صرف وہاں قیام کیا، بلکہ غیر مُلکی ہونے کے باوجود وزیر ، سفیر بھی بنے اور خوب دولت بھی سمیٹی۔ پھر گھر واپس آئے اور دُنیا کو چین سے متعارف کروا کر حیرت زدہ کر دیا۔ تب ممالک کی سرحدیں تو تھیں، لیکن سرحد کے اُس پار جانے پر کوئی پابندی نہیں تھی اور نہ ہی تارکینِ وطن کا کوئی تصوّر تھا۔ آج دُنیا بہ ظاہر سمٹ چُکی ہے، لیکن کہیں سرحدوں پر باڑ لگ رہی ہے، تو کہیں تارکینِ وطن سے متعلق قوانین کو سخت سے سخت تر بنایا جا رہا ہے۔ 

ماضی میں ممالک کی آبادیاں کم اور وسائل زیادہ ہوا کرتے تھے، جس کے سبب وہ تارکینِ وطن کو قبول کرنے میں کوئی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرتے تھے اور ان کی صورت انہیں افرادی قوّت بھی مل جایا کرتی تھی، لیکن اب ممالک کی آبادیاں اتنی بڑھ چُکی ہیں کہ انہیں مزید افرادی قوّت کی ضرورت نہیں رہی اور وہ بہ مشکل تمام اپنے عوام کو روزگار سمیت دوسری سہولتیں فراہم کر پا رہے ہیں۔ پھر تواتر سے آنے والے اقتصادی بُحرانوں، کساد بازاری، علاقائی جنگوں اور خانہ جنگیوں نے صورتِ حال کو بالکل بدل کر رکھ دیا ہے اور ہر جنگ لاکھوں نہیں بلکہ کروڑوں افراد کو بے گھر کرنے کا سبب بن رہی ہے۔ رواں صدی میں شام میں جاری خانہ جنگی کے نتیجے میں تارکینِ وطن کا سب سے بڑا بُحران سامنے آیا اور اقوامِ متحدہ سمیت دوسرے عالمی ادارے اس کے سبب پیدا ہونے والی پیچیدگیوں کے سامنے بے بس نظر آتے ہیں۔ پھر ان تارکینِ وطن کو امداد کی فراہمی بھی ایک اہم مسئلہ ہے، کیوں کہ کوئی امیر سے امیر مُلک بھی ایک حد تک ہی فراخ دلی کا مظاہرہ کرتا ہے، ورنہ اس کی اپنی معیشت دبائو کا شکار ہو جاتی ہے۔ اس موقعے پر ماہرین کا یہ سوال بجا ہے کہ کیا تارکینِ وطن کو امداد کی فراہمی، انہیں کیمپوں میں رکھنا اور پناہ دینا ہی مسئلے کا حل ہے؟

خیال رہے کہ تارکینِ وطن کی دو اقسام ہیں۔ قانونی تارکینِ وطن اور غیر قانونی تارکینِ وطن۔ اس وقت قانونی تارکینِ وطن کی ایک بڑی تعداد ترقّی یافتہ ممالک میں مقیم ہے۔ انہیں اپنی صلاحیتوں کی بنیاد پر ملازمت کی پیش کش کی جاتی ہے اور پھر بہت سے ممالک میں انہیں باقاعدہ شہریت بھی مل جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس وقت خاندان کے خاندان ایک غیر مُلک میں اطمینان بخش زندگی گزار رہے ہیں۔ آج 17لاکھ پاکستانی تارکینِ وطن امریکا میں، جب کہ 12لاکھ برطانیہ میں آسودہ زندگی بسر کر رہے ہیں۔ گرچہ پاکستان میں امریکی اور برطانوی حکومتوں کے لیے خاصی نفرت پائی جاتی ہے، لیکن ان لاکھوں پاکستانی تارکینِ وطن پر یہ نفرت انگیز جذبات اثر انداز نہیں ہوتے۔ 

اس کی سب سے بڑی مثال نائن الیون کا واقعہ ہے، جس کے بعد مذاہب اور تہذیبوں کے درمیان تصادم کا ایک غلغلہ ہوا تھا، لیکن شاید ہی کوئی پاکستانی خاندان اس بات کو جواز بنا کر امریکا سے پاکستان واپس آیا ہو۔ اسی طرح امریکا اور یورپ میں مقیم پاکستانی تارکینِ وطن اور مقامی باشندوں کے درمیان مسئلہ کشمیر اور مسئلہ فلسطین سمیت دیگر معاملات پر اختلافات پائے جاتے ہیں، لیکن آج تک شاید ہی کوئی پاکستانی جذبات سے مغلوب ہو کر اپنے آبائی وطن واپس آیا ہو، بلکہ ان سب کو دُہری شہریت قبول ہے۔ یعنی وہ دو کشتیوں کے سوار ہیں۔ پاکستان کے علاوہ دیگر ممالک سے تعلق رکھنے والے تارکینِ وطن کی بھی یہی صورتِ حال ہے اور یہ بات دعوتِ فکر دیتی ہے کہ جن ممالک کے درمیان شدید نفرت پائی جاتی ہے، ان کے باشندے کسی دوسرے مُلک میں مل جل کر اطمینان بخش زندگی گزار رہے ہیں اور ان میں ہم آہنگی بھی پائی جاتی ہے، تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ قانونی تارکینِ وطن کسی قسم کی پریشانی سے دو چار نہیں۔

تاہم، مسئلہ غیر قانونی تارکینِ وطن کا ہے۔ ان میں سب سے بڑی تعداد ان مہاجرین کی شامل ہے، جو مختلف وجوہ کی بنا پر بے گھر ہو کر اپنا آبائی وطن چھوڑنے پر مجبور ہوئے۔ عموماً اس کا سبب جنگ اور خانہ جنگی ہوتی ہے۔ مثلاً 1979ء میں جب سوویت یونین نے افغانستان پر حملہ کیا اور مجاہدین کی جانب سے مزاحمت کے نتیجے میں جنگ شروع ہوئی، تو سب سے پہلے افغان عوام کے تحفّظ کا معاملہ سامنے آیا۔ افغانستان میں جنگ چِھڑنے کے بعد لاکھوں افغان مہاجرین نے پاکستان کا رُخ کر لیا۔ سرحدیں مٹ گئیں ، قافلے کے قافلے پاکستان میں داخل ہونے لگے اور افغان مہاجرین کے شہر وجود میں آنے لگے، جنہیں مہاجر بستیاں قرار دیا گیا۔ گرچہ افغانستان کی سرحد ایران، چین اور وسطی ایشیا کے کئی ممالک سے بھی ملتی ہے اور چین اور ایران، پاکستان سے زیادہ خوش حال مُلک تھے، لیکن افغان مہاجرین نے پاکستان میں آباد ہونے کو ترجیح دی اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے پاکستان آنے والے افغان مہاجرین کی تعداد 70لاکھ تک جا پہنچی۔ 

بے خانماں و برباد تارکینِ وطن کا کوئی پُرسانِ حال نہیں

پاکستانی عوام نے افغان مہاجرین کو مہمان اور بھائی قرار دیتے ہوئے اپنے گھروں کے دروازے ان کے لیے کھول دیے۔ کابل، قندھار، غزنی اور ہرات سمیت افغانستان کے دوسرے حصّوں سے ہجرت کر کے آنے والے افغان باشندے کراچی میں سہراب گوٹھ اور علی گڑھ کالونی کے علاوہ مُلک کے دوسرے شہروں میں آباد ہو گئے اور پھر کلاشنکوف اور ہیروئن کلچر اور دہشت گردی جیسے گمبھیر مسائل نے اس مُلک کو اپنی لپیٹ میں لے لیا، جس سے یہ آج تک نجات حاصل نہیں کر سکا۔ اس وقت بھی پاکستان میں 30لاکھ افغان مہاجرین مقیم ہیں۔ تاہم، اب پاکستان نے ڈیورینڈ لائن پر باڑ لگانا شروع کر دی ہے، تاکہ کوئی افغان شہری غیر قانونی طور پر مُلک میں داخل نہ ہو سکے۔

دوسری جانب گزشتہ 8برس سے شام میں جاری خانہ جنگی کے نتیجے میں اب تک ایک کروڑ 20لاکھ افراد بے گھر ہو چُکے ہیں۔ ان میں سے کچھ سرحدوں اور اقوامِ متحدہ کے کیمپوں میں موسم کی سختیاں جھیل رہے ہیں، تو ایک بڑی تعداد اُردن، لبنان اور تُرکی میں آباد ہو چُکی ہے۔ اُردن اور لبنان کے بعض شہروں میں توشامی مہاجرین کی آبادی مقامی باشندوں سے بھی بڑھ چُکی ہے۔ مہاجرین کی آمد کے سبب پیدا ہونے والے سماجی مسائل میزبان ممالک کے لیے ناقابلِ برداشت ہوتے جا رہے ہیں اور اب یورپ بھی ان کی زد میں آ چُکا ہے۔ کم و بیش 10لاکھ شامی مہاجرین فشنگ ٹرالرز میں لَد کر بحرِ روم کے راستے یورپی ساحلوں تک پہنچنے کے لیے کوشاں ہیں اور اس کوشش میں اب تک ہزاروں غرقِ آب ہو چُکے ہیں۔ 

نیز، شامی تارکینِ وطن کی آباد کاری نے یورپی یونین کے مستقبل کو بھی خطرات سے دو چار کر دیا ہے کہ یورپی قوم پرست شامی تارکینِ وطن کے خلاف کُھل کر اپنی نفرت کا اظہار کر رہے ہیں۔ اس وقت اٹلی میں قوم پرست برسرِ اقتدار ہیں، جب کہ جرمنی میں اینگلا مِرکل کی اکثریت اس لہر کی بھینٹ چڑھ گئی۔ فرانس میں بھی قوم پرست طاقت وَر ہیں، جب کہ برطانیہ میں 2011ء سے غیر یورپی تارکینِ وطن کے داخلے پر پابندی عاید ہے، حالاں کہ برطانوی میڈیا، میکسیکن تارکینِ وطن پر پابندی عاید کرنے کے سبب امریکی صدر، ڈونلڈ ٹرمپ پر سخت تنقید کر کے خود کو انسانی حقوق کا چیمپئن ثابت کرتا رہا،مگر رواں صدی میں برطانیہ نے یورپی تارکینِ وطن کے خلاف تعصّب کی سب سے بڑی مثال قائم کی اور ان سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لیے یورپی یونین سے علیحدگی تک کا فیصلہ کر ڈالا۔ یاد رہے، برطانیہ کی یورپی یونین سے علیحدگی کا عمل مکمل ہونے میں ایک سال باقی رہ گیا ہے۔ اس کے بعد برطانیہ میں مقیم 30لاکھ یورپی باشندوں کو اپنے ممالک میں واپس جانا پڑے گا۔

جون کے اختتام پر تارکینِ وطن کے سلسلے میں مشترکہ لائحہ عمل تیار کرنے کے لیے یورپی یونین نے ایک اجلاس منعقد کیا ، جب کہ اس سے ایک ہفتہ قبل جرمنی کی ’’چیریٹی‘‘ نامی کشتی کو، جس میں 650غیر قانونی تارکینِ وطن سوار تھے، اٹلی کی نئی قوم پرست حکومت نے اپنے ساحل پر لنگر انداز ہونے سے روک دیا تھا۔ پھر مالٹا کی حکومت نے بھی یہی عمل دُہرایا اور یہ مہاجرین خاصی تگ و دو کے بعد اسپین میں عارضی طور پر پناہ لے سکے۔ اس واقعے کے فوراًبعد ایک کشتی میں سوار کم و بیش 400تارکینِ وطن کے ساتھ بھی یہی سلوک ہوا۔ اس اجلاس میں بعض ابتدائی معاملات طے پائے۔ تاہم، جرمن چانسلر کا، جو تارکینِ وطن کی سب سے بڑی حامی ہیں، کہنا ہے کہ اس معاملے میں خاصی پیچیدگیاں پیدا ہو چُکی ہیں۔ 

یاد رہے کہ جرمن وزیرِ داخلہ تارکینِ وطن کی مخالفت میں حکومت سے علیحدگی کی دھمکی دے چُکے ہیں، جب کہ فرانس نے مہاجرین کی رجسٹریشن کے مراکز بنانے تک سے انکار کر دیا ہے۔ یورپی یونین کے صدر اور دوسرے رہنمائوں کا ماننا ہے کہ تارکینِ وطن یورپی اتحاد کے لیے بہت بڑی آزمائش بن چُکے ہیں۔ یورپی یونین کے رُکن ممالک اور شہریوں کی جانب سے تارکینِ وطن کی مخالفت میں آنے والی شدّت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ یورپ میں مہاجرین کی تعداد 2015ء کے مقابلے میں 96فی صد کم ہو چُکی ہے۔ یعنی یورپ کے انسانی ہم دردی اور انسانی حقوق کی پاس داری کے تمام دعوے غلط ثابت ہو چُکے ہیں، جب کہ یورپی میڈیا دُنیا کی توجّہ ہٹانے کے لیے کبھی ٹرمپ تو کبھی اردوان اور کبھی اسلامی ممالک کو خانہ جنگی کا ذمّے دار ٹھہرانے کی کوششوں میں مصروف ہے، حالاں کہ امریکا میں شامی تارکینِ وطن کی تعداد نہ ہونے کے برابر ہے اور تُرکی سمیت دوسرے اسلامی ممالک پہلے ہی لاکھوں پناہ گزینوں کو اپنے ہاں پناہ دے چُکے ہیں۔ 

بے خانماں و برباد تارکینِ وطن کا کوئی پُرسانِ حال نہیں

اس موقعے پر مشرقِ وسطیٰ کی صورتِ حال پر گہری نظر رکھنے والے ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ خطّہ یورپ کے پیدا کردہ مسائل کے نتائج بھگت رہا ہے، لیکن یورپی ممالک نے اس سے نظریں پھیر لی ہیں۔ البتہ وہ دُنیا کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے لیے کبھی کبھار مسئلہ فلسطین اور مقبوضہ بیت المقدس سے متعلق بیانات داغ کر اُمتِ مسلمہ اور عربوں کی ہم دردیاں سمیٹنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اب اندازہ ہوتا ہے کہ ان یورپی ممالک ہی نے اوباما پر دبائو ڈال کر جلد بازی میں ایران سے جوہری معاہدہ کروایا اور اس موقعے پر عربوں کو بھی اعتماد میں نہیں لیا، جب کہ اس سے قبل یورپ نے شام و یمن کا تنازع حل کرنے میں کوئی دِل چسپی نہیں لی اور سارا ملبہ امریکا پر ڈال دیا، حالاں کہ امریکا کے مقابلے میں یورپ مشرقِ وسطیٰ کے زیادہ قریب ہے۔ 

پھر یورپ ہی نے شام میں خانہ جنگی ختم کروانے کی بہ جائے رُوس کو کُھلی چُھٹی دے دی، جب کہ نیوکلیئر ڈِیل کے بعد ایران سے اربوں ڈالرز کے تجارتی معاہدے کیے، تاکہ پابندیاں ہٹنے کے بعد ایران کو ملنے والی رقم میں سے اپنا حصّہ وصول کرسکے۔ اسی طرح جب 2015ء میں تارکینِ وطن کا بُحران شدّت اختیار کرنے لگا، تو یورپ نے عدم دِل چسپی کا مظاہرہ کرتے ہوئے عارضی اقدامات کے ذریعے اُسے حل کروانے کی کوشش کی، حالاں کہ اس موقعے پر شام میں جاری خوں ریزی اور افراتفری ختم کروانے کی اشد ضرورت تھی۔ یورپی ممالک کی غیر سنجیدگی کے سبب ہی’’ جنیوا ون‘‘ اور’’ جنیوا ٹو‘‘ مذاکرات کام یاب نہ ہو سکے اور اقوامِ متحدہ کا شام میں قیامِ امن سے متعلق روڈ میپ بھی سلامتی کائونسل کی میز پر دھرا رہ گیا اور آج یورپی ممالک ساری دُنیا کو ،تارکینِ وطن کے بُحران میں مبتلا کر کے خود قوم پرستی کی چادر اوڑھ کر بچنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

غیر قانونی تارکینِ وطن میں اُن افراد کی بھی بڑی تعداد شامل ہے کہ جو روزگار کی تلاش میں ناجائز طریقوں سے دوسرے ممالک میں داخل ہوتے ہیں۔ انہیں ’’اقتصادی تارکینِ وطن‘‘ کہا جاتا ہے۔ میکسیکو سے ایسے ہی افراد بڑی تعداد میں ہر سال امریکا میں داخل ہوتے ہیں اور یہ ہر امریکی حکومت کے لیے ایک بڑا مسئلہ رہے ہیں۔ اس مسئلے کے پیشِ نظر ہی ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی انتخابی مُہم میں میکسیکو اور امریکا کی سرحد پر دیوار تعمیر کرنے کا وعدہ کیا تھا، جس پر انہیں امریکی عوام نے اپنا صدر منتخب کر لیا۔ حال ہی میں متعدد افراد اپنے بچّوں کے ساتھ میکسیکو سے غیر قانونی طور پر امریکا داخل ہوئے، تاکہ انہیں انسانی ہم دردی کی بنیادپر پناہ مل جائے۔ گرچہ ماضی میں بھی ایسا ہوتا رہا ہے، لیکن اس مرتبہ امریکی سرحدی حُکّام نے کم سِن بچّوں کو اپنے والدین سے جُدا کر کے چلڈرن ہومز بھیج دیا، جب کہ بالغان کو جیل میں ڈال دیا۔ اس واقعے پر امریکا میں موجود انسانی حقوق کی تنظیموں اور ذرایع ابلاغ نے شور مچایا، تو ٹرمپ نے ایک حُکم نامے کے ذریعے اس فیصلے کو کالعدم قرار دے دیا۔ 

اس وقت یہ معاملہ امریکی کانگریس اور سینیٹ میں ہے، جہاں تارکینِ وطن کے حوالے سے قانون سازی کی جا رہی ہے۔ خیال رہے کہ اس سے قبل ٹرمپ 7ممالک کے باشندوں کی امریکا آمد پر پابندی عاید کر چُکے ہیں، جن میں 5اسلامی ممالک شامل ہیں۔ گرچہ ناقدین کی جانب سے اسے ’’متعصّبانہ اقدام‘‘ قرار دیا گیا، لیکن امریکی سپریم کورٹ نے اس کے حق میں فیصلہ دیا۔ اس سے قطعِ نظر کہ یہ فیصلہ دُرست ہے یا غلط، یہ بات عیاں ہو چُکی ہے کہ اب مغربی ممالک تارکینِ وطن کے لیے ماضی کی طرح فراخ دلی کا مظاہرہ نہیں کر رہے۔ یہ سرد مہری صرف امریکا یا یورپ ہی تک محدود نہیں، بلکہ کینیڈا اور آسٹریلیا میں بھی تارکینِ وطن کا داخلہ خاصا دشوار ہو چُکا ہے، جب کہ چین اور رُوس میں تو تارکینِ وطن کے داخلے کاسوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔

کسی دَور میں تارکینِ وطن کے لیے خلیجی ممالک میں کافی مواقع تھے، لیکن خطّے میں پائی جانے والی افراتفری اور تیل کی قیمتوں میں کمی نے ان ممالک کی معیشت کو خاصا نقصان پہنچایا ہے اور اب غیر مُلکی باشندوں کے لیے ان کی گرم جوشی میں کمی واقع ہو رہی ہے۔ اس تشویش ناک صورتِ حال میں دُنیا کو شام اور یمن میں جاری خانہ جنگی کو امریکا، رُوس اور عرب، ایران کشمکش سے بلند ہو کر دیکھنا ہو گا، کیوں کہ یہ معاملہ کروڑوں باشندوں کی زندگی ، روزگار اور ممالک کی معیشت سے منسلک ہے۔ تارکینِ وطن کے بُحران سے نجات کے لیے شام اور یمن میں امن کا قیام ناگزیر ہے، تاکہ مہاجرین اپنے گھروں میں آباد ہو سکیں۔ انہیں پناہ گزین کے طور پر دوسرے ممالک میں بسانا مسئلے کا حل نہیں، کیوں کہ اس قسم کے تجربات کے بھیانک نتائج برآمد ہو چُکے ہیں۔

تازہ ترین