• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
,

الفاظ اور محاوروں کا درست استعمال (پانچویں قسط)

٭اتائی یا عطائی؟

بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ ’’عطائی‘‘ کا لفظ ’’عطا‘‘ سے بنا ہے اوران کے خیال میں اس کے معنی ہیں وہ شخص جس کو قدرت کی طرف سے کوئی علم یا فن یا مہارت ’’عطا ‘‘ہوگئی ہو اور اسے اس کے اکتساب میں محنت نہ کرنی پڑی ہویااستاد سے کچھ سیکھنا نہ پڑا ہو۔ اسی لیے عطائی کا لفظ’’بے استادا، غیر تربیت یافتہ ، اناڑی‘‘ کے معنوں میںبھی رائج ہے۔ اس لفظ کو اسی لیے نیم حکیم کے معنوں میں بھی استعمال کیا جاتا ہے۔لیکن اس کا املا ’’ع‘‘ سے نہیں بلکہ ’’الف ‘‘ سے درست ہے یعنی درست املا ’’اتائی‘‘ ہے۔ نیز اس کا ’’عطا‘‘ سے کوئی تعلق نہیں۔ آئیے اس ضمن میں اردو کی اہم اور مستند لغات کا جائزہ لیتے ہیں۔ علمی اردو لغت (مرتبہ وارث سرہندی) کے مطابق اتائی کے معنی ہیں جو شخص کسی فن یا ہنر کو باقاعدہ حاصل نہ کرے اور سرسری مطالعے یا معمولی تجربے کی بنا پر اس میں دخل دے۔ معنی تو درست ہیں لیکن علمی اردو لغت نے معنی لکھتے ہوئے اس کا ایک مترادف ’’عطائی ‘‘بھی لکھا ہے۔ لیکن یہ املا صحیح نہیں ہے۔ درست لفظ اتائی ہے ۔ہمارے دور کے ایک بڑے نثر نگار شکیل عادل زادہ لفظوں کے مزاج سے واقف ہیں اور ان کو پرکھنے کا ہنر جانتے ہیں ۔ کچھ عرصے قبل ان سے فون پر املا کے سلسلے میں بات ہوئی تو ان کا بھی یہی خیال تھا کہ صحیح املا الف ہی سے یعنی اتائی ہے۔ البتہ شکیل بھائی اس بات پر کچھ خفا بھی تھے اور کچھ محظوظ بھی ہورہے تھے کہ علمی اردو لغت نے درست املا یعنی الف سے اتائی لکھ کر اس کی تشریح میں عین سے عطائی بھی لکھ دیا ہے۔

معروف انگریز لغت نویس جان ٹی پلیٹس (John T. Platts) نے اپنی اردو ، ہندی اور انگریزی کی لغت میں لفظ ’’اتائی ‘‘ کو الف ہی سے لکھا ہے۔ اتائی کی اصل بتاتے ہوئے پلیٹس نے سنسکرت کے دو لفظ لکھے ہیں : آتم اور ادھیِت۔ قومی کونسل براے فروغ اردو زبان (دہلی) کی شائع کردہ ہندی اردو لغت (مرتبہ نصیر احمد خان)کے مطابق آتم کے معنی ہیں خود کا یا اپنا جبکہ ادھیت کے معنی ہیں پڑھنا ، مطالعہ کرنا، حاصل کرنا ، سیکھنا۔ گویا’’ اتائی ‘‘کا لفظ سنسکرت کے جن دو الفاظ سے مل کر بنا ہے اس کے معنی ہیں خود پڑھنا یا خود سیکھنا ۔ اس طرح اتائی وہ شخص ہے جو خود ہی کوئی فن سیکھ لے۔ پھر پلیٹس نے اتائی کے معنی بتائے ہیں جو یہ ہیں:کوئی ساز بجانے والایا ناچنے گانے والا جو معاوضہ نہ لے۔ اس کے بعد وہ لکھتا ہے کہ مغربی ہندستان میں اس لفظ کے معنی ہیں وہ گویّا یا موسیقار جس نے خود کو سکھایا ہو ۔

اسی لیے اتائی کا لفظ بے استادا یا غیر تربیت یافتہ نیز نیم حکیم اور اناڑی کے مفہوم میں بھی مستعمل ہے۔ گویا اتائی کے معنی ہیں خود آموزموسیقار یا گویّا جس نے باقاعدہ اس فن کی تربیت حاصل نہ کی ہو۔اس کے بعد یہ لفظ دیگر معنوں میں بھی آگیا۔ البتہ اس کا ’’عطا‘‘ سے کوئی تعلق نہیں اور اس ضمن میں اردو لغت بورڈ کی لغت کے مدیران نے اتائی کا اشتقاق لکھتے ہوئے قیاساً لکھ دیا ہے کہ عربی لفظ ’’عطا‘‘ سے اردو میں بنایا گیا ہے۔مذکورہ بالا حوالہ جات سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ بورڈ کا قیاس درست نہیں ہے۔ اتائی کی اصل عربی کا کوئی لفظ نہیں ہے ۔اسی لیے اس کے املا میں ’’ع ‘‘ اور ’’ط‘‘ لکھنے کا کوئی جواز نہیں ہے۔ بورڈ نے بھی درست املا یعنی اتائی ہی لکھا ہے اور یہ الف کے الفاظ کی تقطیع میں شامل ہے لیکن اس کے اشتقاق کے اندراج کے وقت مدیران ِ لغت کوالتباس ہوا ہے۔ اچھی بات یہ ہے کہ بورڈ نے حرفِ عین (ع)کی تقطیع والی جلد میں ’’عطائی ‘‘درج کرنے کے بعد اشتقاق میں لکھا ہے ’’اتائی کا ایک املا‘‘ ۔ گویا عین والی جلد کی اشاعت کے وقت بورڈ کا نقطۂ نظر تبدیل ہوگیا تھا(غالباً اس لیے کہ مدیر ِ اعلیٰ بھی تبدیل ہوگئے تھے) ۔

تازہ ترین
تازہ ترین