ہزارہ کو صوبہ بنانے کا معاملہ جو شعلے سے چنگاری بنتا جا رہا تھا ایک مرتبہ پھر شعلہ بننے جا رہا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ہزارہ کے عوام نے دو مرتبہ ہی کسی بھی تحریک میں بھرپور دلچسپی کا مظاہرہ کیا ۔ایک 1947ء میں جب قیام پاکستان کے موقع پر مختلف علاقوں میں استصوابِ رائے کروایا گیا۔ اس وقت بھی خدائی خدمتگار تحریک کی سخت مخالفت کے باوجود ہزارہ کے لوگوں نے سو فیصد ووٹ دے کر صوبہ سرحد کو پاکستان میں شامل کرایا اور دوسری دفعہ اپریل2010ء میںجب قومی اسمبلی میں اٹھارویںترمیم میں صوبہ سرحد کا نام تبدیل کیا گیا تو سوئے شیروں نے انگڑائی لی اور ایسی زبردست تحریک چلائی جس کی مثال نہیں ملتی۔ اس تحریک کے دوران 7لوگ شہید اور سینکڑوں زخمی ہوئے۔ تمام قومی اور علاقائی جماعتیں ہزارہ کی سطح پر ایک پلیٹ فارم پر اکٹھی ہوئیں، اولاً بابا حیدر زمان اور بعد میں سردار یوسف نے اس مشترکہ پلیٹ فارم کی قیادت کی۔ حال ہی میں وفاقی حکومت نے فاٹا کو صوبہ خیبر پختونخوا میں شامل کرنے یا الگ صوبہ بنانے کے لئے مشیر خارجہ سرتاج عزیز کی قیادت میں فاٹا ریفارمز کمیٹی تشکیل دی ہے۔ اس سے ہزارہ کے عوام میںشدید تحفظات پیدا ہوئے ہیں۔ ہزارہ کے عوام میں پہلے ہی سے محرومیاں موجو د ہیں۔ اب اگر فاٹا کو خیبرپختونخوا میںضم کر دیا گیا تو یہ چنگاری شعلہ خاکستر بن جائے گی۔ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ صوبہ خیبر پختونخوا کے کل بجٹ کا 19%ہزارہ کو ملنا چاہئے لیکن گزشتہ کئی سالوں سے ہزارہ کو اوسطاً 6.1% حصہ الاٹ ہو تا ہے جبکہ خرچ اس سے بھی کم ہو تا ہے اور اس طرح تعلیم، صحت، انفراسٹرکچر اور غربت کے تناسب سے بھی جو بجٹ ملنا چاہئے تھا وہ نہیں مل رہا۔ ملازمتوں میں بھی ہزارہ کا حصہ بہت کم ہے حتیٰ کہ ہزارہ یونیورسٹی مانسہرہ میں بھی ہزارہ سے زیادہ دوسرے علاقوںکے ملازمین ہیں۔
1998ء میں جب ملک میں مردم شماری کے بعد صوبہ سرحد کی 9 سیٹیں بڑھائی گئیں تو ہزارہ کی ایک سیٹ بھی نہیں بڑھائی گئی اس سے بجا طور پر علاقہ کے لوگوں میں محرومی کا احساس پیدا ہوا اور یہ احساس بڑھتے بڑھتے اپریل2010 میں ایک شعلہ جوالہ بن گیا۔ مئی2013ء کے الیکشن سے قبل موجودہ وزیراعظم میاں محمد نواز شریف، تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان، جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن، جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق سمیت تمام قومی رہنمائوں نے اپنے جلسوں میں ہزارہ صوبہ کی بھر پور حمایت کی تھی مگر حکومت ملنے کے بعد سب کو اپنے وعدے بھول گئے۔ سردار محمد یوسف جو کہ آل پارٹیز صوبہ ہزارہ تحریک کے چیئرمین تھے، وفاقی وزیر بن گئے۔ سردار یوسف کی سر براہی میں 2013 کے بعد ہزارہ بھر کے منتخب نمائندوں کے 4 بھرپور اجلاس منعقد ہوئے ہیں۔ جن میں ہزارہ کے تمام ایم این ایز اور سینیٹرز شریک ہوتے رہے۔ انہی اجلاسوں کے نتیجے میں مارچ 2015 میں صوبہ خیبر پختونخوا اسمبلی میں صوبہ ہزارہ کی قرارداد کثرت رائے سے منظور کی گئی۔حال ہی میں جب فاٹا ریفارمز کمیٹی بنی تو اس کے فوراً بعد ایبٹ آباد میں صوبہ ہزارہ تحریک کا اجلاس منعقد ہوا ۔ جس میں ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی مرتضیٰ جاوید عباسی، صوبائی وزراء، ایم این ایز ، ایم پی ایز، سینیٹرز اور ضلعی و تحصیل ناظمین نے شرکت کی جس میںہزارہ کی کمیٹی کو ہزارہ کے عوام کی قومی سطح پر نمائندگی کا اختیار دیا گیا جبکہ یہ مطالبات بھی کئے گئے کہ وفاقی حکومت فاٹا کو صوبے میں نہ شامل کرے بلکہ فاٹا کے عوام کو آئینی حقوق دیئے جائیں لیکن ہزارہ کو صوبہ بنایا جائے کیونکہ ہزارہ صوبہ کا مطالبہ لسانی، نسلی یو فروعی بنیادوں پر نہیں بلکہ خالصتاً انتظامی بنیادوں پر ہے اور صوبے سے متعلق کوئی بھی نیا فیصلہ کرنے سے قبل مردم شماری کروائی جائے ۔
فاٹا کو خیبرپختونخوا میں شامل کرنے کے حوالے سے ہزارہ کے عوام شدید تحفظات رکھتے ہیں اور اس کے پیچھے ٹھوس وجوہات ہیں۔ وسائل کی تقسیم میں ہزارہ کا پہلے ہی سے آخری نمبر ہے، اس اقدام سے وہ مزید آخر میں چلے جائیں گے۔ہزارہ کے عوام چونکہ اس مسئلہ کے اہم ترین فریق ہیں، اس لئے انہیں اعتماد میں لیا جانا ازحد ضروری ہے ۔
اس وقت ہزارہ ڈویثرن کی طرف سے سب سے زیادہ ریونیوجا تا ہے۔تربیلا ڈیم سے کھربوں کی آمدن ہو رہی ہے جبکہ خان کھواڑ، الائی، داسو اور سکھی کناری ڈیم زیر تعمیر ہیں۔ پا ک چائنا کاریڈور بھی اسی علاقے سے ہو کر گزرے گا۔ ہزارہ کے جنگلات سے حکومت کو 20ارب سے 25ارب روپے کی آمدن ہو سکتی ہے جبکہ سیروسیاحت کے حوالے سے بھی یہ علاقہ پوری دنیا میں مشہور ہے لیکن انفراسٹرکچر کی حالت قابل رحم ہے۔ ناکافی سہولتوں کے باوجود پوری دنیا سے سیاحوں کی آمد سے اربوں کی آمدن ہوتی ہے۔ صوبے کے تین انڈسٹریل زونز میں سے اس وقت سب سے زیادہ فعال ہزارہ بیلٹ کا انڈسٹریل زون ہے۔ یہاں پر دنیا کی بہترین چائے اور اعلیٰ درجے کا تمباکو پیدا ہوتا ہے۔ ان ساری چیزوں کو اگر مربوط کیا جائے تو ہزارہ ہی وہ صوبہ ہو گا جہاں سے مرکز کو تقویت ملے گی۔
ہزارہ تحریک میں شامل تمام جماعتیں قومی سطح پر اپنا اپنا موقف رکھتی ہیں لیکن ہزارہ صوبہ کے معاملہ پر تمام رہنما اور جماعتیں ایک پیج پر ہیں۔ ہزارہ کے تمام نمائندوں کیلئے یہ موقع ہے کہ وہ اپنا اپنا کردار ادا کریں اگرچہ انہیں اس بات کا ادراک ہے کہ اس دفعہ بھی اگر کوئی ایسا فیصلہ سامنے آیا جو ہزارہ کے عوام کیلئے نا قابلِ قبول ہوا تو پھر انہیں دوبارہ صف بندی کیلئے صدیاں درکار ہوں گی ۔ اس لئے پوائنٹ اسکورنگ کے بجائے حقیقی کام کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ منطقی دلائل سے دوسروں کو تو مطمئن کیا جا سکتا ہے لیکن حقیقت حال چھپائی نہیں جا سکتی۔ ہزارہ کے نمائندے اگر متفق، متحد ، یکجان اور علاقہ سے وفادار رہے تو پھر کوئی فیصلہ ان کی مرضی کے خلاف نہیں کیا جا سکے گا۔ سات ایم این اے ، چوبیس ایم پی ایز اور پانچ سینیٹرز اگر ایک پیج پر ہوں تو کیا اُن کو کوئی نظر انداز کر سکتا ہے؟