• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
انتخابی منشور

کسی بھی سیاسی جماعت کا منشور ایک اہم دستاویز سمجھی جاتی ہے۔ عام طور پر یہ منشور دو طرح کے ہوتے ہیں، پہلا اساسی یا تاسیسی ہوتا ہے، جو سیاسی جماعت کے قیام کے موقع پر جاری کیا جاتا ہے، جس میں جماعت کے اغراض و مقاصد اور رہنما اصول بیان کیے جاتے ہیں۔ یہ منشور مستقل نوعیت کا ہوتا ہے، تاہم حالات کے تقاضوں کے مطابق اس میں تبدیلی یا ترمیم کی گنجائش رہتی ہے۔ دوسرا انتخابی منشور کہلاتا ہے، جو انتخابات میں حصہ لینے کے موقع پر رائے دہندگان کے سامنے پیش کیا جاتا ہے، جس میں اس امر کی وضاحت ہوتی ہے کہ مختلف امور، معاملات یا مسائل پر متعلقہ جماعت کا نقطہ نظر کیا ہے اور انتخابات میں کامیابی حاصل کرنے کے بعد ان پر کس طرح عملدرآمد کیا جائے گا۔ منشور کا ایک ایک لفظ انتہائی غوروخوض کے بعد لکھا جاتا ہے۔ منشور تحریر کرنے والا فرد واحد بھی ہو سکتا ہے اور ایک سے زائد افراد پر مشتمل ایک خصوصی کمیٹی بھی، جو بطور خاص اسی مقصد کے لیے تشکیل دی جاتی ہے، یہ کمیٹی اقتصادی ماہرین، قانون دانوں اور دیگر شعبوں کے تجربہ کار افراد پر مشتمل ہوتی ہے، جو ملک کے معاشی، سیاسی اور سماجی حالات پر گہری نظر رکھتے ہیں۔ وہ انتہائی باریک بینی سے صورتحال کا تجزیہ کرتے ہیں اور پھر نپے تلے انداز میں تجویز کرتے ہیں کہ ان کی سیاسی جماعت مختلف مسائل کو کس طرح حل کرے گی یا مختلف امور پر کس انداز میں کام کیا جائے گا تاکہ ان معاملات سے عہدہ برا ہوا جا سکے۔ اس لحاظ سے منشور کو ایک لائحہ عمل بھی کہا جا سکتا ہے۔

جمہوری نظام میں انتخابی منشور بڑی اہمیت رکھتے ہیں۔ انتخابی منشور ہی کے ذریعے سیاسی جماعتیں ہر شعبہ زندگی سے تعلق رکھنے والے عام افراد کی سوچ اور فکر تک رسائی حاصل کرتی ہیں اور انہیں قائل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے کہ وہ ان کے حالات بدلنے اور مسائل حل کرنے کی صلاحیت رکھتی ہیں اور برسراقتدار آنے کے بعد وہ اپنے طے شدہ ایجنڈے کے مطابق عملدرآمد بھی کریں گی۔ انتخابی منشور کے ذریعے صرف عوام ہی کو مخاطب یا راغب نہیں کیا جاتا بلکہ ذرائع ابلاغ اور رائے عامہ پر اثرانداز ہونے والے اداروں، اہل دانش اور کسی حد تک عالمی میڈیا کو بھی اپنی جانب متوجہ کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔

ایک دور میں جب ذرائع ابلاغ محدود تھے یا عوام کی ان تک زیادہ رسائی نہ تھی، ریڈیو اور اخبارات ہی اطلاعات کی فراہمی کا واحد ذریعہ تھے، سیاسی جماعتوں کے منشور کو عوام تک پہنچانا اور رائے عامہ کو اپنے حق میں ہموار کرنا خاصا مشکل امر تھا، لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ اس دور میں سیاسی جماعتیں اپنے کارکنوں کے ذریعے ملک کے گوشے گوشے تک اپنا پیغام پہنچانے میں کامیاب رہتی تھیں۔ قیام پاکستان سے قبل1946ء کے عام انتخابات میں آل انڈیا مسلم لیگ نے پاکستان کے مطالبے پر مبنی اپنا منشور برصغیر کے طول و عرض میں پھیلا کر مسلمانوں میں بے پناہ جوش و خروش پیدا کر دیا تھا۔ یہ ایک مختصر سا منشور تھا، جو دانشوروں کی ایک جماعت نے، جس کی سربراہی دانیال لطیفی کر رہے تھے، تحریر کیا تھا۔ اس منشور کی اثر انگیزی کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ اس نے نہ صرف مسلمانوں کے ہر طبقے کو متاثر کیا بلکہ نچلی ذات کے ہندو، عیسائی اور دیگر چھوٹے مذاہب کے پیروکار بھی متوجہ ہوئے بغیر نہ رہ سکے، کیونکہ اس منشور میں مسلم لیگ نے اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کی بات کی تھی اور کہا تھا کہ ان کے حقوق اونچی ذات کی ہندو اکثریت کی حکومت کے مقابلے میں ایک ایسی اقلیت (مسلمان) کے ہاتھوں میں زیادہ محفوظ رہیں گے، جو خود بھی اس اکثریت کے مظالم کا شکار رہی ہے۔

1946ء کے عام انتخابات میں تمام مسلم نشستوں پر کامیابی حاصل کرنا، اس امر کا بین ثبوت تھا کہ برصغیر کے مسلمانوں نے آل انڈیا مسلم لیگ کے منشور کے ایک ایک لفظ سے اتفاق کیا ہے۔ منشور کی اثر انگیزی کی دوسری مثال، 1970ء کے عام انتخابات میں دیکھی گئی۔ پاکستان پیپلزپارٹی، مغربی پاکستان اور عوامی لیگ، مشرقی پاکستان میں اکثریتی جماعت کے طور پر سامنے آئیں۔ دونوں سیاسی جماعتوں کی کامیابی ان کے اپنے اپنے منشور کی رہین منت تھی۔ پیپلزپارٹی کا منشور مرتب کرنے والوں میں جے اے رحیم، ڈاکٹر مبشر حسن، حنیف رامے اور شیخ محمد رشید کے نام نمایاں ہیں۔ اکثر تجزیہ کار اس بات پر متفق ہیں کہ اس زمانے کے لحاظ سے یہ ایک انقلابی اور ترقی پسندانہ منشور تھا۔ نصف صدی قبل لکھی جانے والی اس یہ دستاویز آج بھی پڑھی جائے تو احساس ہوتا ہے کہ اس میں کس طرح ملک کے اہم ترین مسائل کی نشاندہی کے ساتھ ان کے موزوں حل بھی تجویز کیے گئے مثلاً جہالت کا خاتمہ، تعلیم کے ذریعے غیرطبقاتی معاشرے کا قیام، ملکی زبانوں کی ترقی، خواتین کے مساوی حقوق، جامعات کی خودمختاری، قومی دفاع میں عوام کی شرکت، صنعتوں کو قومی تحویل میں لینا وغیرہ وغیرہ۔ اسی طرح1970ء میں پیپلزپارٹی کے انتخابی منشور میں کہا گیا تھا کہ ’’پاکستان پیپلزپارٹی کا منشور باقی پارٹیوں کی طرح فرسودہ نہیں ہے۔ عوام سے کیا گیا عہد و پیمان ہے کہ پارٹی، انتخابی یا غیر انتخابی طریقے، ہر طریقے سے اس میں دیئے گئے پروگرام کو عملی جامہ پہنانے کی جدوجہد کرے گی۔‘‘ آگے چل کر بڑی وضاحت کے ساتھ خارجہ پالیسی، صنعتی اقدامات، تعلیم و ثقافت، قومی صحت، قومی دفاع، آئین سازی کے بارے میں اہم نکات بیان کیے گئے تھے اور عوام کو طاقت کا سرچشمہ قرار دیا گیا تھا لیکن دیگر نکات ’’اسلام ہمارا دین ہے، جمہوریت ہمارا نظریہ ہے، سوشلزم ہماری معیشت ہے‘‘ پوری انتخابی مہم کی جان تھے مگر ان سے کہیں زیادہ پرکشش نعرہ ’’روٹی، کپڑا اور مکان‘‘ تھا۔ مشرقی پاکستان میں عوامی لیگ نے اپنے چھ نکات کی بنیاد پر انتخابی مہم کو منظم کیا تھا جن کے بارے میں آج تک پتا نہیں چلا کہ یہ چھ نکات کس کے ذہن رسا کی تخلیق تھے۔

1970ء ہی کی طرح1977ء کے عام انتخابات بھی بڑے اہم تھے، اصل مقابلہ پاکستان پیپلزپارٹی اور نو سیاسی جماعتوں کے اتحاد پاکستان قومی اتحاد (پی این اے) کے درمیان تھا۔ پیپلزپارٹی نے اپنا گزشتہ انتخابی منشور دہرانے ہی پر اکتفا کیا تھا۔ جب کہ قومی اتحاد کسی واضح منشور کے بغیر انتخابات میں حصہ لے رہا تھا اور اس کے پاس محض دو، چار وعدے تھے، جن کا معروضی حقائق سے کچھ لینا دینا نہیں تھا اور ان کا واحد مقصد ووٹرز کے جذبات کو ابھارنا تھا مثلاً ملک میں اسلامی نظام کا نفاذ اور قیمتوں کو1970ء کی سطح پر واپس لانا۔ ملک کے سماجی و معاشی مسائل کس طرح حل کیے جائیں، اس بارے میں قومی اتحاد کا کوئی منشور نہیں تھا بلکہ اس کی انتخابی مہم کا سارا زور اس پر تھا کہ ذوالفقار علی بھٹو کو ہر صورت میں اقتدار سے ہٹا دیا جائے۔ یہ مقصد حاصل تو ہوا، مگر ملک آمریت کی گرفت میں چلا گیا۔ بعدازاں آمرانہ اور جمہوری ادوار میں کئی مرتبہ انتخابات ہوئے، مگر ٹھوس اور متاثر کن منشور نظر نہ آئے۔ اس کی وجہ کیا تھی؟ عام سماجی زندگی میں میڈیا کا بڑھتا ہوا اثرونفوذ ایک اہم وجہ کہی جا سکتی ہے، تو دوسری اہم وجہ یہ ہے کہ ملک ماضی کے فہم و فراست کے حامل سیاستدانوں سے رفتہ رفتہ محروم ہوتا چلا گیا اور ان کی جگہ ان سیاستدانوں نے لے لی ہے، جن کی سیاست الزام تراشی اور مخالفین کی کردار کشی کے گرد گھومتی ہے۔ ان کا دوسرا اہم ہتھیار قوم پرستی، علاقائیت، فرقہ واریت اور لسانیت ہے۔ ان تمام کے ہوتے ہوئے غیرمعمولی دانش، تدبر اور فراست کے آئینہ دار منشور کی گنجائش بھلا کہاں نکلتی ہے؟ پھر ایک حقیقت یہ بھی ہے کہ عوام خود بھی انتخابی منشوروں پر توجہ نہیں دیتے، حتیٰ کہ مختلف سیاسی جماعتوں کے کارکنان تک اپنی اپنی جماعتوں کے منشور سے زیادہ واقف نہیں ہوتے۔ اس بناء پر یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ ہمارے ملک میں انتخابی منشور صرف خانہ پری کی حد تک جاری کیے جاتے ہیں۔ ویسے بھی جس ملک کی سیاست، شخصیات کے گرد گھومتی ہو اور مختلف بالادست قوتیں انتخابی عمل پر اثرانداز ہونے کی کوششوں میں مصروف رہتی ہوں، وہاں صاف ستھری، حقائق پر مبنی سیاسی روایات فروغ نہیں پاسکتیں۔

ملک میں عام انتخابات منعقد ہونے جا رہے ہیں۔ مسلم لیگ (نون)، پیپلزپارٹی، متحدہ مجلس عمل، تحریک انصاف، اے این پی سمیت اکثر سیاسی جماعتیں اپنے اپنے منشور پیش کر چکی ہیں۔ مسلم لیگ (نون) کے منشور کے اکیس بنیادی نکات ہیں، متحدہ مجلس کا انتخابی منشور بارہ نکات اور تحریک انصاف کا انتخابی منشور گیارہ نکات پر مشتمل ہے۔ سب سے جامع اور متاثر کن منشور اے این پی کا ہے، جس میں ویسی ہی جامعیت اور اثرانگیزی نظر آتی ہے، جو پیپلزپارٹی کے تاسیسی منشور میں تھی، باقی سیاسی جماعتوں کے منشور ان کی روایتی انداز سیاست کے آئینہ دار ہیں اور ان کی حیثیت صرف دعوئوں، وعدوں جیسی ہی ہے۔ ان میں حقیقی مسائل کے بارے میں ٹھوس عملی اقدامات کا ذکر نہیں ملتا۔ کچھ وعدے تو بالکل ہی خلاف عقل ہیں، مثلاً تحریک انصاف نے اپنے منشور میں ایک کروڑ ملازمتیں دینے کی بات کی ہے، گویا پانچ سال کی مدت میں روزانہ تقریباً ساڑھے پانچ ہزار نوکریاں فراہم کی جائیں گی۔ ملک کو درپیش معاشی چیلنجز کے حوالے سے بھی انتخابی منشور خاموش ہیں۔ جو بھی نئی حکومت آئے گی، اسے معاشی محاذ پر سخت مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا، خصوصاً فروری2019ء میں عالمی برادری کی جانب سے پاکستان پر سخت معاشی پابندیاں عائد کرنے کا امکان پایا جاتا ہے۔ اس حوالے سے کسی بھی سیاسی جماعت کا کوئی موقف ان کے انتخابی منشور میں شامل نہیں ہے۔ ملک کا ایک اہم ترین مسئلہ بڑھتی ہوئی آبادی کا ہے۔ ساٹھ سال قبل ایوب خان کے دور میں پہلی بار اس مسئلے پر توجہ دی گئی تھی، مگر بعد میں برسراقتدار آنے والی حکومتوں کے دور میں مذہبی حلقوں کی مخالفت کے سبب خاندانی منصوبہ بندی پروگرام پر عملدرآمد کی رفتار سست پڑ گئی اور ترجیحات کی فہرست میں اس کا کوئی شمار نہ رہا۔ اب خاندانی منصوبہ بندی کی بات کرنے کا مطلب دینی مزاج رکھنے والے ووٹرز کی ناراضی مول لینے کے مترادف ہے، لہٰذا کوئی سیاسی جماعت اسے اپنے انتخابی منشور میں شامل کرنے کی جرات نہیں کر سکتی۔ یہی معاملہ ملک میں نئے صوبوں کی تشکیل کا ہے۔ جنوبی پنجاب، جنوبی سندھ، سرائیکی اور ہزارہ صوبے کے آج سے نہیں، کئی عشروں سے نعرے لگ رہے ہیں مگر ان نعروں پر سنجیدگی سے غور نہیں ہو رہا اور اس اہم ترین معاملے سے نظریں چرائی جا رہی ہیں۔ نئے صوبوں کی تشکیل سے پاکستان کی سالمیت کو اگر کوئی نقصان ہے، تو اس پر ٹھوس دلائل کے ساتھ کام ہونا چاہئے۔ مخالفت برائے مخالفت سے یہ معاملہ حل نہیں ہو گا۔ صوبوں کی حد بندی کسی الٰہی فیصلے کے تحت عمل میں نہیں آئی۔ انتظامی ضرورتوں کے تحت حد بندیوں میں ردوبدل ہو سکتا ہے۔ آج نہیں، تو کبھی نہ کبھی ایسا کرنا ہی پڑے گا۔ لطف کی بات یہ ہے کہ جن سیاسی جماعتوں کے قائدین اپنے بیانات میں نئے صوبے بنانے کی حمایت کرتے ہیں، ان کے انتخابی منشور میں اس کا کوئی ذکر نہیں ملتا۔ البتہ پیپلزپارٹی کے منشور میں جنوبی پنجاب کو صوبہ بنانے کی بات کی گئی ہے۔ سیاسی جماعتیں، ملک میں نئے آبی ذخائر کی تعمیر کی بات تو کرتی ہیں، مگر کالا باغ ڈیم کی تعمیر کے حوالے سے خاموش ہیں۔

ایک اہم ترین مسئلہ نفاذ اردو کا ہے، مگر ہر سیاسی جماعت اس مسئلے کو نظرانداز کر رہی ہے۔ فیڈرل پبلک سروس کمیشن کے حالیہ امتحانات میں صرف دو فیصد امیدواروں کا پاس ہونا، جہاں ہمارے نظام تعلیم کی خرابیوں کو اجاگر کرتا ہے، وہاں اس امر کی بھی نشاندہی ہوتی ہے کہ ان امتحانات کے گرتے ہوئے معیار کا ایک سبب یہ بھی ہے کہ یہ امتحانات انگریزی میں لیے جاتے ہیں۔ یہ معیار اگر اس طرح زوال پذیر رہا اور امیدواروں کو اردو میں جوابات دینے کی اجازت نہ دی گئی تو آئندہ برسوں میں اعلیٰ ملازمتوں کے امتحانات (سی ایس ایس) کا نتیجہ دو فیصد سے بھی کم آ سکتا ہے اور اگر ملک کا انتظام چلانے والی بیورو کریسی کے لیے اہل افراد دستیاب نہ ہوں گے، تو کیا ہم فر فر انگریزی بولنے والے افراد دوسرے ملکوں سے درآمد کریں گے؟ جو سیاسی جماعتیں نفاذ اردو کے مطالبے سے پہلوتہی کر رہی ہیں، کیا اس بات پر غور کریں گی۔

انتخابی منشوروں میں نظرانداز کیے جانے والے مسائل کی فہرست بڑی طویل ہے، سیاسی جماعتیں بیرون املک مقیم پاکستانیوں کے ووٹ دینے کے معاملے کو بھی اپنے منشور میں شامل نہیں کر سکی ہیں۔ تھرپارکر میں طویل عرصے سے غذائی قلت اور دیگر اسباب کی بناء پر بچوں کی اموات کا سلسلہ کئی برسوں سے جاری ہے، مگر اسے بھی کسی انتخابی منشور میں جگہ نہ مل سکی۔ ملک میں مہنگائی دن بہ دن بڑھ رہی ہے، مگر اس حوالے سے بھی سیاسی جماعتوں کے پاس کسی ٹھوس منصوبہ بندی کا فقدان ہے۔ صرف ’’مہنگائی کم کرنے کی کوشش کی جائے گی‘‘ کا ایک فقرہ شامل کرنے سے تو مہنگائی کم نہیں ہو گی۔ عزم اپنی جگہ پر عمل بھی تو کوئی چیز ہے؟ سیاسی جماعتیں، انتخابی منشور کو کیا اہمیت دیتی ہیں، اس کا اندازہ صرف اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ایک آدھ کے سوا تمام سیاسی جماعتوں نے انتخابی منشور، انتخابات سے ایک یا دو ہفتے قبل پیش کیے ہیں۔ شاید اس کی وجہ یہ ہو کہ سنجیدہ حلقوں کو منشور کے ٹھوس، بامعنی اور مدلل تجزیئے کا موقع نہ ملے اور معاملہ انتخابی گہما گہمی ہی میں کہیں گم ہو جائے۔

                           میرا انتخابی منشور

                                           سید ضمیر جعفری

خوشااے ووٹرو ! لو میں بھی اک منشور لایا ہوں

تمنائوں کی بھوری بیریوں پر بور لایا ہوں

میں اپنی خود کشیدہ بھاپ پر آزاد لڑتا ہوں

اکیلا سارے استادوں سے بے استاد لڑتا ہوں

رقیبوں کو بھروسا ہو گا اپنےکارناموں پر

مجھے ہے فخر اپنے ماہر فن خانساموں پر

ہر اک دل بند حاجت مند کو خورسند کر دوں گا

گلی کوچے کی گندی نالیوں کو بند کردوں گا

’’بجٹ‘‘ میں کم سے کم رکھوں گا خرچا کارخانوں کا

مگر تھمنے نہ دوں گا غلغلہ فلمی ترانوں کا

مری جانِ حزیں کا بارِ غم ہلکا نہیں ہو گا

کہ جب تک ہر گلی کے موڑ پر نلکا نہیں ہو گا

نئے اسلوب سے جز بندی کارِ جہاں ہو گی

مرے سب ووٹروں کے گھر میں راشن کی دکاں ہو گی

گزشتہ دو صدی سے سخت ’’ ٹکسائے ‘‘ گئے ہو تم

اب آسائش کی جانب گھیر کر لائے گئے ہو تم

کروں گا اور بھی پتلی قبائیں نازنینوں کی

مدارس میں رہیں گی، چھٹیاں بارہ مہینوں کی

کلاسیں ہی نہ جب ہوں گی تو وہ کس کو پڑھائے گا

ہمارے دور میں ٹیچر فقط تنخواہ پائے گا

روایات کساد وکاہلی چمکائی جائیں گی

جواں مردوں کی زلفیں پائوں تک لٹکائی جائیں گی

حوالاتیں تو کچھ ہوں گی مگر تھانے نہیں ہوں گے

پریشانی کے اوپر یہ پریشانے نہیں ہوں گے

یہ کھائے روٹیاں میری وہ نوچے بوٹیاں میری

چمن میں ہر طرف اڑتی ہوئی لنگوٹیاں میری

تازہ ترین