• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
جاپان اور چین کے بہتر ہوتے تعلقات

جاپان اور چین ایشیاکے دو ایسے ممالک ہیں جن کے باہمی تعلقات میں تلخی کی طویل داستان ہے۔ اگرچہ یہ دو نوں ممالک ایک دوسرے کے ساتھ کیے گئے معاہدہ امن کی اس سال چالیسویں سال گرہ منا رہے ہیں، لیکن یہ حقیقت ہے کہ کچھ عرصے قبل تک دونوں کے تعلقات میں سرد مہری ، کشیدگی اور اندیشوں کی پوری فصل موجود تھی۔ مگر بہ وجوہ اب معاملات بہ ظاہر بہتری کی طرف گام زن ہیں ۔ جاپان انڈین پیسیفک میں فری اینڈ اوپن اسٹریٹجی ا ختیا ر کرچکاہے، اس لیے اس نے حال ہی میں انڈیا پیسیفک ریجن میں اپنے بحری جہازکے گشت کا اعلان کیاجس پر ہیلی کاپٹراتر اور پرواز کرسکیں گے۔ جاپان کا یہ بحری جہاز ستمبر میں 2 ماہ کے گشت پر روانہ ہو گا اور اس دوران ا نڈ و نیشیا، فلپائن،بھارت اور سری لنکا کی بندرگاہوں پر لنگر ا ند ا ز بھی ہو گا۔وہ سنگاپور سے گزرتے ہوئے Port Call بھی دے گا۔یہ پورٹ کال بالکل ان ہی دنوں میں دے گاجب آسیان کے 12 ممالک کے وزرائے دفاع کا ا جلاس 18 سے 20 اکتوبر کی تاریخوں کے درمیان جاری ہو گا۔ جاپان کے اس اقدام کے بارے میں کہا جارہا ہے کہ وہ سمندروں میں اپنی موجودگی کا بھر پور احساس دلا ئے رکھنا چاہتا ہے۔

جاپان اور چین کے سامنے واضح طور پر یہ حقیقت آچکی ہے کہ ان دونوں ممالک کو امریکاکی ایسی تجارتی پا لیسیز کا سامنا کرنا پڑ رہاہےجن سےیہ دونوں نالاں ہیں ا ور چین کے حوالے سے تو یہ بالکل واضح ہے کہ صرف ٹر مپ انتظامیہ ہی نہیں بلکہ ڈیموکریٹس کا لب و لہجہ بھی نہا یت سخت ہے۔ ان حالات میں چین اور جاپان نے تیزی سے باہمی کشیدگی کم کرنے کے لیے اقدام اٹھائے ہیں۔ اس صورت حال کو تجزیہ نگار دونوں طرف سے Tacticle Detente یعنی ’’دشمنی کی موجودگی میں تعلقات استواراور کشیدگی کم کرنا‘‘سے تعبیر کر رہے ہیں۔ لیکن اس کی صحت کو امریکا کی پالیسیز سے بھی مشروط کر رہے ہیں،کیوں کہ دونوں کی قربت درحقیقت امریکاسے دوری کے سبب ہو رہی ہے۔

اس قربت کا پہلا اظہار اس وقت بہت واضح طورپر د یکھنے میں آیا جب جاپان اور چین کے اقتصادی مذاکر ا ت کی بحالی کا قدم اٹھایا گیا۔ یہ مذاکرات 8برسوں سے معطل تھے ۔ چینی وزیر خارجہ وفد کے ساتھ جاپان گئے تو اس دوران انہوں نے اقتصادی معاملات کےساتھ چینی وزیر اعظم اور جنوبی کوریا کے موجودہ صدر کے دورے کی بھی راہ کھولی۔ یہ دورہ مئی کے مہینے میں ہوا اور اس میں سہ فریقی مذاکرات کیے گئے تھے۔ ان تمام پے در پے وا قعا ت کا تجزیہ کرتے ہوئے Prof.Pugliese جو Sino Japan Power Politics Might Money and Minds کے شریک مصنف ہیں،نے کہا کہ چین نےکچھ عرصے میں بالکل واضح کر دیا ہے کہ وہ جاپان کو انگیج کرنا چاہتا ہے اور یہ اس لیے ہو رہا ہے کہ چین اور امریکاکے تعلقات تبدیل ہو رہے ہیں۔ چینی وزیر اعظم کے دورے کے دوران ان بدلتے ہوئے تعلقات کی بناپرجاپان سے بھی تعلقات میں تبدیلی کی جا نب واضح اشارہ اس وقت ملا جب دونوں ممالک نے ایسٹ چائنا سی میں تصادم کو روکنے کی غرض سے Meritime and Aerial Cooperation Mechanism بنانے پر اتفاق کیا۔

دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کو مستحکم کرنے کے لیے جاپان کے وزیر اعظم شنزوآبے کے دورہ چین کی بہت جلد توقع کی جا رہی ہے، کیوں کہ اگلے برس جی ۔20 کے اجلاس میں چینی صدر کو جاپان جاناہے۔ اس موقعے پر یہ توقع کی جا رہی ہے کہ دونوں ممالک ففتھ ڈاکومنٹس پر ا تفاق کا اظہار کریں گے جس سے یہ واضح پیغام جائے گا کہ دونوں ممالک کے تعلقات ٹریک پر آ رہے ہیں ۔ تا ہم تعلقات میں آنے والی اس بہتری کے باوجود یہ نکتہ ذ ہن میں رکھناچاہیے کہ دونوں ممالک کے درمیان موجود اختلافات اپنی جگہ برقرار ہیں۔ تائیوان،تجارت اور سا ئو تھ چائنا سی کے ضمن میں معاملات جوں کے توںہیں۔ سا ئوتھ چائناسی میں چینی سرگرمیوںکےاثرات صرف جا پا ن تک محدود نہیں، بلکہ جنوبی کوریا اوربھارت بھی اس کی زد میںہیں۔

ہمیں یہ بھی مدنظر رکھنا چاہیے کہ تعلقات میں بہتری پیداکرنے کے لیے اٹھائے گئے مذکورہ اقدام سے قبل ہی چین اور جاپان کی معیشتیں تیزی سے ایک دوسرے سے جڑ رہی تھیں، کیوں کہ چین، جاپان کا بہت بڑا تجارتی پارٹنر بن چکاہے۔ جاپان کی نصف کمپنیز اپنا آپریشن چین ہی سےچلا رہی ہیں ۔ اس لیے چین کی خواہش ہے کہ جاپان بیلٹ اینڈروڈ انیشیٹو میں اس کا ساتھ دے۔ مگر جاپان نے اسے بعض معاملات سے مشروط کر رکھا ہے جوہنوز حل طلب ہیں۔ ویسے چین کےاس منصوبےمیںبنیادی ا ہمیت پاکستان کی ہے۔یہ تو خیر جملہ معترضہ تھا، لیکن چین اور جاپان اقتصادی حوالے سے بھی بعض اختلافات رکھتے ہیں جنہیں وہ رفع کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ جاپان لبرل معیشت قائم کر کے Japan Led Transpacific پارٹنرشپ قائم کرنا چاہتا ہے جس میں انٹیلیکچوئل پراپرٹی رائٹس اور ٹیرف کی کمی جیسے معاملات پروہ فوراً عمل درآمدچاہتا ہے۔ لیکن چین بہ تد ر یج لبرل معیشت کی طرف جاناچاہتاہے۔ اس حوالے سے دونوں ممالک میں اختلافات بہت گہرے ہیں۔

جاپان اور چین کے تعلقات کو استحکام نصیب ہو گایا یہ عارضی بنیادیں ہیں؟ اس ضمن میں کلیدی حیثیت امریکی پالیسیز کی ہے،کیوں کہ جاپان اپنی سلامتی کے حوالے سے امریکاکو نظر انداز نہیں کر سکتا اور اس کی خواہش ہے کہ بیجنگ اور واشنگٹن دونوں سے تعلقات خوش گواررہیں۔ حالاں کہ عالمی برتری کی لڑائی میں اب بیجنگ اور واشنگٹن ، دونوں ہی کسی حوالے سے قدم پیچھے ہٹانے کے لیے تیار نظر نہیں آتے۔

تازہ ترین