• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
آج نومبر کی 12 تاریخ ہے اور یوں لگتا ہے کہ ایک اور عام سا دن ہے جو باقی دنوں کی طرح گزر جائے گا مگر آج ملک عزیز میں کیا ہورہا ہے یہ نوٹ کرنا ضروری ہے۔ اندازہ ہوجائے گا کہ ملک کدھر جارہا ہے‘ حکومت کے کیا ارادے ہیں‘ عدلیہ اور فوج اور میڈیا اور باقی لوگ کس شکار کی تلاش میں ہیں۔ شروع کریں عدلیہ سے تو آج سپریم کورٹ میں جو کیس چلیں گے ان کی لسٹ ہی کسی عام آدمی کو پریشان کرنے کیلئے کافی ہے۔ مثلاً آج کا دن شروع ہوگا میموگیٹ کے کیس سے جسے ایک بڑا بنچ سنے گا۔ اس کیس میں فیصلہ تو جناب حسین حقانی کے مستقبل کا ہونا ہے مگر یہ ایک عملی نہیں بلکہ علمی سوال ہے (Academic not practical) کیونکہ کچھ بھی فیصلہ ہوجائے حقانی صاحب پاکستان واپس نہیں آئیں گے اور بحث یہی ہوگی کہ کیا ان کے خلاف غداری کا مقدمہ بنے گا‘ کیا ان کے ریڈ وارنٹ جاری ہوں گے کیا وہ امریکہ میں سیاسی پناہ لے لیں گے‘ کیا کوئی اور ان کے ساتھ ملزم ٹھہرایا جائے گا وغیرہ وغیرہ مگر ایک دوسرے زاویئے سے دیکھیں تو یہ کیس فوج کی اعلیٰ قیادت کے بیانات کی روشنی میں عدلیہ نے حکومت کے خلاف سننا ہے یعنی اس لڑائی میں عدلیہ اور فوج ایک طرف اور جناب زرداری‘ حقانی اور دوسرے ایک طرف۔ مرنے کی بات ہے کہ 13 درخواستیں حکومت کے خلاف دائر ہیں جن میں جناب نواز شریف بھی شامل ہیں جبکہ حسین حقانی نے 10 درخواستیں مختلف لوگوں کے خلاف دائر کی ہوئی ہیں۔ آج جو کیس شروع ہوگا اس میں ایک امریکی کردار منصور اعجاز غائب ہوں گے کیونکہ ان کا رول ختم ہوگیا اور میموکمیشن نے اپنی رپورٹ دے دی کہ وہ ایک قابل اعتبار شخص ہیں اور ان کی دی ہوئی شہادتیں معتبر ہیں سو ان کے وکیل جناب اکرم شیخ بھی آج موجود نہیں ہوں گے آج ہی کے دن عدالت میں ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کا کیس بھی سنا جائے گا اس میں حکومت ایک طرف اور فوج اور عدلیہ دوسری طرف ہیں۔ اس کیس کے ساتھ بابر اعوان کے لائسنس کا بھی فیصلہ ہونا ہے۔ تیسرا کیس ایک کرنل صاحب نے حکومت کے خلاف دائر کیا ہے اپنے کورٹ مارشل کے خلاف‘ جاوید جبار صاحب کا کیس کہ تمام Mass Media کو آزادی اظہار کا حق دیا جائے نہ کہ صرف اخبارات‘ نیب اور اوگرا کے خلاف رپورٹ پر عمل درآمد کا کیس‘ 3 توہین عدالت کے کیس‘ اعظم سواتی کا وزارت تیل کے خلاف کیس‘ خواجہ آصف کا کوٹے کا کیس اور عمر چیمہ جو ایک معروف صحافی ہیں ان کا دوہری شہریت کے کیس میں بیان‘ چوہدری نثار علی خان کا نیب کے چیئرمین کے خلاف کیس۔
یہ سب صرف ایک دن کا عدالتی ایجنڈا ہے۔ اگلے دن یعنی 13 نومبر کو فوج میں بغاوت کے ملزمان میجر جنرل ظہیرالاسلام‘ بریگیڈیئر مسنتصرباللہ کے کیس سنے جائیں گے۔ وہ کیا گل کھلاتے ہیں انتظار فرمائیے۔
تو عدالت میں جب یہ سب آج ہورہا ہوگا باہر الیکشن کمیشن میں جناب فخرالدین ابراہیم صاحب کوئی 212 اسمبلی کے ممبران کی قسمت کا فیصلہ کررہے ہوں گے۔ آج ہی FIA کی ٹیم بنے گی جو اصغر خان کیس کی تفتیش شروع کرے گی۔
آج ہی کے دن میڈیا کے چند بڑے ایوانوں میں بڑے بڑے فیصلے ہورہے ہوں گے کہ کون سا اینکر کہاں بیٹھے گا اور اگر کسی دباؤ کے تحت کسی اینکر کو فوج کے کہنے پر نکالاگیا تو ماضی کی طرح سارا میڈیا سراپا احتجاج بن جائے گا پھر حکومت کہاں کھڑی ہوگی اور عدالت کس کا ساتھ دے گی یہ بھی ایک نیا سینڈی کی طرح کا طوفان ہوگا۔ اینکر محمد مالک کے گھر پر فائرنگ نے صورتحال کو اور پیچیدہ کردیا ہے۔
یہ تمام تفصیل لکھنے کا مقصد یہ تھا کہ یہ بتایا جائے کہ ملکی حالات کہاں کھڑے ہیں۔ حکومت‘ عدلیہ‘ فوج‘ میڈیا اور سیاستدان کن لڑائیوں میں الجھے ہیں یا انہیں پھنسادیا گیا ہے اور دیگر حالات کدھر جارہے ہیں۔ میرا پورا یقین ہے کہ بعض حکومتی چال بازوں نے میڈیا کو فوج سے‘ عدلیہ کو میڈیا سے اور فوج کو میڈیا سے لڑانے کا گمبھیر منصوبہ بنایا ہے۔ ایک طرف عدلیہ کو زبردستی دھکے دے کر اصغر خان کیس کے فیصلے پر مجبور کیا گیا اور جب بساط الٹی نظر آئی تو عدلیہ پر کئی فائر کھول دیئے گئے یعنی صدر کا سپریم جوڈیشل کونسل کے فیصلے کو نہ ماننا‘ وزیر اطلاعات کا یہ دعویٰ کہ صدر کا حکم آخری حرف ہے ہر معاملے میں یا عدلیہ کے پاس آئین کی تشریح کا آخری اختیار نہیں ہے‘ یا یہ عدالت کا کام نہیں کہ گورننس کا فیصلہ کرے‘ یا ججوں کو کم بولنا چاہئے۔ ایک جج کے خلاف ریفرنس دائر کرنا وغیرہ وغیرہ۔ دوسری طرف میڈیا کے چند لوگوں کے ذریعے یہ تاثر دینا کہ جنرل کیانی کا بیان عدلیہ کے خلاف تھا یا کچھ مخصوص میڈیا گروپ کے مالکان کا یہ شکوہ کہ فوج نے دوبارہ بھرپور مداخلت شروع کردی ہے اور دباؤ ڈالا جارہا ہے کہ کچھ اینکرز کو ہٹایا جائے یا چپ کرایا جائے۔ یہ سب ملی بھگت ہے۔ فوج کو میڈیا سے لڑانے کی سازش گہری ہے۔ میڈیا کو فوج سے اور فوج کو میڈیا سے لڑنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ یہ ایک Deception پلان ہے۔
اصل مسئلہ وہ ہے جو برادر انصار عباسی نے اپنی ایک رپورٹ میں واضح کیا ہے کہ الیکشن کیلئے 7 کروڑ بانٹنا اہم ہے یا جو پچھلے چار سالوں میں کوئی 2 کھرب روپے بانٹ دیئے گئے حکومتی اداروں میں اور جن اداروں میں پی پی پی کے خاص لوگوں کو چن چن کر لگایا گیا۔ اربوں روپے کراچی کی KESC کو امداد دی گئی جبکہ سب کو معلوم ہے کہ KESC کن لوگوں کے حوالے کی گئی تھی۔ اسی طرح اسٹیل مل‘ PIA اور بے شمار اداروں کو مفت پیسے دیئے گئے اور کوئی پوچھ گچھ نہیں اب الیکشن اور حساب کا وقت آیا ہے تو اداروں کو تاریخ کے دفن شدہ جھگڑوں میں لڑا کر پھنسا دیا گیا ہے مگر کیونکہ عدالتیں آج کل کی اربوں کھربوں کی لوٹ مار کو بھول کر صرف ماضی کے چند کروڑ روپوں کی تقسیم میں نہیں الجھ رہیں اور حال اور ماضی دونوں ہی کے کیس چل رہے ہیں اس لئے عدالتوں پر حملے زور و شور سے ہورہے ہیں۔ اصغر خان کیس نے صرف 7 کروڑ کا حساب لینا ہے تو اگلے ہفتے طارق لودھی کے IB کے کیس میں 50 کروڑ کا حساب بھی مانگ لیا جائے گا اور کیونکہ شعیب سڈل اب اس کیس کے مرکزی کردار ہوں گے تو مجھے ڈر ہے ان کی جان کو خطرہ لاحق نہ ہوجائے کیونکہ وہ سب کچھ اگل سکتے ہیں۔ اسی طرح حسین حقانی سے 75 کروڑ روپے کا حساب مانگا جائے گا۔ کجا 7 کروڑ اور کجا 50 یا 75 کروڑ۔ سو اگر جنرل کیانی نے بیان دے کر ناراضگی ظاہر کی ہے تو بجا ہے۔ خالی جرنیلوں کا احتساب نہیں ان سے بڑے مافیا کے ڈان بیٹھے ہیں جو پورے کے پورے پہاڑ ہضم کرگئے ہیں، جمہوریت کو بچانے اور چلانے کے نام پر۔ میرا اور ہر شہری کا حق ہے جو ٹیکس دیتا ہے کہ بتایا جائے کہ واشنگٹن میں 76 کروڑ روپے کہاں خرچ ہوئے یہ ملکی مفاد کا ڈھونگ اور بہانہ اب نہیں چلے گا۔ اور یہی بات جنرل کیانی نے اپنے بیان میں کہی ہے کہ کسی ایک شخص کو ملکی مفاد کا ٹھیکیدار نہیں بنایا جاسکتا۔ آج سے عدالت میں اسی کا فیصلہ ہوگا۔
لہٰذا اب ہر ادارہ‘ عدلیہ‘ میڈیا‘ فوج‘ سیاسی پارٹیاں اور سول سروس والے اپنے اپنے گناہوں کے اقبالی بیانات تیار کرلیں۔ اگر امریکہ کی CIA کا سربراہ صرف اسی بات پر معافی مانگ کر نوکری چھوڑ کر گھر چلا جاتا ہے کہ وہ کسی دوشیزہ کی زلف کا اسیر ہوگیا شادی شدہ ہوتے ہوئے تو ہمارے ہاں تو گناہ گاروں کی ایک فوج ظفر موج ہے۔ یعنی اب کوئی Sacred Cow نہیں رہے گا اور اگر اس لڑائی کا فیصلہ نہ کیا گیا تو پھر دوسرے لوگ ہی ہمارا فیصلہ کریں گے۔ مجھے تو حیرانی ہوتی ہے کہ لوگ اور بڑے بڑے لکھاری‘ دوسروں کو نصیحت کرتے نہیں تھکتے‘ گالیاں دیتے بھی نہیں چوکتے مگر خود اپنے گریبان میں دیکھنے کو تیار نہیں۔ ایک جغادری صاحب لکھتے ہیں انہوں نے عمران خان کو مشورہ دیا کہ اگر خالی ہاتھ رہنا ہے تو سیاست کرنے کی کیا ضرورت ہے یعنی کھانا پینا نہیں تو خالی گلاس توڑنے ہوٹل آنے کی کیا ضرورت ہے۔ عمران خان نے تو ان کی بات نہیں مانی مگر خود انہوں نے کوئی کسر نہ چھوڑی ہر حکومت میں فوراً لوٹا پالیسی اپنائی اور کالم لکھتے لکھتے کئی مرسڈیز گاڑیاں گھر کے سامنے نظر آنے لگیں۔ اگر سیاست میں خالی ہاتھ رہنا بیکار ہے تو صحافت میں بھی یہی اصول انہوں نے اپنا کر دکھایا دنیا کو لیکچر دینا سب سے آسان کام ہے ایک بنکر میں بیٹھ کر ابھی تو بہت سی ”کہانیاں“ کھلیں گی اور کئی لسٹیں بنیں گی۔
آج کا دن کیسے گزرے گا یہ آنے والے دنوں کی نشاندہی کرے گا۔ اصغر خان اور IB کیس بڑے بڑے بت پاش پاش کریں گے۔ اور آخری بات: وزیراعلیٰ بلوچستان نے گاڑی کو ٹکر ماری کیا ان کے خلاف FIR کٹی؟ کیا وزیراعظم راجہ صاحب کوئٹہ میں کابینہ کا اجلاس نہیں کرسکتے تھے جو گوادر جانا پڑا۔
تازہ ترین