اسلام آباد(نمائندہ جنگ، ایجنسیاں)سابق چیئرمین سینیٹ میاں رضا ربانی نے کہا کہ مخصوص پارٹی کو آگے لایا جارہا ہے، نیب کے چشمے میں صرف ن لیگ اور پیپلزپارٹی ہے، مصدق ملک کا کہنا تھا کہ پکڑ دھکڑ شروع ہے، عثمان کاکٹر نے کہا کہ ای سی ایل سے زلفی بخاری کو کس طرح نکالا گیا، اسٹیبلشمنٹ اور سیاسی جماعتوں کے مابین مقابلہ ہے۔ تحریک انصاف کے سینیٹر شبلی فراز کا کہنا تھا کہ پورے ایوان کی کمیٹی بنا کر چیف کمشنر سے بریفنگ لی جائے، بدگمانیاں نہ پھیلائی جائیں، سینیٹر شیری رحمٰن نے کہا کہ معاملہ بہت سنگین ہے ہمارے بہت سے تحفظات ہیں جن کا حل فوری ہونا بہت ضروری ہے ورنہ پورا الیکشن ایسی صورت میں متنازع ہوجائے گا، ہماری لیڈرشپ کو الزام دیکر انہیں الیکشن مہم میں بدنام کرکے انتخابات پر اثر انداز ہو رہے ہیں۔ میڈیا پر ان دیکھی سنسر شپ لگی ہوئی ہے، ایسے اقدامات میں نے ضیاء الحق کے مارشل لاء میں دیکھے تھے یا اب دیکھ رہی ہوں۔وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات علی ظفر نے سینیٹ میں سکیورٹی دینے اور دہشت گردی پراپنے بیان دیتے ہوئے کہا کہ نگران حکومت کی کوشش ہے کہ تمام امیدواروں کو سکیورٹی دی جائے اور دہشت گردی کے واقعات کی روک تھام کی جاسکے جس پر چیئرمین سینٹ صادق سنجرانی نے کہا کہ اس بارے میں قائم کمیٹی کو معاملہ ریفر کردیا ہے جو ایک ہفتے میں اس کی رپورٹ ایوان میں پیش کریگا۔ اجلاس کے دوران میڈیا پر غیر اعلانیہ سنسرشپ کے خلاف صحافیوں نے پریس گیلری سے واک آئوٹ کیا۔ قائد ایوان راجہ ظفر الحق نے نکتہ اعتراض پر کہا کہ سینیٹ اس وقت واحد پارلیمان کا ادارہ ہے جو کام کر رہا ہے ایسی صورت میں روز روز جو حالات پیش آرہے ہیں ان کا مداوا کرنے کیلئے اجلاس جاری رہنا چاہیے جب تک الیکشن نہ ہو جائیں۔ سینیٹر رضا ربانی نے کہا کہ اس الیکشن میں جس طرح جانبداری اور ایک مخصوص پارٹی کو آگے لایا جارہا ہے اس سے الیکشن نہ صرف مشکوک ہونگے بلکہ متنازع ہوجائینگے۔ یہ تاثر نہ دیا جائے کہ اس ملک کے اندر جو کچھ ہورہا وہ ایک خاص پارٹی یا شخص کے کہنے پر ہورہا ہے۔ الیکشن کمیشن نے فوج کو پولنگ اسٹیشن کے اندر طلب کیا ہے بتایا جائے ان کو کیا اختیارات دیئے گئے ہیں۔کہا جا رہا ہے کہ ان کو جومجسٹریٹ کی پاورز دی گئی ہیں،الیکشن کا فوٹو انکی اجازت سے جائے گا۔ الیکشن کمیشن ایوان میں آکر وضاحت کرے کہ اسکے ٹی او آرز کیا ہوں گے اور کیا کوڈ ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ امیدواروں کو پارٹی سے دستبردار کون کروا رہا ہے اور کون ان پر دبائو ڈال رہا ہے؟نگران وزیر دفاع بھی ایوان کو آکر بتائیں۔ جو لوٹے وفاداریاں تبدیل کرکے دوسری پارٹی میں چلے گئے وہ صاف ہوگئے ہیں۔ ان لوگوں کا احتساب کون کریگا؟سینیٹر مصدق ملک نے کہا کہ لاشوں کی سیاست نہ کریں گرنے دیں لاشیں۔ کب تک عوام کی بات بند کرکے رکھیں گے۔ آئین ہمارا محافظ ہے۔ جو تحفظ سینٹ کو دیا گیا وہ ہی تحفظ لوکل باڈیز کو مل رہا ہے۔ آئینی تحفظ حاصل کرنے والے اداروں کو کیسے معطل کیا جا سکتا ہے۔ الیکشن کمیشن یہ کیسے کررہا ہے۔ ہم خوفزدہ ہو گئے ہیں کہیں ہمیں معطل ہی نہ کردیں۔ دفعہ 144 لگائی جارہی ہے۔ لوگوں کی پکڑ دھکڑ شروع ہے۔ سینیٹر مولا بخش چانڈیو نے نکتہ اعتراض پر کہا کہ الیکشن اور جمہوریت کو مشکوک بنانا پاکستان کے مستقبل کو مشکوک بنانے کے مترادف ہے۔ کچھ ادارے آصف زرداری کا نام لے لیتے ہیں تو دوسرے ادارے شروع ہوجاتے ہیں۔ نواز دور میں میں نے کہا تھا ایک لاڈلہ کھیلنے کو اسمبلی مانگ رہا تھاجس کا جان چوہدری نثار ہے، آج ایک لاڈلہ کھیلنے کو پورا پاکستان مانگ رہا ہے جس کا نام عمران خان ہے۔ سینیٹر عثمان کاکڑ نے کہا کہ عوام اور پارلیمنٹ کی اہمیت کم کی جارہی ہے،یہ قابل قبول نہیں ہے۔الیکشن میں مداخلت ہورہی ہے۔ نیب متحرک ہے۔ سابق وزیراعظم اور سابق صدر سمیت مختلف پارلیمنٹیرین کے خلاف نیب متحرک ہے یہ لوگ سیاسی پارٹیوں کو بدنام کررہے ہیں۔ چیئرمین نیب جو کررہے ہیں وہ جوابدہ ہونگے۔ ای سی ایل میں زلفی بخاری کو کس طرح نکالا گیا۔ سینیٹر شبلی فراز نے کہا کہ ہم جیتتے جارہے ہیں،اگلی حکومت بنائیں گے۔ جو تین تین بار حکومتیں کرنے والی پارٹیوں نے ہمیں یہ پاکستان دیا ہے اس ہائوس کو نہ استعمال کیا جائے۔ اس ہائوس کو استعمال نہیں ہونے دینگے ایک نیا پاکستان بننے جارہا ہے۔ وہ پاکستان جس میں قانون کے مطابق کام ہونگے۔سینیٹر رحمٰن ملک نے کہا کہ پوری قوم کے نظریں سینیٹ پر ہیں۔ روڈ میپ ہونا چاہئے پی پی پی کی جس انداز میں تذلیل کی گئی آصف زرداری کا نام ای سی ایل پر ڈالا گیا یہ سب غلط ہے۔ سپریم کورٹ نے کہا کہ نام نہیں ڈالا۔ نگراں حکومت ہم سے معافی مانگے۔ عوامی اہمیت کے حامل ایشوز پرساجد میر، سینیٹر بحر مند اورسعدیہ عباسی نے بھی اظہار خیا ل کیا۔ سینیٹ اجلاس کے دوران میڈیا پر غیر اعلانیہ سنسرشپ کے خلاف صحافیوں نے پریس گیلری سے واک آئوٹ کیا، وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات بیرسٹر سید علی ظفر اور سینیٹر رحمن ملک کے ساتھ مذاکرات اور مسئلہ کے حل کیلئے فوری اقدامات کی یقین دہانی کے بعد صحافیوں نے احتجاج ختم کیا۔