ملک کی تمام بڑی سیاسی جماعتوں کے قائدین عام انتخابات کی تیاریوں میں مصروف ہیں مگر سبھی سیاسی جماعتوں کی قیادت اور ان کے رہنمائوں کے ذہن میں شکوک وشبہات بھی موجود ہیں ۔ ماہ رواں میں ہونے والے انتخابات پر ابھی تک بہت سے سوالیہ نشانات بھی موجود ہیں۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ میں آئندہ انتخابات کو بہت زیادہ اہمیت حاصل ہے کیونکہ ان انتخابات پر بات کرتے ہوئے اعلیٰ عدلیہ ، نگران حکومت اور دیگر مجاز ادارے بارہا یقین دہانی کرا چکے ہیں کہ یہ انتخابات مکمل طور پر شفاف ہونگے اور تمام سیاسی جماعتوں کو اپنی اپنی انتخابی مہم چلانے کے بھرپور مواقع ملیں گے ۔ پاکستان مسلم لیگ ن ، پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف کے قائدین ملک کے مختلف شہروں میں عوامی رابطہ مہم جاری رکھے ہوئے ہیں مگر شکوک وشبہات کے بادل چھٹنے کا نام نہیں لے رہے۔ ملک کو درپیش مسائل کے پیش نظر ہمارے تمام سیاسی رہنمائوں کو مفاد عامہ کے تحت اپنے اپنے طور پر کچھ اہم فیصلے کرنا ہوں گے تا کہ ملک کو اس نازک ترین صورتحال سے باہر نکالا جا سکے۔ اس سلسلے میں سب سے پہلے ملک کی سب سے بڑی سیاسی جماعت پاکستان مسلم لیگ ن کے قائد میاں نواز شریف اوران کی صاحبزاد ی مریم نواز کو فیصلہ کرنا ہے کہ وہ عدالتوں میں چلنے والے کیسز اور ملنے والی سزائوں کے بعد کس طرح کی حکمت عملی اختیار کرتے ہیں ۔ انہیں فیصلہ کرنا ہے کہ وہ ’’ووٹ کو عزت دو‘‘ کے بیانیہ پر ثابت قد م رہتے ہیں یا حکمت عملی تبدیل کرتے ہوئے مصلحت پسندی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ سابق وزیراعظم میاں نواز شریف اور ان کی صاحبزادی مریم نواز کے لندن سے وطن واپسی اور جیل جانے کے اعلان سے اس بات کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اس باروہ مکمل طور پر مخالف قوتوں کے خلاف ڈٹ جانے کا ارادہ رکھتے ہیں ۔ سابق وزیراعظم میاں نواز شریف اور بالخصوص مریم نواز جارحانہ عزائم رکھتے ہیں اور اس بناء پر وہ اپنے مؤقف سے پیچھے ہٹنے کو بالکل تیار نہیں ہیں۔ تین بار وزیراعظم کے منصب پر براجمان ہونے والے میاں نواز شریف اپنے بیانیہ پر ڈٹے ہوئے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ عوامی مینڈیٹ حاصل کر کے اقتدار کے ایوان تک پہنچنے والے نمائندوں کو سپریم حیثیت حاصل ہونی چاہیے اور تمام ریاستی ادارے پارلیمان کے تابع رہنے چاہئیں ۔ہمارے ہاں یہ بات عامہے کہ بہت سے ریاستی ادارے انتخابات اور حکومت سازی کے عمل میں شریک رہتے ہیں اور ان کے فیصلوں کو کلیدی حیثیت بھی حاصل رہتی ہے۔ بقول میاں نواز شریف، وہ اسی سلسلے کو روکنا چاہتے ہیں۔میاں نواز شریف اور ان کی صاحبزادی مریم نواز 13 جولائی کو وطن واپسی پر کسی بھی طرح کی مزاحمت کے بغیر گرفتاری دینے کا اعلان کر چکے ہیں لیکن انہیں یہ فیصلہ بھی کرنا ہوگا کہ ان کا اٹھایا ہوا کوئی بھی قدم ملکی مفاد میں جانا چاہئے۔
پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری کے معاملات بھی میاں نواز شریف سے کچھ زیادہ مختلف نہیں لہٰذ ا انہیں بھی فیصلہ کرنا ہے کہ وہ ذوالفقار علی بھٹو کی پیپلز پارٹی کو زندہ کرنے کے لیے کس طرح کا لائحہ عمل اختیار کرتے ہیں ۔ بظاہر آصف علی زرداری پیپلز پارٹی کی تمام تر پالیسیاں مرتب کرتے ہیں اور ان کی انہی پالیسیوں کی وجہ سے پیپلز پارٹی پاکستان کی مقبول ترین سیاسی جماعت نہیں رہی بلکہ ان کی جماعت سندھ کی علاقائی جماعت بنتی جا رہی ہے۔ بعض لوگ پیپلز پارٹی کو ’’زرداری لیگ‘‘ بھی قرار دیتے ہیں ۔ آصف علی زرداری پارٹی چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کو فیصلے کرنے میں خود مختاری دینے کو تیار نہیں ہیں جبکہ ایک طرف ان کی خواہش یہ بھی ہے کہ بلاول بھٹو منجھے ہوئے سیاستدان بنیں اور مستقبل میں وزارت عظمیٰ کے منصب پر بھی فائز ہوں،انہیں فیصلہ کرنا ہے کہ وہ ملک اور اپنی پارٹی کے وسیع تر مفاد پر ذاتی مفادات کو ترجیح نہ دیں جس کے بعد ہی اس سیاسی جماعت کا مستقبل واضح ہو سکے گا ۔ بصورت دیگر پیپلز پارٹی کا مستقبل کچھ زیادہ تابناک نظر نہیں آتا ۔
پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان ملک کی ایک بڑی سیاسی قوت بن چکے ہیں جس سے انکار ممکن نہیں ، عمران خان نے ہمیشہ سے ملک میں تبدیلی لانے اور عوام کے وسیع تر مفاد میں اقدامات کرنے کا اعلان کیا ہے ۔ ان کی جماعت کو زبردست پذیرائی حاصل ہو رہی ہے بلکہ بعض حلقے وثوق سے اس بات کا اظہار کرتے ہیں کہ انہیں کنگ میکرز کی بھی حمایت حاصل ہے۔ اگر اس بات کو تسلیم کر لیا جائے تو عمران خان پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ فیصلہ کریں کہ انہیں کٹھ پتلی حکمران بننا ہے یا عوامی امنگوں کے مطابق اور پارٹی نظریات کو آگے بڑھاتے ہوئے اقتدار کے ایوانوں تک پہنچنا ہے ۔ بظاہر ایسا نہیں لگتا کہ عمران خان جو اپنے فیصلے خود کرنے میں مشہور ہیں وہ کٹھ پتلی حکمران بن کر چل پائیں گے۔
پاکستان مسلم لیگ ن کے صدر میاں شہباز شریف صوبہ پنجاب میں ترقیاتی کاموں کے حوالہ سے دیگر صوبوں کی نسبت منفرد پہچان اور اہمیت رکھتے ہیں لیکن ان کی سب سے بڑی مشکل ان کے پارٹی قائد میاں نواز شریف ہیں جو اپنے بیانیہ پر قائم ہیں ۔ میاں شہباز شریف پارٹی قائد کے بیانیہ سے انحراف کرتے ہیں تو عوام میں ان کی مقبولیت کا گراف کم ہونے لگتا ہے اگر وہ قائد کے بیانیہ کی پاسداری کرتے ہیں تو اس بات کے امکانات کم ہوتے چلے جاتے ہیں کہ انہیں ریاستی اداروں کی حمایت حاصل ہو سکے گی۔ میاں شہباز شریف کے لیے بھی یہ وقت فیصلہ کن ہے کہ وہ پارٹی قائد کے بیانیہ کو لے کر آگے بڑھتے ہیں یا پھر بحیثیت پارٹی صدر اپنی پالیسیوں پر عمل کرتے ہوئے سیاسی جدوجہد جاری رکھتے ہیں ۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)