• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پوٹن اور ٹرمپ کی ملاقات

بالآخر فن لینڈ کے دارالحکومت میں امریکا اور روس کے صدور کی ملاقات ہوہی گئی۔ سولہ جولائی کو ہونے والی ملاقات کے بعد ڈونلڈ ٹرمپ نے دعویٰ کیا کہ انہوں نے پوٹن سے بہ راہ راست پوچھا کہ آیا انہوں نے 2016ء کے امریکی صدارتی انتخابات میں مداخلت کی تھی؟ظاہر ہےکہ اس قسم کے سوال کا جواب کیا ہوسکتا تھا۔ صدرپوٹن نےصاف انکار کردیا۔

اس قضیے کا پس منظر یہ ہے کہ 2016ء کے امریکی صدارتی انتخابات میں ٹرمپ اور ان کی مخالف امیدوار ،ڈیموکریٹک پارٹی کی ہلیری کلنٹن میں سخت مقابلہ تھا۔انتخابی مہم کے دوران ٹرمپ بہت بے و قو فی کی باتیں کرتے رہے،لیکن ہلیری نے خاصی سمجھ داری سے مہم چلائی تھی اور آخر تک سب کو یقین تھا کہ وہ ٹرمپ کو شکست دے دیں گی۔مگر جب انتخابات کے نتائج آئے تو معلوم ہوا کہ ڈونلڈ ٹرمپ جیت گئے ہیں اور وہ بھی بھاری اکثریت سے۔ اب ایک طرف تو امریکی عوام کی سبکی ہوئی کہ یہ کس احمق کو منتخب کرلیا اور دوسری طرف امریکی نظام کی خامی واضح ہوئی کہ ان کے نظام میں ٹرمپ جیسے صدر کو ہٹانے کا کوئی طریقہ کار نہیں ہے، تاوقت یہ کہ وہ کوئی غیر قانونی کام کریں۔دراصل امریکا میں صدر کا مواخذہ تو ممکن ہے، مگر اس صورت میں جب وہ کسی بڑی غیر قانونی سرگرمی میں ملوث ہو۔ صرف بے وقوفی کی باتیں کرنے پر صدر کو نہیںہٹایاجاسکتاجیساکہ پارلیمانی نظام میں ممکن ہے کہ برسراقتدار پارٹی پارلیمان میں اپنا نمائندہ بدل کر کسی اور کو سربراہ بناسکتی ہے۔

جب ٹرمپ جیت کر آگئے تویہ الزامات لگناشروع ہو ئے کہ دراصل انہوں نے روسی مدد سے فتح حاصل کی ہے، کیوں کہ اس وقت وہ روس کے بارے میں خاصے تعریفی جملے کہہ رہے تھے اورپوٹن کے لیے بھی رطب اللسان تھے۔پھرامریکی ریاستی مشینری نے ا س بات کی تحقیقا ت شروع کیں کہ روس نے کس طرح امریکی صدارتی مہم میں مداخلت کی۔ تھوڑی تفتیش کے بعد یہ بات سامنے لائی گئی کہ رو س نے امریکی سیاسی جماعتوں ، صدارتی ا مید و ا ر و ں اور خود ریاستی مراکز کے کمپیوٹرز تک رسائی حاصل کرلی تھی۔یوں ہلیری کی انتخابی مہم کو نقصان پہنچا اور ٹرمپ کو جتایا گیا۔ڈونلڈ ٹرمپ شروع ہی سے ان الزامات کی تردید کرتے آئے ہیں اور روس تو خیر کیا مانتا۔تاہم دو سا ل سے یہ بات وقتاً فوقتاً سامنے لائی جارہی ہے اور کوشش کی جارہی ہے کہ اگر ٹرمپ کو کسی اور طریقے سے ہٹانا ممکن نہ ہو تو ان پر روسی مدد کا الزام لگادیا جائے جو دھاندلی کے زمرے میں آجائے گا اور اس طرح ٹرمپ کو ان کے عہد ے سے برخاست کیا جاسکے گا۔

حالیہ ملاقات کے بعد بھی صدرپوٹن نے سختی سے ان الزامات کی تردید کی۔ یاد رہے کہ گزشتہ ہفتے ہی امریکی محکمہ انصاف نے بارہ روسی سرکاری اہل کاروں کو مورد الزام ٹھہرایا ہےکہ انہوں نے ڈیموکریٹک پارٹی کے کمپیوٹرز ہیک کرلیے تھے۔یعنی ان تک غیرقانونی رسائی حا صل کرکے ڈیٹا اور دیگر معلومات میں ردوبدل کرکے ہلیری کی انتخابی مہم کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا تھا جس کے نتیجے میں ٹرمپ جیت کر برسراقتدار آئےتھے۔ حالیہ ملاقات کے بعد ٹرمپ نے یہ بھی کہا کہ انہیں امریکا کے جاسوسی کے اداروں پر بھروسہ ہے جو یہ کہتے ہیں کہ 2016ء کے انتخابات میں روس نے مداخلت کی تھی۔ اس کے ساتھ ہی ٹرمپ نے کہا کہ صدرپوٹن نے اس بات کی سختی سے تردید کی ہے۔یہ ایک طرح کی گول مول بات تھی جو صدر کے عہدے کا آدمی کررہا تھا۔ یعنی ایک طرف وہ اپنے اداروں پر اعتماد کا اظہار کررہے تھے اور دوسری طرف پوٹن کے طاقت ور موقف کا بھی اعتراف کررہے تھے۔ اس کے ساتھ ہی ٹرمپ نے یہ اشارہ بھی دیا کہ غالباً صدرپوٹن کی تردید ٹھیک تھی اور کوئی وجہ نہیں کہ اس تردید کو قبول نہ کیا جائے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر صدر ٹرمپ،پوٹن کی تردید تسلیم کرسکتے ہیں تو پھر ان کے اپنے اداروں پر اعتماد کا کیا جواز ہے۔

ایسا معلوم ہوتا ہے کہ صدر ٹرمپ خود اپنے اداروں سے ڈرے ہوئے ہیں، اس لیے کھل کر اس بات کا اظہار نہیں کررہے کہ جاسوس اداروں کی اطلاعات غلط بھی ہو سکتی ہیں۔دراصل اگر صدر ٹرمپ،پوٹن کی تردید کو رد کر د یتےہیں تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ وہ روسی مداخلت کو تسلیم کرتے ہیں جس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ خود ان کا عہدہ خطرے میں پڑجائے گا ۔اسی لیے وہ دونوں باتیں بہ یک وقت کہہ رہے ہیں۔ یعنی پوٹن بھی ٹھیک ہیں اور امریکی جاسوس ادارے بھی۔ اس کے ساتھ ہی ٹرمپ نے اعلان کیا کہ ملاقات کے دوران پوٹن نےایک ’’ناقابل یقین‘‘ پیش کش کی ہے اور امریکی تفتیشی اداروں کے کارندوں کو ا پنے روسی ہم پلہ افسروں کے ساتھ کام کرنے کی دعوت د ی ہے۔تاہم انہوں نے یہ نہیں بتایاکہ اس دعوت میں بڑی بات کیا ہے۔دراصل صدر پوٹن نے ایک طرح سے ٹرمپ کو الو بنایا اور یہ کہا کہ اگر آپ کے جاسوس ادارے کو روس پر شک ہے تو وہ آئیں اور ہم انہیں اجاز ت دیتے ہیں کہ وہ روسی تفتیشی افسروں کے ساتھ مل کر کام کریں۔ ظاہر ہےکہ ٹرمپ جس پیش کش کو ’’ناقابل یقین‘‘ قرار دے رہے ہیں وہ ایک روسی پھندہ ثابت ہوسکتا ہے، مگر ٹرمپ اسے اپنی بڑی کام یابی قرار دے رہے ہیں۔

ملاقات کے بعد ٹرمپ نے یہ بھی کہا کہ پوٹن سے ملاقات سے قبل امریکا اور روس کے تعلقات تاریخ کی نچلی ترین سطح پرتھے۔ مگر اس ملاقات کے بعد ان میں ایک مثبت موڑ آگیاہے۔ٹرمپ کے ڈیڑھ سالہ دور صدارت میںیہ بات تو واضح ہوگئی ہے کہ ان کا ذخیرہ الفاظ بہت مختصر ہے جس کی وجہ سے وہ چند الفاظ بار بار استعمال کرتے ہیں۔مثلا ’’عظیم‘‘ ’’ناقابل یقین‘‘ ، ’’شان دار‘‘ یا ’’بہت اچھا‘‘ ، ’’اتنا اچھا کہ بس کیا بتائوں‘‘ ۔ اس طرح کے الفاظ وہ بہت معمولی باتوں کے لیے بھی ا ستعما ل کر تےہیں۔جب ان کی شمالی کوریا کے سربراہ سے ملاقات ہوئی تو انہوں نے اسے بھی بہت بڑی کام یابی قرار دیاتھا،حالاں کہ اس میںسے ’’کھودا پہاڑ، نکلا چوہا‘‘کے مصداق اب تک کچھ برآمد نہیں ہوا ہے۔اسی طرح پوٹن سےحالیہ ملاقات کو بھی وہ بڑھا چڑھا کر پیش کررہے ہیں۔دوسری جانب پوٹن نے بڑ ے نپے تلے الفاظ میں ا س ملاقات کو کام یاب اور کارآمد قرار دیا۔ صدر ٹرمپ نے اپنے اداروں کی حالیہ تفتیش کو بھی مورد الزام ٹھہرایا اور کہا کہ اس تفتیش سے امریکا اور روس کے تعلقا ت بہت خراب ہوگئے تھے۔آخر میں ٹرمپ نے اپنے دل کی بات کہہ ہی دی کہ انہوں نے صدارتی انتخاب میں کام یابی اپنی بہتر انتخابی مہم کے نتیجے میں حاصل کی تھی اور اس کا سہرا کسی اور کے سر باندھنا یا کسی کو مورد الزام ٹھہرانادرست نہیں۔

بہ ظاہر یہ ملاقات روس کی فتح نظر آتی ہے،کیوں کہ صدر ٹرمپ روس سے کچھ بھی نہ منواسکے۔ مثلاً ایران اور شام کے مسئلے پر پوٹن نے کوئی واضح وعدے نہیں کیے ۔ حا لاں کہ امریکا کو توقع تھی کہ وہ روس کو مجبور کرے گا کہ وہ ایران اور شام کی حمایت بند کردے ۔مگر ایسی کوئی بات نہ ہوسکی۔ نہ ہی روس کو کریمیا کے علاقے پر قبضے سے دست بردار کرانے میں ٹرمپ کام یاب ہوسکے۔ بلکہ الٹا یہ ہوا کہ ٹرمپ نے روس کو کام یابی سےعالمی فٹ بال ٹورنا منٹ منعقد کرانے پر مبارک باد پیش کی۔

صدر ٹرمپ جو اپنے آپ کو کاروباری سودوں کا ماہر بناکر پیش کرتے رہے ہیں، ڈیڑھ سالہ دور اقتدار میں کوئی بھی قابل ذکر کام یابی حاصل نہیں کرسکے ہیں۔ انہیں زیا د ہ سے زیادہ ایک ایسا بڑ بولا کہا جاسکتا ہے جو مسلسل شیخی بگھارتا رہتا ہے اور اپنی ایسی کام یابیوں کا ذکر کرتا ہے جو دراصل امریکا کے لیے بین الاقوامی سبکی کا باعث بن رہی ہیں۔ مگر ٹرمپ اپنی حرکتوں سے باز نہیں آرہے ہیں۔ ڈ یڑ ھ سال میں امریکا نے نہ صرف چین اور روس بلکہ چھوٹے ممالک، مثلا ایران اور شام سے بھی مات کھائی ہے اور آ نے والے برس امریکا کو مزید پس پائی کی طرف لے جا ئیں گے ۔مگر کیا کریں کہ امریکا کو پیچھے ہٹانے والےتمام ملک بھی سرمایہ دار ہی ہیں۔

تازہ ترین