• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

1976ء میں مَیں سعودی عرب کی ایک اچھی ساکھ کی کمپنی میں ملازم تھا۔ قابلیت اور تجربے کی بنیاد پر کمپنی اچھی تن خواہ، سالانہ چھٹیاں اور ملازمین کی فیملی کو تین ماہ اپنے ساتھ رکھنے کے لیے ویزا، ٹکٹ اور اضافی اخراجات بھی دیتی تھی۔ جو ان مراعات سے فائدہ نہیں اٹھاتے تھے، انہیں اضافی بونس دے دیتی تھی۔ مدتِ ملازمت کی حد مقرر تھی، ریٹائرمنٹ کے بعد ملازم کو پینشن کی مَد میں بھاری رقم دی جاتی تھی۔ ایسی پرکشش ملازمت سے میرے تمام کولیگز ٹھاٹ باٹ کی زندگی گزار رہے تھے۔ میں ایڈمن ڈیپارٹمنٹ سے منسلک تھا۔ ایک روز نئے امیدواروں کے انٹرویوز کے لیے کمپنی کی ٹیم پاکستان گئی۔ جب کچھ لوگ منتخب ہوکر آئے، تو ان میں میرا اسکول کا گہرا دوست عرفان بھی شامل تھا۔ عملی زندگی میں قدم رکھنے کے بعد میرا اس سے رابطہ ٹوٹ گیا تھا۔ اس آٹھ نو سال کے عرصے میں اس کی شادی ہوگئی تھی اور وہ چار بچّوں کا باپ بن چکا تھا۔ مجھے اس کے آنے کی دلی خوشی ہوئی۔ ہم دونوں اکٹھے گپ شپ کرتے۔ اس کے خواب بہت اونچے تھے۔ مجھ سے کہتا ’’میری زندگی کے اچھے ماہ و سال تو کلرکی نے کھالیے۔ مَیں اپنے بچّوں کو کلرک نہیں بننے دوں گا، انہیں اعلیٰ تعلیم دلواکر مستحکم اداروں میں اچھے عہدوں پر پہنچانا میرا مشن ہے اور مجھے یقین ہے کہ اللہ تعالیٰ میرا یہ خواب ضرور پورا کرے گا۔‘‘ہماری ملاقاتوں میں ہماری زیادہ تر گفتگو کا محور ہمارے بچّے ہی ہوتے۔ اس کے بچّے واقعی ذہین، قابل تھے۔ تینوں لڑکے دل لگا کر پڑھ رہے تھے۔ ایک لڑکی تھی، وہ بھی بہت ذہین تھی۔ اس کی بیوی، بچّوں کی قابلیت اور تابع داری کا احوال خطوں میں لکھ کر بھیجتی رہتی تھی۔ وہ خط پڑھ کر مجھے سناتا اور خوش ہوتا۔ چھٹیوں پر گھر جاتا، تو بچّوں کی فرمائشوں کی چیزوں سے اس کے بیگز بھرے ہوتے۔ واپسی پر ان کے قصّے سناتا اور مہینوں انہیں دہراتا رہتا۔ ملازمت کے دوسرے سال کمپنی نے ملازمین کی فیملی کو بلوانے کے لیے ویزے اور ٹکٹس وغیرہ کے فارم فراہم کیے۔ ہم سب دوست اس سہولت سے فائدہ اٹھا کر اپنی اپنی فیملیز کو بلواتے تھے، مگر عرفان نے یہ سہولت لینے سے انکار کردیا اور اس کے عوض رقم لے لی۔ اس کا موقف تھا کہ ’’اس سے بچّوں کی تعلیمی مصروفیات ڈسٹرب ہوجائیں گی۔ میں ان کی پڑھائی میں خلل ڈالنا نہیں چاہتا، یہ رقم میں اپنے بچّوں پر خرچ کروں گا۔‘‘ ہم نے اسے بہت سمجھایا کہ وہ انسان ہے، مشین نہیں، لیکن وہ نہیں مانا۔ اس کے تن پر ہمیشہ معمولی کپڑے ہوتے۔ کسی نے اسے اپنے لیے کبھی شاپنگ کرتے نہیں دیکھا۔ ہمیں اسلامی کیلنڈر کے مطابق پہلی تاریخ کو بینک سے تَن خواہ ملتی تھی۔ عرفان ہر ماہ اسی بینک سے اپنے بڑے بیٹے کے نام ڈرافٹ بنواکر ساری تَن خواہ بھجوا دیتا تھا۔ اپنے لیے ماہانہ اخراجات کے لیے دو ڈھائی سو ریال سے زیادہ رقم نہیں رکھتا تھا۔ اپنی ذات پر بنیادی ضرورتوں سے زائد خرچ کرنا، اس نے خود پر حرام سمجھ لیا تھا، جب کہ ہم سب دوست اس کے سامنے ہی بھرپور زندگی گزار رہے تھے۔ اس کا کھلّم کھلّا مذاق اڑا کر اسے اکساتے بھی رہتے تھے، مگر اس پر ذرّہ برابر اثر نہیں ہوتا تھا۔ اس کی واحد خوشی اس کی محبوب بیوی کے وہ خطوط تھے، جو وہ اسے ہر ہفتے بھیجتی تھی اور جن میں بچّوں کی کام یابیوں اور ان کی باتوں کے سوا کچھ نہیں ہوتا تھا۔ کئی بار عرفان وفورِ جذبات میں وہ خط مجھے پڑھنے کو دے دیتا اور اپنی یہ خوشیاں مجھ سے شیئر کرکے داد کا طالب ہوتا کہ جن بچّوں کے لیے وہ قربانیاں دے رہا ہے، وہ بھی اسے مایوس نہیں کررہے۔

وقت گزرتا گیا۔ تینوں لڑکوں نے تعلیم مکمل کرلی۔ بڑے بیٹے نے ایم بی بی ایس کی ڈگری حاصل کرکے ہائوس جاب شروع کی، تو اپنے مزاج کے برخلاف پہلی دفعہ اس نے دفتر کے ساتھیوں کو دعوت دی۔ اس کی خوشی دیدنی تھی۔ یوں محسوس ہورہا تھا کہ خوشی کے مارے کہیں وہ پاگل ہی نہ ہوجائے۔ سب سے گلے لگ لگ کر بچّوں کی طرح رو رہا تھا۔ ہمیں بھی اپنے بچّوں سے محبت تھی، مگر ایسا جنون اور وارفتگی ہمارے مزاجوں میں نہ تھی۔ اس کا دوسرا بیٹا، انجینئر اور تیسرے لڑکا، ایم بی کرنے کے بعد معروف انشورنس کمپنی میں اچھی پوسٹ پر ملازم ہوگیا تھا۔ اس دوران اس نے مکان بھی تعمیر کروالیا تاکہ ان کی شادیوں میں کوئی رکاوٹ نہ ہو۔ پھر بیٹی کی شادی کے بعد وقفے وقفے سے بیٹوں کی بھی ان کی پسند کے مطابق، دھوم دھام سے شادیاں کرکے اپنے طور پر فراغت حاصل کرلی تھی۔ اس دوران اس کی بیوی نے اٹھائیس سال کے اس کٹھن سفر میں اس کا پورا ساتھ دیا۔ اس نے بچّوں کی تعلیمی اور ذہنی تربیت میں کوئی کسر نہ اٹھا رکھی تھی۔ کبھی شوہر کو اپنی ذاتی فرمائشوں کی لسٹ نہیں بھیجی، شدید خواہش کے باوجود اس نے چھٹیوں میں اپنے شوہر کے پاس آنے کی ضد نہیں کی اور صرف اپنے بچّوں کی اچھی پرورش اور خدمت میں ہمہ تن لگی رہی، کیوں کہ وہ جان چکی تھی کہ اس کا شوہر، بچّوں کے اچھے مستقبل کے لیے پرائے دیس میں جہاد کررہا ہے۔ ایسی بیویاں نصیب والوں ہی کو ملتی ہیں۔

بالآخرکمپنی نے عمر ڈھل جانے والے کئی ملازمین کو اچھی مراعات اور رقومات کے ساتھ فارغ کرنے کے لیے نوٹسز بھجوادیئے۔ ان میں میرے علاوہ عرفان بھی شامل تھا۔ نوٹس ملنے کے بعد عرفان کا چہرہ خوشی سے دمکنے لگا۔ ہم دوسری ملازمت کی تلاش کے لیے اِدھر ادھر ہاتھ، پائوں مار رہے تھے، مگر عرفان کا کہنا تھا۔ ’’اب بس بہت ہوچکا۔ میں اپنی محنت سے اپنی فصل اور نسل اچھی کرچکا، اب مزے سے اپنے ملک میں اپنی بیوی، بچّوں کے ساتھ خوش حال زندگی گزاروں گا، جس کے خواب میں اپنی غربت کے دنوں سے دیکھتا آیا ہوں۔‘‘ کمپنی نے جس صبح بونسز اور واجبات کی ادائیگی کی، اس کے اگلے ہی روز عرفان نے چند روز بعد کی واپسی کی فلائٹ بک کروالی۔ اس روز سارا دن اس نے خریداری میں گزارا۔ سہ پہر کو میں اس سے ملنے اس کے دفتر کے کمرے میں گیا، تو اس نے اپنا سر میز پر رکھا ہوا تھا۔ میں سمجھا کہ شاید تھک کر سو رہا ہے۔ اس نے میری آہٹ سن کر سر اٹھایا۔ میں نے دیکھا کہ اس کی آنکھیں گیلی تھیں، جیسے روتا رہا ہو۔ میرے حیرت کے اظہار پر وہ کہنے لگا۔ ’’یار! پہلی بار خود کو انسان سمجھ رہا ہوں۔ اٹھائیس سال تک مشینی آدمی بنارہا۔ منزل قریب پاکر تھکن بڑھ ہی جاتی ہے۔ مجھ پر اب یہاں دوستوں اور بہی خواہوں سے بچھڑنے کا غم سوار ہوگیا ہے۔ تم لوگوں کی محبتیں اور صحبتیں بھلائے نہیں بھولوں گا۔ میری غلطیاں معاف کردینا۔‘‘ یہ کہہ کر وہ اٹھا اور میرے گلے لگ کر زاروقطار رونے لگا۔ اس کے جذبات کی شدّت نے مجھے بھی جذباتی کردیا۔ اس سے پاکستان آنے کے بعد ملتے رہنے کے وعدے وعید کرکے اسے تسلّیاں دیں اور وہ چلا گیا۔ میں نئی ملازمت کے حصول میں کام یاب ہوکر وہیں رک گیا تھا۔ میرا اس سے رابطہ پھر برائے نام ہی رہ گیااور پھر منقطع ہوگیا۔

ایک سال بعد میری نئی کمپنی نے ایک ماہ کی رخصت دی، تو پاکستان آنے کے بعد پہلی فرصت میں اس کے گھر ملنے چلا گیا۔ گھرخاصا شان دار تھا۔ کال بیل دینے پر ایک نوجوان گیٹ پر آیا۔ میں نے اپنا تعارف کروایا اور عرفان سے ملنے کی خواہش ظاہر کی، تو اس نے سپاٹ لہجے میں بتایا کہ ’’وہ یہاں نہیں رہتے۔‘‘ میں نے پوچھا۔ ’’کیا انہوں نے اپنا مکان بیچ دیا ہے؟‘‘ جواب ملا ’’مکان یہی ہے، مگر وہ الگ ہوگئے ہیں۔‘‘ میں نے اس کا عرفان سے رشتہ پوچھا، تو اس نے قدرے ہچکچاتے ہوئے بتایا ’’میں ان کا بڑا بیٹا ہوں۔‘‘ یعنی یہ وہی ڈاکٹر تھا، جس کی ذہانت اور کام یابیوں کے قصّے وہ اکثر سناتا رہتا تھا۔ میں نے اس سے گرم جوشی سے ہاتھ ملایا اور کہا ’’اگر تم مجھے عرفان کے گھر تک پہنچادو، تو میرا وقت بچ جائے گا یا پھر اس کا ایڈریس دے دو۔‘‘ وہ آئیں بائیں شائیں کرنے لگا کہ فلاں جگہ کے قریب رہتے ہیں۔ میں نے کہا ’’قریبی جگہ ہے، تو میرے ساتھ چلو۔‘‘ بادلِ نخواستہ وہ میرے ساتھ چل تو پڑا، مگر اس کے چہرے سے ناگوار تاثرات صاف دکھائی دے رہے تھے۔ گھر زیادہ دور نہیں تھا۔ قریب پہنچ کر اس نے ہاتھ کا اشارہ کرکے مکان کی نشان دہی کی اور فوراً واپس چلا گیا۔ میں نے دروازے پر دستک دی۔ دروازہ عرفان کی بیوی نے کھولا۔ سامنے ہی عرفان بیٹھا تھا، لپک کر آیا اور میرے گلے لگ کر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا۔ مجھ میں اسے ڈھارس دینے کی بھی ہمّت نہ رہی۔ بھابی بھی آنسو پونچھ رہی تھیں۔ گھر کی حالت اور ان کی تنہائی دیکھ کر ساری کہانی میری سمجھ میں آگئی تھی۔ صحن کے ایک کونے میں پھٹا پرانا قالین بچھا ہوا تھا، اس پر کچھ بچّے بیٹھے پڑھ رہے تھے۔ جب ان دونوں میاں، بیوی کے آنسو تھمے، تو یہ احوال سنایا کہ لڑکوں کے رویّے، ان کی شادیوں کے بعد بدل گئے تھے۔ عرفان کی بیوی پردیس میں شوہر کو پریشان کرنا نہیں چاہتی تھی، اس لیے ’’سب اچھا ہے‘‘ کا راگ الاپتی رہی۔ 

سعودی عرب سے جس شام اس کی روانگی تھی، اس روز اس کی بیوی کا آخری خط ملا تھا، جسے پڑھ کر وہ رونے لگا تھا۔ یہ اسی روز کی بات ہے، جب میں اس سے ملنے آیا تھا اور وہ میز پر سر رکھے رو رہا تھا۔ خط میں بیوی نے سارا احوال لکھتے ہوئے تاکید کی تھی کہ ’’آپ کوئی اچھی امید لے کر نہ آئیں۔ آپ کی بہوئوں کا رویّہ حد درجہ ہتک آمیز ہے۔ نچلی منزل پر آپ کا جو کمرا تھا، اس پر بڑا بیٹا قابض ہوگیا ہے، میرے احتجاج پر بدتمیزی پر اتر آتا ہے۔ ہم دونوں کا سامان اوپری منزل کے واحد کمرے میں شفٹ کردیا گیا ہے اور مجھے بھی اوپر بھیج دیا ہے۔ ٹانگوں کی تکلیف کے سبب میرا نیچے آنا جانا مشکل ہے، لہٰذا اوپر ہی کھاپکالیتی ہوں۔ وہ تینوں مجھ سے سوتیلی ماں جیسا سلوک کرتے ہیں۔ یہ باتیں میں آپ کو نہ بتاتی، مگر محض اس لیے بتارہی ہوں کہ کمپنی سے ملنے والے واجبات کی رقم بیٹے کو نہ بھیجیں، کیوں کہ زندگی کا بقیہ سفر اب ہم دونوں کو تنہا ہی طے کرنا ہوگا۔‘‘ اس نے جو لکھا تھا، اس سے بھی بدتر سلوک ان تینوں کا یہاں آکر دیکھا، تو اس نے کرائے کا گھر لے کر الگ رہنے میں اپنی عزت سمجھی۔ میں نے پوچھا ’’اور وہ رقم، جو کمپنی نے تمہیں دی تھی، اس پر تو حق نہیں جمایا؟‘‘ میرے سوال پر عرفان پھر رو پڑا۔ کہنے لگا۔ ’’اہلیہ کا خط ملنے سے کچھ دن پہلے میں حسبِ عادت بڑے بیٹے کوپوری رقم بھیج چکا تھا، جو بیٹے صاحب ہضم کرچکے۔ اب محلّے کے بچّوں کو ٹیوشنز پڑھاکر گزارا ہورہا ہے۔ بیٹی کبھی کبھار ملنے آجاتی ہے، تو گھر میں رونق ہوجاتی ہے۔ وہ تینوں تو ملنے بھی نہیں آتے۔‘‘

اتنی محنت اور محبت کا یہ انجام دیکھ کر مجھے بھی رونا آگیا تھا۔ کبھی اولاد پر اتنا بھروسا نہیں کرنا چاہیے۔ بچّوں کے مستقبل کی خاطر روزگار کے لیے پردیس میں جانے والوں کو میرا یہ پیغام ہے کہ’’ خدارا…! اپنی زندگی، جوانی محض بچّوں کے عشق میں برباد نہ کریں۔اپنے اور اپنے بڑھاپے کے لیے بھی کچھ نہ کچھ بچت ضرور کریں۔

(سیّد عباس بارونی، کراچی)

تازہ ترین
تازہ ترین