• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

معاشرے میں تعلیم کے فقدان، جمہوری سوچ کی ناپختگی اور اقتدار ہر جائز و ناجائز طریقے سے حاصل کرنے کی خواہش ایسے عوامل ہیں جن کی بنا پر قیام پاکستان سے ہی انتخابات کی شفافیت شکوک و شبہات کی زد میں رہی۔ آج تک کسی بھی سطح کے جتنے بھی انتخابات ہوئے، ان پر جھرلو، ٹھپے اور دھاندلی کے صحیح یا غلط الزامات ضرور لگے۔ پھر پسماندہ اور ترقی پذیر ملکوں کی طرح یہاں بھی یہ کلیہ بن گیا کہ سیاسی پارٹیاں اور امیدوار مخالفین پر دبائو ڈالنے اور ووٹروں کی ہمدردیاں حاصل کرنے کے لئے انتخابی مہم شروع ہوتے ہی یہ تاثر پھیلانے کی کوشش کرتے ہیں کہ انہیں شکست دینے کے لئے غیر قانونی اور غیر اخلاقی ہتھکنڈے استعمال کئے جا رہے ہیں اور اس معاملے میں بعض مقتدر قوتیں اور نادیدہ ہاتھ ان کے مخالفین کی پشت پناہی کر رہی ہیں۔ ماضی میں ہر انتخاب کے موقع پر ایسا ہوتا رہا اور بعض صورتوں میں یہ الزامات اتنے غلط بھی نہیں تھے مگر 2018کے انتخابات میں معاملہ اس حد تک آگے چلا گیا ہے کہ عدلیہ کے فیصلوں کے علاوہ عسکری اداروں کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ یہ مہم صرف سیاسی میدان میں ہی نہیں، میڈیا کے بعض حصوں، خاص طور پر سوشل میڈیا پر بھی چلائی جا رہی ہے۔ پاک فوج کے ترجمان اور ڈائریکٹر جنرل آئی ایس پی آر میجر جنرل آصف غفور نے منگل کو انتخابات میں فوج کے کردار کے حوالے سے صحافیوں کو تفصیلی بریفنگ دی اور واضح کیا کہ مسلح افواج کی کوئی پسندیدہ سیاسی جماعت یا سیاسی وابستگی نہیں۔ عوام جسے چاہیں ووٹ دیں، ان کے ووٹوں سے جو بھی وزیراعظم بنا قبول ہو گا۔ فوج انتخابات میں مکمل طور پر غیر جانبدار رہے گی۔ اس کا کام صاف و شفاف انتخابات کو یقینی بنانے کے لئے الیکشن کمیشن کی معاونت کرنا ہے فوج کو الیکشن کمیشن نے قانون کے مطابق معاونت کیلئے طلب کیا ہے اور چھ کام اس کے ذمے لگائے ہیں۔ پہلا کام، انتخابات کے دوران ملک میں امن و امان برقرار رکھنا، دوسرا، بیلٹ پیپرز کی چھپائی کے دوران پرنٹنگ پریسز کی سکیورٹی۔ تیسرا، انتخابی سامان کی ترسیل۔ چوتھا، پولنگ سٹاف اور ریٹرننگ افسروں کی سیکورٹی۔ پانچواں، پولنگ کے روز پولنگ اسٹیشنزکے اندر اور باہر اپنے نمائندے تعینات کرنا۔چھٹا، پولنگ مکمل ہونے کے بعد تمام بیلٹ بکسوں کو واپس الیکشن کمیشن کے دفتر پہنچانا۔ جنرل آصف غفور نےدرست کہا کہ پرامن اور غیر جانبدارانہ انتخابات کے لئے فوج کی تعیناتی پہلی بار نہیں ہوئی۔ الیکشن کمیشن نے اس مرتبہ معاونت کرنے والے فوجی اہلکاروں کیلئے پہلی بار ضابطہ اخلاق بھی جاری کیا ہے تاکہ انتخابی عمل کسی بھی بے ضابطگی اور پسندو ناپسند سے بالاتر ہو۔ بیلٹ بکس میں جتنے ووٹ ڈالے جائیں، گنتی کے وقت اتنے ہی نکلیں، فوجی ترجمان نے عوام میں پھیلائے جانے والے شبہات کو بے بنیاد قرار دیتے ہوئے جیپ کے انتخابی نشان کے بارے میں کہا کہ نشان الیکشن کمیشن جاری کرتا ہے ہمارا اس سے کوئی لینا دینا نہیں۔ پھر ایسی جیپ ہمارے پاس ہے ہی نہیں امیدواروں کے پاس ہے، جہاں تک امیدواروں کے پارٹیاں بدلنے کا معاملہ ہے تو یہ انتخابات کے موقع پرایک معمول کی بات ہے انہوں نے اور بھی بہت سے حقائق بیان کئے جن سے فوج کے غیر جانبدار اور غیر سیاسی ہو کر الیکشن کمیشن کی مدد کے بیانیے کی مکمل تصدیق ہوتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کی فوج پوری قوم کی فوج ہے اس کے بارے میں کوئی منفی تاثر پیدا نہیں کرنا چاہئے۔ دراصل انتخابات کے دنوں میں ملک کی دوبڑی پارٹیوں کی لیڈر شپ کے حوالے سے جو فیصلے سامنے آرہے ہیں ان کے پس منظر میں جب ان پارٹیوں کے لوگ سوالات اٹھاتے ہیں تو انتخابات کی شفافیت پر بھی انگلیاں اٹھتی ہیں اور ہر شخص اپنی سوچ کے مطابق اپنا مطلب نکالتا ہے، ضرورت اس امر کی ہے کہ عام انتخابات کو جن کے انعقاد میں اب دو ہفتے سے بھی کم وقت رہ گیا شکوک و شبہات سے بالاتر رکھنے اور ہر طرح کے خدشات دور کرنے کیلئے نگران حکومت اور الیکشن کمیشن کو ریاستی اداروں کی مشاورت سے ایسی حکمت عملی اختیار کرنی چاہئے جس سے لوگوں کے ذہنوں میں تحفظات پیدا ہی نہ ہوں۔پاکستان اس وقت گوناگوں مسائل سے دوچار ہے انہیں حل کرنے کیلئے ضروری ہے کہ انتخابات کے نتیجے میں کوئی نیا بحران پیدا نہ ہو اور مسائل و مشکلات میں مزید اضافہ نہ ہو ۔
اداریہ پر ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں00923004647998

تازہ ترین