• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ٹرمپ کا دورہ یورپ

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اپنے ساتویں سات ملکی دو رے پر گزشتہ دنوںیورپ میں موجود تھے۔انہوںنے ہیلسنکی میں روس کے صدر پوٹن سے بھی مذاکرات کیے۔ صدر ٹرمپ کا یہ دورہ اس لحاظ سے بہت اہم تھا کہ اس کے آغاز میں وہ برسلز گئے جہاںانہوں نےنیٹو کا نفر نس میں شرکت کی۔ وہ گزشتہ برس بھی نیٹو کانفرنس میں شرکت کر نے کی غرض سے برسلز گئےتھے۔

صدر ٹرمپ کا رویہ نیٹو کے حوالے سے اپنے پیش روسےیک سر مختلف ہے۔وہ نیٹو کے اخراجات میں امریکا کے دیگر اتحادیوں کے حصے کو ضرورت سے کم تصور کرتے ہیں جس کی وجہ سے نیٹوکے ر کن ممالک ان کے حوالے سے ایک مشکل رہنما کاتصور ر کھتے ہیں۔ صدر ٹرمپ نے نیٹوکےاجلاس میں شرکت کرنے سے قبل نیٹو کے سیکریٹری جنرل جینز اسٹولٹن برگ سے ملاقات کی۔اس ملاقات کے حوالے سے نیٹو میں امریکی سفیر نے کہا کہ اس کا ایجنڈا بالکل واضح تھا کہ روس کو روکنے کے لیے کیا حکمت عملی ہو نی چاہیے اورروسی سرگرمیوں کو کس حوالےسےدیکھناچا ہیے۔ صدر ٹرمپ کا نیٹو کانفرنس میں بھی بنیادی زور اور حکمت عملی روس ہی کے حوالے سے نظر آئی۔ انہوں نے یوکرین اور جارجیا کے روس سے تعلقات اور ان مسائل کے حوالے سے روس سے اختلافات پر وہاں موجود نیٹو کے دیگر رکن ممالک کے نمائندوںکے سامنے اپنا نکتہ نظر کھل کر بیان کیا۔انہوں نے نیٹو ممالک کے لیے روسی خطرے کی بجتی ہوئی گھنٹیوں یعنی روس کی جانب سے Intermediate Range Nuclear Forces Treaty کی خلاف ورزیوں پر بھی اپنے خیالات بلکہ تشویش کا اظہار کیا۔

دراصل نیٹو کے ممالک صدر ٹر مپ کا معاندانہ رویہ روسی اقدامات کے سبب برد اشت کرنے پر مجبور ہیں ، کیو ں کہ وہ اپنی سلامتی کے معاملات کو امریکاکی طاقت کے تناظر میں دیکھتے ہیں اور ٹرمپ یورپ کی اس مجبوری کا مکمل طور پر فائدہ اٹھانے کے موڈ میںہیں۔ اسی لیے ا نہو ں نےاپنے دورے کے اگلے مرحلے میںلندن میں اس قسم کی گفتگو کی کہ یورپی یونین تجارت کے حوالے سے ہماری دشمن ہے،جب کہ وہ اس کے بعد صدر پوٹن سے ملنے کےلیے روانہ ہونے والے تھے۔اگر چہ اس بیان کے فوراً بعد یورپی یونین کی طرف سے امریکاکو دوست اور اس خبر کو’’Fake News‘‘کہہ کر جان چھڑانے کی کوشش کی گئی، لیکن وائٹ ہائوس کے مکین کی جانب سے ایسے بیان کوہلکے پھلکے اندازمیں نظر انداز کرنے کی کوشش کی کوئی اہمیت نہیں،کیوں کہ یہ واضح ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ اس حکمت عملی پر کاربندہے کہ اس کے جو ماضی میں دوست رہے ہیں اور آج تک حلیف تصور کیے جاتے ہیں ان سے نسبتاً سخت رویہ اپنایاجائےاورپرانے د شمنو ں کےلیےنئےدروازے تعمیر کیے جائیں۔پرانے د شمنو ں میں روس اور چین کے بعد شمالی کوریا کی جانب ان کے بڑھتے قدم اس بات کی غمازی کرتے ہیں کہ امریکا دنیا کو اب یورپ کی نظر سے نہیں دیکھ رہا۔ بلکہ وہ دنیا میں نئی حقیقتیں جنم دینے کی اپنی حکمت عملی پر کاربند نظر آ رہا ہے۔

صدر ٹرمپ نے لندن آمد کے بعد ایک کاروباری نوعیت کی دعوت میں شرکت کی۔ وہ ونڈسر کیسل میں ملکہ ایلزبتھ سے چائے کی دعوت پر ملنے بھی گئے ۔ لیکن ان کی اہم ترین ملاقات برطانوی وزیر اعظم تھریسا مے سے ہو ئی۔اس ملاقات کی حقیقت یہ ہے کہ دونوں ممالک میں تجارتی امور اور بریگزٹ کے بعد برطانیہ کے یورپی یو نین سے تعلقات کی نوعیت پر اختلافات گہرے محسوس ہو ئے ۔ تھریسا مے نے اس ملاقات کے بعد ایک انٹرویو میں بیا ن کیا کہ صدر ٹرمپ نے انہیںیورپی یونین سے بر یگزٹ کے بعد کی صورت حال پر مذاکرات نہ کرنے کا مشورہ دیتے ہوئے تجویز کیا ہے کہ مذاکرات کے بجائے انہیں SUO کیا جائے۔ جب تھریسا مے سے پوچھا گیا کہ آپ کیا کریں گی، تو انہوں نے مسکراتے ہوئے کہا کہ ہم مذاکرات کریںگے۔

ٹرمپ کے ان اقدامات سے واضح ہوتا ہے کہ وہ یورپی یونین کو ایک خاص حد تک محدود کر دینا چاہتے ہیں۔ ٹرمپ نے ہیلسنکی میں صدرپوٹن سے مذاکرات کے لیے حتمی تیاری کی غرض سے اسکاٹ لینڈ میںقیام کیاجہاں ان کی سرکاری مصروفیات نہیں تھیں۔ لیکن ان کے 2 ذاتی گالف کورس ضرور موجود ہیں جن میں سے ایک میں انہوں نے قیام بھی کیا۔ ٹرمپ کی والدہ کا تعلق بھی اسکاٹ لینڈ ہی سےتھا اور وہ 18 سال کی عمر میں امریکا گئی تھیں۔

صدر ٹرمپ اس سے قبل 2 بار صدرپوٹن سے ملاقات کر چکے ہیں، لیکن یہ دونوں ملاقاتیں ہیمبرگ، جرمنی اور ویت نام میں مختلف کانفرنسز میں ہوئی تھیں ۔ اس لیےحالیہ ملا قا ت بنیادی طور پر دونوں صدور کی پہلی رسمی ملاقات تھی۔اس دوران مذاکرات کے تین ادوار ہو ئے جن میں سے ایک میں صرف صدر ٹرمپ، صدر پوٹن ، دونوں کے مترجمین اورنوٹس لینے والوں کے علاوہ کوئی اور موجود نہیں تھا۔ اس کا مطلب وائٹ ہائوس کے ذرائع یہ بیان کر رہے ہیں کہ ٹرمپ،پوٹن سے کھل کر گفتگو کرنا چا ہتے تھے کہ امریکاکا مفاد کیا ہےاورروس کا کیا ہے۔ اور امن و سلامتی کے ساتھ اپنے مفادات کیسے حاصل کیے جا سکتے ہیں۔حالیہ ملاقات میں روس کی امریکامیں مبینہ ا نتخا بی مداخلت ، یوکرین اور شام کا مسئلہ اور ہتھیاروں کی دوڑ کے معاملات شامل تھے۔ امریکا، شام میں روسی برتری اور اس کے زیر اثر ایران کے اسرائیل کی سرحد کے قریب اپنے حامیو ں کےذریعےممکنہ فوجی اقدامات سےپریشا ن ہے اور وہ روس کی اس ضمن میں حمایت اور مدد چاہتا ہے۔ روسی حمایت حاصل کرنے کی غرض سے وہ روسی تیل کی پیداوار بڑھانے کا اشارہ دے رہا ہے،کیوں کہ او پیک پہلے ہی روس کے ساتھ اس مسئلے پر اتفاق کر چکا ہے ۔ امریکا اس حکمت عملی کے ذریعےایران کی تیل کی برآ مد ات بڑھنے سے روکنا چاہتا ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ روس اس معاملے میں امریکاکو کوئی عملی ضمانت دیتا ہے یا نہیں۔ دراصل شا م میں روسی اقدامات اس کی وضاحت کر یں گے۔

تازہ ترین