• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

فروری 2008ء کی بات ہے، تب مَیں ایک انتہائی نیک دل، شریف، مہربان اور دردمند باس کے پاس ڈیوٹی انجام دیتا تھا۔ مَیں طب کے شعبے سے وابستگی کی بنا پر انہیں تقریباً بارہ سال سے جانتا تھا، مگر جب ان کی ترقی کے بعد مجھے ان کا پی اے مقرر کیا گیا، تو انہیں انتہائی قریب سے دیکھنے کا موقع ملا۔ وہ ایک مستند اور قابل ترین سرجن تھے۔ ان کی ہر ممکن کوشش ہوتی کہ اسپتال آنے والے مریضوں اور اُن کے لواحقین کی مشکلات کو اپنے طور پر کم سے کم کرسکیں۔ مریضوں کی فلاح و بہبود سے بھی انہیں گہری دل چسپی تھی، یعنی صرف علاج ہی نہیں، بلکہ ان کے دیگر مسائل پر بھی توجّہ دیتے تھے۔ انہوں نے بہت سے غریب اور بے روزگار مستحقین کو روزگار دلواکر ان کے پائوں پر کھڑا کیا تھا۔ ان کا معمول تھا کہ دفتر میں آتے ہی اپنے کمرے میں جانے سے قبل اسٹاف سے فرداً فرداً گرم جوشی سے علیک سلیک کرتے، ہاتھ ملاتے۔ ان کی اور ان کے اہلِ خانہ کی خیریت دریافت کرتے، ہر درخواست پر مثبت احکامات جاری کرتے۔ میں نے اپنی ملازمت کے دوران ان کے دَر سے کبھی کسی کو مایوس جاتے نہیں دیکھا۔ پنج وقتہ نماز باقاعدگی سے اداکرتے اور اسٹاف کو بھی نماز کی تلقین کرتے۔

جس روز یہ واقعہ پیش آیا، وہ معمول کے مطابق وقت پر دفتر آئے، اسٹاف سے علیک سلیک کے بعد اپنے کمرے میں چلے گئے اور دفتری امور نمٹانے لگے۔ مجھے اس روز ان کے چہرے پر غیرمعمولی سنجیدگی محسوس ہوئی، ورنہ ہمیشہ ایک حوصلہ افزا مسکراہٹ سے ان کا چہرہ روشن رہتا۔ کچھ دیر بعد مجھے چند ضروری فائلز کے حوالے سے ہدایت دے کر وہ میٹنگ میں چلے گئے۔ اُن دنوں دو بجے دوپہر ہمارے دفتر کی چھٹی ہوجاتی تھی۔ جب وہ آدھے گھنٹے کی تاخیر سے ڈھائی بجے لوٹے، تو اسٹاف ان کا انتظار کررہا تھا۔ انہوں نے آدھا گھنٹے تاخیر سے آنے پر اسٹاف سے معذرت کی اور کمرے میں جاکر مجھے اندر بلوایا، اپنی اس دوران آنے والی فون کالز کے متعلق پوچھا، اگلے روز کے کاموں کے سلسلے میں کچھ ہدایات دیں اور پھر تیزی سے اپنا کام نمٹانے کے بعد گھر روانہ ہوگئے۔ ان کے جاتے ہی میں بھی گھر چلا گیا۔ ابھی میں گھر پہنچا ہی تھا کہ فون کی گھنٹی بجی۔ میں نے لپک کر ریسیور اٹھایا، دوسری طرف ہمارے دفتر کا نائب قاصد، رشید تھا، اس نے میرے’’ ہیلو‘‘ کہتے ہی دھاڑیں مارمار کر رونا شروع کردیا۔ میں یک لخت گھبرا گیا۔ وہ کچھ بول ہی نہیں پارہا تھا، مسلسل روئے جارہا تھا۔ میرے بار بار پوچھنے پراس نے بے ربط جملوں میں جو کچھ بتایا، وہ میرے لیے نہ صرف اندوہ ناک بلکہ ناقابلِ یقین بھی تھا، میری تو جیسے کسی نے جان ہی نکال دی کہ جس شخص کو آدھے گھنٹے پہلے گاڑی میں رُخصت کرکے گھر آیا تھا، وہ اب اس دنیا میں نہیں رہا، کسی بدبخت نے مال روڈ سے گزرتے ہوئے ان پر خودکش حملہ کیا تھا، جس کے نتیجے میں وہ اپنے گن مین سمیت موقعے ہی پر شہید ہوگئے تھے۔ اس خبر سے میری آنکھوں تلے اندھیرا سا چھا گیا۔ کچھ دیر بعد حواس بحال ہونے پر ٹی وی آن کیا، تو بریکنگ نیوز چل رہی تھی کہ ’’معروف آئی سرجن لیفٹیننٹ جنرل مشتاق بیگ اپنے ڈرائیور اور گن مین سمیت خودکش حملے میں شہید ہوگئے۔‘‘ گن مین انور کی گیارہ روز بعد شادی طے تھی، وہ بڑا خوش تھا، اس نے ہم سب کو اپنی شادی پرمدعو کر رکھا تھا۔ ان لمحات میں، میری حالت نیم دیوانوں جیسی ہوگئی تھی کہ جس شخص کو میں نے آدھ گھنٹے پہلے ہنستے مسکراتے خدا حافظ کہا تھا، وہ اب اس جہاں ہی سے رخصت ہوگیا۔ ڈرائیور اور گن مین، جو مجھے سلام کرتے ہوئے گاڑی میں بیٹھے تھے، وہ ان کا آخری سلام تھا۔ میں شدید پریشانی اور غم کی حالت میں دوبارہ دفتر روانہ ہوگیا۔ غم اور صدمے کی کیفیت سے میری حالت خراب ہورہی تھی۔ دفتر پہنچا، تو اس وقت تک سارا عملہ وہاں دوبارہ آچکا تھا، سب غم سے نڈھال، زار و قطار رو رہے تھے۔ پاکستان آرمی میڈیکل کور کے آئی اسپیشلسٹ سرجن، لیفٹیننٹ جنرل، مشتاق بیگ (ہلالِ امتیاز ملٹری) کی شہادت پر ہم محض ان کے ماتحت ہونے کے ناتے نہیں بلکہ ایک ایسے فرشتہ صفت انسان کے لیے نوحہ کناں تھے، جولاکھوں میں نہیں، کروڑوں میں ایک تھا۔ وہ ایک ایسے تناور درخت کی مانند تھے، جس کی چھائوں تلے بیٹھ کر ہر انسان فیض پاتا تھا۔ یہ سانحہ کسی ایک فرد یا خاندان کے لیے صدمے کا باعث نہیں تھا، بلکہ پوری پاکستانی قوم کے لیے سخت رنج و غم کاباعث تھا۔ بلاشبہ، دہشت گردی کی اس جنگ میں پاک فوج کے سب سے بڑے رینک کی یہ بڑی قربانی تھی۔

قوم ایسے عظیم محسنوں کو کیسے بھول سکتی ہے اور ان کی قربانیوں کو کیسے فراموش کیا جا سکتا ہے۔ میں حال ہی میں ریٹائر ہوا ہوں، مجھے فخر ہے کہ مجھے اس عظیم شخص کے پی اے ہونے کے ناتے، ان کی شخصیت کو قریب سے دیکھنے اور ان سے بہت کچھ سیکھنے کا موقع ملا۔ ان کی یادیں ہمیشہ ہمارے دلوں میں زندہ رہیں گی۔

(شیخ ظہیر احمد، راول پنڈی)

تازہ ترین
تازہ ترین