• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
فن کار۔ ۔ ۔ انتخابی سیاست میں

منزہ رحمانی

شوبز کی دنیا کے مقبول ستارے سیاست کے میدان میںبھی قسمت آزمائی کرتے رہتے ہیں بلکہ دیگر شٖٖعبوںسے تعلق رکھنے والے افراد مثلاً وکیل،تاجراور ڈاکٹر حضرات نے بھی سیاست کے میدان میںقدم رکھا اور کبھی کامیابی اور کبھی ناکامی کا سامنا کیا۔

پاکستانی فنکار سیاست میںآنےکے بارے میںاکثر و بیشتر اپنی رائے کا اظہار کرتے رہتے ہیں۔ اداکار غلام محی الدین کا کہنا تھاکہ بدقسمتی سے ہمارےملک میں جمہوریت کے عمل میں تسلسل نہیں رہا گزشتہ حکومت اپنی مدت پوری کرنے والی دوسری حکومت ہے لیکن ابھی تک ہمارے ملک میں جمہوریت کاکلچر پیدا نہیں ہوا۔سیاست میں آنے کے حوالے سے پوچھے گئے سوال کےجواب میں ان کا کہنا تھا کہ میں نے اپنے خون پسینے کی کمائی سے گھر بنایا اوراپنے بچوں کو پڑھایا لکھایا ہے اور اگر میں سیاست میں آکر کامیاب ہوبھی گیا اور کسی نے مجھ پر کرپشن کا الزام لگادیا تو میں یہ الزام برداشت نہیں کرپائونگا۔ انہوں نے طارق عزیز کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ وہ اسمبلی میںتقریر کر رہے تھے اور ان پر کسی نے آواز کسی تھی کہ (بھائی یہ نیلام گھرنہیں ہے ) ۔ان کا کہنا تھا کہ فنکاروں کو سیاست میں ضرور آنا چاہیے لیکن ہمارے ملک میں فی الحال ایساسیاسی ماحول نہیں ہے ۔

قوی خان کے بقول آزاد امیدوار کے طورپر الیکشن میں حصہ لیا، انتخابی مہم چلائی نہیں پھر بھی عوام نے دس ہزار کے قریب ووٹ دئیے قوی خان نے بتایا کہ انہوں نے ایک دفعہ آزاد امید وار کے طور پر الیکشن لڑا تھا اور انہیں ناکامی ہوئی لیکن یہی کافی تھا کہ ووٹ لینے کی غرض سے نہ تو وہ کسی کے دروازے پر گئے اور نہ ہی انہوں نے کسی کو ایک چائے کا کپ تک پلایا ۔ان کا کہنا تھا کہ یہ لوگوں کی محبت تھی کہ بنا کسی انتخابی مہم کے انہیں دس ہزار کے قریب وو ٹ ملے تھے اور ہارنے کے باوجود لوگ انہیں اپنی مدد کے لیے تھانوں اور دیگر سرکاری دفاتر میں ساتھ لے جا یا کرتے تھے ۔

ان کا کہنا تھا کہ الیکشن لڑنے کے بعد انہیں احساس ہوا کہ لیڈر شپ ایک بہت بڑا منصب ہوتا ہے کیونکہ جب کوئی انسان لیڈر بن جاتا ہے تو عوام کی بہت سی توقعات اس سے وابستہ ہو جاتی ہیں اور اگر کوئی لیڈر عوام کی آدھی توقعات پر بھی پورا اترے تو عوام کو ایسے لیڈر کی قدر کرنی چاہیے ۔قوی خان نے کہا کہ ہمارے معاشرے میں ووٹ کی قدر اور سیاسی شعور بیدار ہونے کے لیے ابھی بہت وقت درکار ہے اور اسی وجہ سے ہمارے ملک میں لیڈر شپ کا فقدان ہے ۔ان کا کہنا تھا کہ فی الحال تو مجھے کوئی نوٹوں کی پیٹیاں بھی دے تو میں سیاست میں نہیں آئوں گا کیونکہ ہمارا سیاسی ماحول فنکاروں کی شمولیت کے لیے بالکل موزوں نہیں۔معروف اداکار ندیم کا کہنا تھا کہاانہیں نہ تو کبھی کسی سیاسی پارٹی نے ٹکٹ دیانہ ہی کبھی کسی سیاسی پارٹی کی طرف سے شمولیت کی آفر ہوئی ہے اور نہ ہی وہ خود کو سیاست کےلیے پرفیکٹ سمجھتے ہیں لیکن جو اداکار سیاسی شعور رکھتا ہو اسے ضرورسیاست میں حصہ لینا چاہیے ۔ان کا کہنا تھا کہ ہمارے ملک میں ابھی بھارت جیسا سیاسی ماحول نہیں بنا کہ فنکار اسمبلیوں میں بیٹھ سکیں لیکن ہم آہستہ آہستہ اس طرف جارہے ہیں اور ہمارے ملک میں ایسے فنکار بھی موجود ہیں جن میں لیڈر شپ کی صلاحیت پائی جاتی ہے ۔

ندیم کا مزید کہنا تھا کہ ضروری نہیں کہ فنکار اسمبلیوں میں بیٹھیں گے تو ہی فلم انڈسٹری بحال ہوگی اگر کوئی حکومت اس معاملے میں سنجیدہ ہوتی تو جب سے ہم اپیلیں کر رہے ہیں اب تک انڈسٹری بحال ہوچکی ہوتی اور ہمارے سینمائوں اور چینلز پر دوسرےممالک کی فلمیں اور ڈرامے نہ چل رہے ہوتے۔ایوب کھوسو نے اسبات پر بہت زور دیا کہ فنکاروں کو سیاسی سرگر میوں میں حصہ لینا چاہیے ۔اداکارہ دردانہ رحمان کا کہنا تھا کہ فنکاروں کو سیاست میں حصہ لینا چاہیے کیونکہ فنکاروں کو عوام کی پسندیدگی حاصل ہوتی ہے اور اگر فنکارسیاست میں آئیں تو و ہ سیاسی کارکنوں کی نسبت عوام کی زیادہ خدمت کر سکتے ہیں ۔ 

اداکارہ کنول جو کہ مسلم لیگ (ن )کی رکن ہیںان کا کہنا تھا فنکاروں کو لازمی سیاست میں آنا چاہیے کیونکہ فنکار حساس طبیعت کے مالک ہوتے ہیں اور جتنا درد عوام کیلئے ایک فنکار کے دل میں ہوتاکسی سیاست دان کے دل میں نہیں ہوتا، سینئر اداکار مصطفی قریشی کا کہنا تھا کہ وہ شروع سے ہی پاکستان پیپلزپارٹی کی سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لیتے آرہے ہیں،انہوں نے کہا کہ ضروری نہیں کہ کوئی اسمبلی میں بیٹھ کر ہی عوام کی خدمت کرے ،اگر کوئی عوام کی خدمت کا عزم رکھتا ہو تو اسے کسی پلیٹ فارم کی ضرورت نہیں۔پچھلی کئی دہائیوں سے ہمسایہ ملک بھارت کے اداکاروں میں سیاست میں حصہ لینے کا رجحان پایا جا رہا ہے اور بہت سے سینئر اداکارلوک سبھا اورراجیہ سبھا کا حصہ بنتے آرہے ہیں ۔بھارتی سیاسی پارٹیاںاداکاروں کو کرشماتی شخصیت ہونے کی وجہ سے کیش کرتی ہیں لیکن اداکاروں کا سیاست میں آنا ایک خوش آئند بات ہے ۔بھارت میں اداکاروں کے سیاست میں آنے کا رجحان مغربی ممالک سے آیا ہے امریکہ ،برطانیہ ، کینیڈا سمیت بیشتر مغربی ممالک کے فنکار سیاست سے وابستہ ہیں حتیٰ کہ فلپائن اور سری لنکا کے بہت سارے فنکار اس وقت سیاسی ذمہ داریاں نبھا رہے ہیں

بر صغیر پاک وہند میںشو بز کے کئ ستارےسیاسی میدان میںقسمت آزمائی کر چکے ہیں اور کرتے رہتے ہیں فرق صرف یہ ہے کہ بھارت میں فنکاروںکا سیاست میں بھی بھرپور خیر مقدم کیا جاتا ہے اگر کو ئی فنکار سیاسی میدان میں اترتا ہے تو عوام اسے دل سے خوش آمدید کہتے ہیں اور اپنے ووٹوں کے ذریعے کامیاب کرتے ہیں،بھارتی فنکاروں نے فن کے شعبے میں نام کمانے کے بعد سیاست میںبھی نام کمایا اور عوام کی طرف سے بھرپور پذیرائ حاصل کی ،جب کہ پاکستان میں معاملہ اس کے برعکس ہے عوام اسکرین پر پسند کرنے والے اداکاروں کو وہ پذیرائی اور مقبولیت نہ دے سکی جو ایک سیاسی لیڈر کو ملنا چاہیے لیکن اس کے باوجود ماضی میں فنکاروں نے سیاست میں بھی اپنا حصہ ڈالا اور عوامی انتخابات میں مختلف سیاسی تنظیمیوں کی طرٖف سے کھڑے ہو ئے، حالیہ انتخابات 2018میںبھی چند نامور اداکار اور گلوکار حصہ لے رہے ہیں۔

ماضی میں بھارت میںدلیپ کمار اور امیتابھ بچن انتخابات میںحصہ لے چکے ہیں،دلیپ کمار راجیہ سبھا کے رکن بھی رہے ہیں اور ممبئ کے لارڈمئیر کے عہدے پر بھی فائز رہ چکے ہیں۔امیتابھ بچن1984میںلوک سبھا کے رکن بھی منتخب ہوئے مگر1987 میں مستعفی ہوکرفن کی دنیا میں واپس لوٹ گئے،سنیل دت 1994میں کانگریس کے رکن رہے انہیں اسپورٹس اینڈ یوتھ افٗیرز کی وزارت بھی دی گئی۔

وہ بھارتی ستارے جو فن کے ساتھ سیاست میں بھی کامیاب رہے ان میںگووندہ، شتروگن سہنا،جیہ پرادہ،دھرمیندر،ہیمامالنی،ونود کھنہ،راج ببر،شبانہ اعظمی،جیہ بچن،وجنتی مالا،چیرن جیوی،مون مون سین،پاریش راول،منوج تیواڑی،کرن کھیر شامل ہیں۔گووندہ نے2004 میں کانگریس کے ٹکٹ پربمبئ سے لوک سبھا کا الیکشن جیتا مگر سیاست میں اپنا مقام بنانے میں ناکام رہے ان پر کرپشن کے الزامات لگاے گئے۔شتروگن سہنا کا تعلق بھارتیہ جنتا پارٹی سے ہےاور یہ دو بار راجیہ سبھا کے رکن بھی رہ چکے ہیں ۔جیہ پرادہ نے2004سیاسی میدان میں قدم رکھا تیلگو دیسام پارٹی کی رکن بنیں،1996میں راجیہ سبھا کی رکن بنیںاور کچھ مدت بعد تیلگو دیسام کو خیرباد کہ کر سماج وادی پارٹی کی رکن بنیں2009کے الیکشن میںمخالف امیدوار کو تیس ہزارووٹوں سے شکست دے کر کامیاب ہوئیں۔اداکاردھرمیندر نے 2004میں بھارتیہ جنتا پارٹی کی طرف سے انتخابات میں حصہ لیااور واضح اکثریت سے کامیابی حاصل کی۔مشہور اداکارہ ھیما مالنی نے 2014میںبی جے پی کے ٹکٹ پر ماتھور سے ودھان سبھا کا انتخاب لڑا یہ پارلیمنٹ رکن بھی ہیں،انہوں نے بی جے پی جوائن کرنے کے بعد 1997میں ونود کھنہ کی انتخابی مہم چلائی اور پارٹی کی سرگرم رکن کی حیثیت سے کام کرتی رہیں۔

ونود کھنہ نے 1997میںبھارتیہ جنتا پارٹی کی طرف سے الیکشن میں حصہ لیااور کامیابی حاصل کی،2004میں بھی اسی حلقے سے کامیاب ہوئیں مگر 2009کے انتخابات میں شکست سے دوچار ہوئیں اور 2014کے الیکشن میں گرداس پور پنجاب سے بی جے پی کےٹکٹ پر کامیابی حاصل کی۔اداکار راج ببر کانگریس پارٹی سے منسلک ہیں یہ سیاست اور اداکاری دونوں ہی میدانوں میں کامیاب رہے اور عوام کی طرف سےان کوبھرپور پذیرائی ملی۔معروف اداکارہ شبانہ اعظمی 1997سے 2003 تک راجیہ سبھا کی رکن رہیں۔امیتابھ بچن کی اہلیہ اور اداکارہ جیا بچن کا تعلق سماج وادی پارٹی سے ہے یہ پہلی بار 2010 اور دوسری بار2012میںراجیہ سبھا کی رکن منتخب ہوئیں۔اداکارہ وجنتی مالامیسور سے کئ بار لوک سبھا کی رکن منتخب ہوئیں،ان کی انتخابی مہم عظیم اداکار دلیپ کمار خود چلاتے رہے۔اداکار چیرن جیوی نے 2008میںپہلی بار سیاست میںقدم رکھااورپراجہ راجیم پارٹی کے ٹکٹ پر ودھان سبھا کے رکن منتخب ہوئے۔اداکارہ مون مون سین نے 2014میںبی جے پی کے ٹکٹ پر لوک سبھا کا الیکشن لڑااور کامیابی سے ہمکنار ہوئیں،یہ ماضی کی معروف اداکارہ سچترا سین کی بیٹی ہیں۔اداکار پاریش راول نے 2014میںبی جے پی کی طرف سے ودھان سبھا کے انتخابات میں حصہ لیااور کامیابی حاصل کی۔

اداکار منوج تیواڑی نے بی جے پی کی طرف سے ودھان سبھا کا الیکشن لڑااور کامیابی حاصل کیاان کو بی جے پی دہلی کے صدر کے عہدے پر فائز کیا گیا۔مشہور اداکار انوپم کھیر کی اہلیہ اور معروف اداکارہ کرن کھیر 2009میں بی جے پی کی رکن بنیںاور2014کے لوک انتخابات میں حصہ لیا اور واضح اکثریت سے کامیابی حاصل کی ۔بھارتی کانگریس اداکار شاہ رخ خان کوبھی الیکشن لڑنے کی پیشکش کر چکی ہےلیکن انہوں نے حامی نہیںبھری۔

پاکستان کے مشہور ومعروف اداکاروںنے بھی سیاست کے میدان میںقدم رکھا ان میں مشہور اداکار کمال ،پشتو فلموںکا معروف نام مسرت شاہین،میرا،ابرارالحق،انور اقبال،وقار ذکا،گلاب چانڈیو،شفیع شاہ،قیصر خان،قوی خان،طارق عزیز،ایوب کھوسو،عمر شریف،فاطمہ ثریا بجیا،سعود،جویریہ سعود،لیلی،گلوکار و اداکار عنایت حسین بھٹی،فلموں کے ولن شاہ نواز،کمپیئیر واداکارہ خوش بخت شجاعت اورکنول نعمان شامل ہیں۔پاکستانی فلم انڈسٹری کے معروف اداکار کمال جو27اپریل 1934کو پیدا ہوئے، نے سیاسی میدان میں قدم رکھا اور نیوکراچی کے حلقے سے انہوں نے انتخابی نشانــ مٹکے سے حصہ لیامگر کامیاب نہ ہو سکے ۔پشتو فلموںکی مشہور اداکارہ مسرت شاہین نے ایک جماعت تحریک مساوات کی بنیاد ڈالی،2008کے انتخابات میں حلقہ این اے 24سےیہ مولانا فضل الرحمن کی جمعیت علمائے اسلام( ف ) کے مقابل کھڑی ہوئیںلیکن کامیاب نہ ہو سکی،2013کے لیئے بھی مسرت شاہین نے کاغذات نامزدگی جمع کروائے تھے اور ان کے مقابل مولانا فضل الرحمن ہی تھے۔

فلموں کی مشہور اداکارہ میرا کے بارے میں شور اٹھا کے 2013کے الیکشن میں عمران خان کے خلاف قومی اسمبلی کے حلقے این اے 126 سے حصہ لے رہی ہیں میرا نے جسٹس پارٹی کے ٹکٹ پر اس حلقے سے کاغذات نامزدگی بھی حاصل کر لیے تھے میرا کی والدہ شفقت زہرہ اپنی صاحبزادی کے کاغذات نامزدگی جمع کروانے الیکشن کمیشن کے دفتر بھی گئیں مگر وقت کی کمی کے باعث کاغذات جمع نہ ہو سکےمیرا نے لاہور کی ایک تقریب میں اس بات کی وضاحت کی کہ وہ کسی سیاسی جماعت کے ساتھ نہیں بلکہ اپنی والدہ کی انتخابی مہم میں حصہ لے رہی ہیںمیرا کی والدہ شفقت بخاری صوبائی اسمبلی کے حلقے پی ایس 283 ہارون آباد سے پاکستان جسٹس پارٹی کے ٹکٹ پر خواتین کی مخصوص نشست کے لیئے انتخابات میں حصہ لیا۔میزبان و کمپئیر وقار ذکا اور اے۔ آر۔ وائی کے میوزک اسسٹنٹ نائب صدرنے ، 2013 کے الیکشن میںپی ایس 118 کراچی سے انتخابات میں حصہ لیامگر کامیاب نہ ہو سکے یہ گلشن اقبال کراچی کا حلقہ ہے اس حلقے سے ایم کیو ایم کے فیصل سبزواری 2002میں رکن صوبائی اسمبلی منتخب ہوئے تھے جب کہ 2008کے انتخابات میں بھی متحدہ قومی مومنٹ کے محمد مزمل قریشی اسی حلقے سے ایم پی اےمنتخب ہوئے تھے۔

پاکستان ٹیلیوژن کے نامور اداکار گلاب چانڈیو نے بھی 2013کے انتخابات میں حصہ لیا انہوں نے صوبائی اسمبلی کے حلقے پی ایس 24 نوابشاہ سے پاکستان مسلم لیگ فنکشنل کے ٹکٹ پر انتخاب لڑا ،یہ 1993 کے انتخابات میں بھی حصہ لے چکے ہیں مگر 1993 میںان کو شکست ہوئی تھی۔شفیع محمد شاہ پرانے اور منجھے ہوئے اداکار تھے 2002کے عام انتخابات میں قومی اسمبلی کے حلقے این اے 253 کراچی سے حصہ لیا مگرناکام ہوئے اور متحدہ مجلس عمل کے اسد اللہ بھٹو کامیاب ہوئے ۔ اداکار قیصر خان نظامانی نے 2008کے عام انتخابات میں عام امیدوار کی حیثیت سے حصہ لیا ،کراچی کے حلقے پی ایس 113 سے 37 ووٹ حاصل کیئے۔اداکار قوی خان نے 1985میں منعقد ہونے والے انتخابات میں لاہور سے حصہ لیا مگر ناکام رہے۔معروف اداکار و میزبان طارق عزیز پیپلز پارٹی کے سرگرم کارکن اور ذوالفقار علی بھٹو کے قریبی ساتھیوں میں سے تھے مگر بعد میں مسلم لیگ نون میں شمولیت اختیار کرلی 1997میں ہونے والے عام انتخابات میں حصہ لیا ،لاہور کے حلقے سے رکن قومی اسمبلی رہے۔اسٹیج کے نامور فنکار عمر شریف بھی متحدہ قومی مومنٹ سے وابستہ رہے ،سابقہ دور حکومت میں وزیر اعلی سندھ کے مشیر کی حیثیت سے کام کر چکے ہیں۔

نامور رائیٹر فاطمہ ثریا بجیا بھی متحدہ قومی مومنٹ کی جانب سے وزیر اعلی سندھ کی مشیر رہ چکی ہیں۔فلمی اداکار سعود اور اہلیہ جویریہ سعود بھی متحد ہ قومی مومنٹ سے وابستہ ہیں۔حالیہ انتخابات 2018 میں شوبز کی دنیا سے جو فنکار حصہ لے رہے ہیں ان میں ابرارالحق، جواد احمد،ساجد حسن،ایوب کھوسو ،اداکارہ گل رعنا،مصورہ لیزا مہدی،اداکارہ کنول نعمان،میزبان ڈاکٹر عامر لیاقت حسین شامل ہیں۔مشہور و معروف گلوکار ابرارالحق 21جولائی 1969کو فیصل آباد میں پیدا ہوئےا نہوں نے اپنی بیچلرز ڈگری سرسید کالج راولپنڈی سے حاصل کی اور ماسٹرز کی ڈگری قائداعظم یونیورسٹی اسلام آباد سے حاصل کی1996میںایچی سن کالج لاہور میںبطور استاد تعینات کئے گئے ۔

ابرارالحق پوپ،بھنگڑااور فوک موسیقار ہیںانہوں نے گانے کا آغاز 1995 سے کیا ان کی پہلی البم بلو دے گھر کے نام سے آئی،اور اس گانے بلو دے گھر سے ابرارالحق کو بہت شہرت ملی اس البم کیااب تک ایک کروڑ ساٹھ لاکھ کاپیاںفروخت ہو چکی ہیں،1998میںابرار الحق نے اپنی دوسری البم مجاجنی کے نام سے ریلیز کی ،1999 میںبے جا سائیکل تے کے نام سے تیسری البم ریلیز کی، چوتھی البم2002میںاساں جانا مال ومال کے نام سے جاری کی،2004میںپانچویں البم بنائی جو نچاں میںاودھے نال کے نام سے جاری ہوئی ،مارچ 2007میں نعرہ ساڈا عشق اےکے نام سے چھٹی البم جاری کی،2013میںسب رنگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے نام سے البم جاری کیااور 30 اپریل 2016میںآٹھویں البم بلو ریٹرنز ایتھے رکھ کے نام سے جاری کی۔ابرار الحق 2005 میںحریم سے رشتہ ازدواج میںمنسلک ہوئے ان کی دو بیٹیاں حمنہ ابرار اورعنایہ ابرار ہیں اور ایک بیٹا محمد طہ ہے۔ اس کے علاوہ ابرار الحق امور خارجہ کے سیکرٹیری اور پاکستان تحریک انصاف کےیوتھ ونگ کے صدر بھی ہیں یہ سہارا ٹرسٹ کے بانی اور چیئر مین بھی ہیں، یہ ایک ٹیکس مثتثنی تنظیم ہےجو دور دراز علاقوں میں صحت اور تعلیم کو فروغ دیتی ہے سہارا ٹرسٹ نے ناروال سے کام کا آغاز کیا ،2003 میں ناروال میں کئی اسپتال بنائے ،2016 میں ناروال میں سہارا ٹرسٹ نے میڈیکل کالج قائم کیا ،ابرارالحق نے 19 دسمبر 2011کو اپنے سیاسی مستقبل کا آغاز کیا اور پاکستان تحریک انصاف کے رکن بنے،2013کے انتخابات میں پاکستان تحریک انصاف کے ٹکٹ پرحلقہ این اے 117سے پاکستان مسلم لیگ نون کے احسن اقبال کے مقابل حصہ لیا مگر ناکام رہے،احسن اقبال 44122 ووٹ لے کر کامیاب قرار پائے،حالیہ انتخابات 2018میںاپنے آبائی شہر ناروال سے این اے 78سے پاکستان تحریک انصاف کے ٹکٹ پر حصہ لے رہے ہیںاور اس بار بھی ان کے مقابل احسن اقبال ہی ہیں۔

جواد احمد مشہور پاکستانی موسیقار اور پاپ سنگر ہیں، جواد احمد 29ستمبر 1970کو لاہور میں پیدا ہوئے ،ان کے والدین کالج پروفیسر تھے انہوں نے مکینیکل انجینئیر نگ کی ڈگری یونیورسٹی آف انجینئیرنگ اینڈ ٹیکنالوجی لاہور سے حاصل کی، حال ہی میںوزارت صحت اور یونیسیف کی طرف سے ان کو پاکستان کا سفیر مقرر کیا گیا ہے، جواد احمد نے 17مئی 2017کہ اپنی سیاسی جماعت برابری پارٹی بنانے کا اعلان کیا اور اپنی جماعت کے کاغذات الیکشن کمیشن کو جمع کروائے تا کہ انتخابات 2017میں ان کی جماعت حصہ لے سکےجواد احمد گذشتہ سالوں سے تعلیمی بہبود کے کام بھی کر رہے ہیںلہذا حالیہ انتخابات میں جواد احمد کی برابری پارٹی حصہ لے گی اورانتخابات لڑے گی ،لاہور میں پریس کانفرس سے خطاب کرتے ہوئے جواد احمد نے کہا کہ وہ پاکستان تحریک انصاف کے چیئر مین عمران خان ،پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری اور نون لیگ کے صدر شہباز شریف کے خلاف تین حلقوں سے الیکشن لڑیں گے مزید کہا کہ یہ تینوں سیاست دان ایک جیسے ہیں جنہیں نہ عوام کا خیال ہے اور نہ عوام ان کے ساتھ ہیں،مزید کہا کہ الیکشن پیسوں کے زور پر لڑا جاتا ہے اور پاکستان میںصرف کروڑ پتی افراد الیکشن لڑتے ہیں،جواد احمد پر امید ہیں کہ عوام نا انصافی اور نظام کی تبدیلی کے لیئے انہیں ووٹ دے گی ان کی جماعت برابری پار ٹی کا منشور یہ ہے کہ پاکستان کی عوام کو تعلیم،روزگاراور صحت کے حقوق برابری کی بنیاد پر ملیں،جواد احمد لاہور سے حلقے این اے اور 131 اور 132سے انتخابات لڑ رہے ہیں۔

ساجد حسن پاکستان ٹیلی وژن کا جانا پہچانا نام ہے یہ 1958کو کراچی میں پیدا ہوئے کئی ڈراموں میں کام کیا ،حالیہ انتخابات 2018میں ساجد حسن پاکستان پیپلزپارٹی کی طرف سے حلقہ این اے 256 سے حصہ لے رہے ہیں ،23اپریل 2018کو پاکستان پیپلزپارٹی جوائن کی ،کہتے ہیں کہ بلاول بھٹو زرداری ایک سچا اور کھرا لیڈر ہے،بلاول بھٹو ہی وہ واحد لیڈر ہے جس کی ملک و قوم کواشد ضرورت ہے۔ایوب کھوسوٹی وی اور فلم کا مشہور نام ہے ،یہ1960کو جیکب آباد سندھ میں پیدا ہوئے، جامعہ بلوچستان سے بی اے کیا ایوب کھوسو گذشتہ تین دہائیوں سے پاکستان ٹی وی ڈراموں میں کام کر رہے ہیںایوب کھوسو کا پہلا ڈرامہ چھائوں کوئٹہ سینٹر سے آن ائیر ہواانہوں نے ایک بلاک بسٹر فلم میں بھی اداکاری کے جوہر دکھائے جس کا نام خدا کے لیئے تھا ،حالیہ انتخابات میں ایوب کھوسوپاکستان پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر پی ایس 101،کراچی ایسٹ کی طرف سے انتخابات میں کھڑے ہو رہے ہیں ایوب کھوسو کا کہنا ہے کہ آئندہ عام انتخابات میں پیپلز پارٹی کراچی سے بھاری اکثریت سے جیتے گی،شہر قائد پیپلز پارٹی کا تھا اورآئندہ بھی رہے گا،کراچی میںماضی کے معروف اداکار ایوب کھوسو کا کہنا ہے کہ نہ صرف ان کا حلقہ بلکہ پورا پاکستان مسائل کا گڑھ بن چکا ہےپیپلز پارٹی عوام کے مسائل حل کرے گی۔

اداکارہ گل رعنا بھی صوبائی اسمبلی کے انتخابات میں پاکستان پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر لڑ رہی ہیں،بین الاقوامی شہرت یافتہ مصور اقبال مہدی ((1946-2008کی صاحبزادی اور مصورہ لیزا مہدی بھی پاکستان پیپلز پارٹی کی طرف سے انتخابات میںکھڑی ہوئی ہیں،لیزا مہدی کو گلوبل ویمن ایوارڈ برائے سال 2018سے نوازا گیا ہے،یہ ایوارڈ فیڈریشن آف پاکستان اینڈ انڈسٹریز کی جانب سے ان کی سیاسی ،معاشی ،سماجی و ثقافتی خدمات کے اعزاز میں دیا گیا ہے،لیزا مہدی کا کہنا ہے کہ گلوبل ویمن ایوارڈ سے نوازا جانا میرے لئے بہت بڑا اعزاز ہےمیں اور مستقبل میں بھی پاکستان میں اپنی خدمات انجام دیکر خواتین کے مثبت پہلو کو اجاگر کرنے کی کوشش کروں گی لیزا مہدی کہتی ہیں کہ ہم عوام کے پانی، بجلی اور دیگر مسائل حل کریں گے،میں اپنے آپ کو لیڈر نہیںبلکہ عوام کی بہن کہتی ہوں،لیزا مہدی حلقہ این اے254سے الیکشن میںحصہ لے رہی ہیں ،پاکستان پیپلز پارٹی نے4فنکاروںکو پارٹی ٹکٹ فراہم کیا ہے جن میں ساجد حسن ،ایوب کھوسو ، گل رعنااور معروف مصورہ لیزا مہدی(صاحبزادی اقبال مہدی) شامل ہیں۔

سینئر اداکارہ اور سابق ایم پی اے کنول نعمان1 جنور ی 1964کو ملتان پیدا ہوئیں ا نہوں نے اپنی تعلیم وومن ڈگری کالج ملتان سے 1983میں مکمل کی کنول تقریبا بیس سال سے شو بز انڈسٹری سے منسلک ہیںاور ایک میڈیا ہائوس بھی چلا رہی ہیںجو عوام کی آگاہی کے لیے پروگرام نشر کرتا ہےکنول ایک این جی او بھی چلا رہی ہیںجو خواتین کے مسائل، نشے کے تدارک ، تعلیم کی اہمیت اور صحت کی سہولت کو فروغ دینے کے لیے کام کرتا ہےیہ سنسر بورڈ کی رکن اور خواتین پارلیمانی کاکس کوآرڈینیٹر کے طور پر بھی خدمات سر انجام دے رہی ہیں کنول نے دس برس قبل سیاست میں قدم رکھا 2013کے عام انتخابات میں پاکستان مسلم لیگ نون کی طرف سے خواتین کی مخصوص نشست پر الیکشن لڑے اور رکن پنجاب اسمبلی منتخب ہوئیں حالیہ انتخابات میں ایک مرتبہ پھر مسلم لیگ نون کے ٹکٹ پر ایم پی اے کی خصوصی نشست پر الیکشن لڑ رہی ہیںمئی 2018میںکنول کے اپنی پارٹی سے کچھ اختلافات ہو گئے اور کنول نے اپنا استعفی وزیر اعلی پنجاب کو بھجوایا استعفی میں لکھا کہ میں استعفی دے رہی ہوں مہربانی فرما کر قبول فرما لیجئے آپ کی قیادت میں دس سال گذار دئیے میری شکایت نہیں ملے گی میرا ضمیر مطمئن ہے میں نے حق نمک ادا کر دیا ہے مزید لکھا کہ جناب والا میرے چند تحفظات ہیں ،میرے مسائل کسی نے حل نہیں کئیے جس کی وجہ سے میں بددل ہو گئی ہوں میں نے آپ کی وجہ سے پارٹی جوائن کی تھی کیوں کہ آپ درددل رکھنے والی شخصیت ہیں وزیر اعلی پنجاب سے معافی مانگتے ہوئے لکھا کہ کہا سنا معاف کر دیجئےگا،24مئی2018 کو رکن پنجاب اسمبلی کنول نعمان نے اپنا استعفی واپس لے لیا اور کہا کہ وزیر اعلی شہباز شریف نے شکوے دور کر دیئے ہیںمیں پارٹی میں تھی اور رہوں گی،کل بھی پارٹی کی وفادار تھی اور آج بھی ہوں۔ٹی وی کے کمپئیر اور میزبان ڈاکٹر عامر لیاقت 2002کے عام انتخابات میںمتحدہ قومی مومنٹ کے ٹکٹ پر رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئےحالیہ انتخابات میںعا مر لیاقت حسین پاکستان تحریک انصاف کی طرف سے،این اے 254 کراچی شرقی کے حلقے سے الیکشن لڑرہے ہیں۔

تازہ ترین