• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مسلم لیگ (ن)کو خیرباد کہہ کر تحریک انصاف میں شمولیت کے بعد میرے لئے آج کا کالم لکھنا اپنی سیاسی زندگی کے مشکل ترین فیصلوں میں سے ایک ہے کیونکہ میں دیگر دیرینہ کارکنوں کی طرح ہمیشہ اپنے سابق قائد میاں نواز شریف کا خیرخواہ رہا، کسی کو مشکل وقت میں چھوڑ دینا میری طبیعت کا حصہ نہیں لیکن نہایت معذرت کے ساتھ عرض کروں گا کہ میاں صاحب کی اپنے مخلص ساتھیوں کو نظرانداز کرنے اور ٹکراؤ کی پالیسی نے ہماری سیاسی راہیں جدا کردیں،میں نے (ن) لیگ میں رہتے ہوئے متعدد مرتبہ کوشش کی کہ میاں صاحب کو انکے خطرناک اقدامات کے نتائج سے بروقت خبردارکروں، میں نے اپنی ہی حکومت کو جھنجھوڑنے کیلئے قومی اخبارات میں کالم لکھے لیکن خوشامدیوں کے جھرمٹ میں گھرے میاں صاحب کے پاس سوچنے سمجھنے کا وقت نہ تھا، اب مجھے پورا یقین ہے کہ اڈیالہ جیل میں میاں صاحب کے پاس تنہائی میں سوچ و بچار کیلئے کافی وقت ہوگا اور یہی وجہ ہے کہ میں (ن)لیگ کی سابقہ حکومت میں گزارے گئے پانچ سالوں کے تجربات و مشاہدات کی روشنی میں اپنا خط نہایت ادب و احترام سے میاں صاحب کی خدمت میں پیش کرنا چاہتا ہوں کہ تین مرتبہ وزیراعظم رہنے والا ایک بار پھر اپنی مضبوط ترین حکومت سے ہاتھ دھو کر اڈیالہ جیل کیوں جا پہنچا؟ میاں صاحب، کیا یہ اڈیالہ جیل کی وہی کوٹھڑی نہیں جسکی تعمیر آپ نے خود اپنے گزشتہ دورِحکومت میں کسی اور کو قید کرنے کیلئے کرائی تھی؟ آپکی سیاسی حریف تو وہاں کبھی پابندسلاسل نہ ہوئیں لیکن تقدیر نے آپکو دونوں مرتبہ یہاں سرکاری مہمان ضرور بنادیا۔ حالات کی ستم ظریفی ملاحظہ کیجئے کہ جس عوامی لیڈر اور انکی صاحبزادی کی پرزور مخالفت میاں صاحب کے سیاسی سفر کا نقطہ آغاز تھا، آج وہی دونوں آنجہانی لیڈر آپ کے پسندیدہ سیاستدان ہیں۔ انسان کی فطرت ہے کہ وہ تعریف کا بھوکا ہے، میری نظر میں آپ کو بھی بس یہی کمزوری لے ڈوبی، ایسا لگتا ہے کہ خوشامدیوں کے ہجوم میں میاں صاحب رفتہ رفتہ دوست دشمن کی پہچان بھولتے گئے اور بطور حکمران فیصلہ سازی کی صلاحیت سے بھی عاری ہوتے گئے۔ میاں صاحب! آپ تو اب اپنے اس سیاسی محسن کا بھی نام نہیں لیتے جسکی انگلی پکڑ کر آپ نے اپنے سیاسی سفر کا آغاز کیا تھا۔ کیا واقعی آپکو وہ وقت یاد نہیں آتا جب آپ کو مسلم لیگ (ن) کا سربراہ منتخب کیا گیا تھا؟ آپ نے کبھی سوچا کہ آپ پر اعتماد کا اظہار کرنے والے تمام قریبی دیرینہ ساتھی ایک کے بعد ایک سابق کیوں ہوتے چلے گئے؟ میاں صاحب! آپ کبھی قومی اداروں کو تنقید کا نشانہ بنا کر اور کبھی خلائی مخلوق کا شوشہ چھوڑ کر عالمی برادری کے سامنے پاکستان کی جگ ہنسائی کا باعث تو بن سکتے ہیں لیکن اپنی کوتاہیوں پر پردہ نہیں ڈال سکتے۔ آج انیس برس بعد آپ کو ایک مرتبہ پھر قید میں سہولتوں کی عدم دستیابی کا شکوہ کرتے دیکھ کر یہ خیال ضرور آتا ہے کہ کاش، آپ ملک بھر میں سڑکوں کا جال بچھاتے ہوئے کچھ توجہ قیدخانوں، اسپتالوں اودیگر فلاحی منصوبوں پر بھی دیتے۔ چند روز قبل (ن) لیگ کے ایک مشاورتی اجلاس کے حوالے سے یہ خبر سامنے آئی کہ میاں نواز شریف کا بیانیہ ملک کے کونے کونے میں پھیلا دیا جائے گا۔ میاں صاحب! اگر آپکا بیانیہ ’’ووٹ کو عزت دو‘‘ کی آڑ میں قومی اداروں کو ہدف تنقید بنانا ہے تو خود آپ کے اپنے بھائی خادم اعلیٰ پنجاب سمیت دیگر قریبی رفقاء اسکو رد کرتے نظر آتے ہیں، اپنے متنازع ترین بیانیہ کو بار بار دہراتے ہوئے آپ یہ حقائق کیوں نظرانداز کردیتے ہیں کہ اگر ووٹ کو عزت نہ دی گئی ہوتی تو آپ کبھی تین مرتبہ اقتدار حاصل کرنے کے قابل نہ ہوسکتے، اسی طرح آپ بلوچستان اسمبلی میں اِن ہاؤس تبدیلی اور چیئرمین سینیٹ کے انتخاب کیلئے دئیے گئے ووٹ کو قابلِ تعظیم کیوں نہیں سمجھتے؟ مجھے یقین ہے کہ آج جیل کی تنہائی میں آپ وہ وقت ضرور یاد کرتے ہونگے جب عوام کے ووٹوں سے منتخب ہونے والے ایک وزیراعظم کے خلاف کالا کوٹ پہن کر بذاتِ خود سپریم کورٹ گئے تھے،آپ دوسروں کو اقتدار چھوڑ کر گھر جانے کے مشورے دینے کی بجائے اگر پاناما اسکینڈل کے بعد ازخود مستعفی ہوجاتے یا اسمبلیاں برطرف کردیتے تو ملکی سیاست میں سنہری تاریخ رقم کردیتے اور شاید دوبارہ الیکشن میں پھرسے کامیاب بھی ہوجاتے لیکن افسوس! آپ نے یہ مشورہ زیادہ قابلِ بھروسہ سمجھا کہ قوم کی یادداشت کمزور ہے اور پاناما ایشو ایک دن خودبخود قصہ ماضی بن جائے گا۔ میں اس امر کا گواہ ہوں کہ میاں صاحب آپ اپنے دور اقتدار میں مکمل بااختیار تھے اورتمام تر سیاسی بحرانوں کے باوجود آپ کو کسی غیر جمہوری ایڈونچرازم کا سامنا نہیں کرنا پڑا، یہ ایک حقیقت ہے کہ ایک کامیاب سیاسی لیڈر حالات کی نزاکت سمجھتے ہوئے ملک و قوم کی بہتری کو مدنظر رکھتے ہوئے ناپسندیدہ فیصلے بھی کرتا ہے لیکن میاں صاحب آپ نے نجانے کیوں چار حلقے کھولنے کو انا کا مسئلہ بنا لیا جسکا خمیازہ آج آپکو خود بھگتنا پڑ رہا ہے۔ اپوزیشن کی بڑی جماعت دھاندلی کے خلاف ملکی تاریخ کا سب سے طویل دھرنا دینے پارلیمان کے سامنے براجمان ہوجاتی ہے تو انکے مطالبات کی شنوائی کیلئے میری نظر میں گفت و شنید کا راستہ اختیارکیا جانا چاہئے تھا۔ قوم آپ سے پوچھنا چاہتی ہے کہ کیا چینی صدر کے دورہ پاکستان کو کامیاب بنانے سے زیادہ اپنی انا کا مظاہرہ کرنا زیادہ ضروری تھا؟ میاں صاحب!قوم کو یہ بھی بتایئے کہ ڈان لیکس کے پس پردہ عناصر آپ کا اعتماد جیتنے میں کیسے کامیاب ہوئے؟ دفاع اور خارجہ امور جیسے اہم وزارتی قلمدانوں کو اپنے ہاتھ میں رکھنے میں آخر کیا سیاسی دوراندیشی پوشیدہ تھی؟ آپ نے وزیرخارجہ بھی آخری لمحات میں اس وقت لگایا جب معزز عدالت میں پیشی کیلئے ضرورت محسوس ہوئی۔ میں نے متعدد مرتبہ اصولی بنیادوں پر متروکہ وقف املاک بورڈ کیلئے ہندو چیئرمین کی تعیناتی کا مطالبہ کیا، اس سلسلے میں اعلیٰ عدلیہ کے قابل احترام سابق چیف جسٹس رانا بھگوان داس کا نام بھی تجویز کیا لیکن آپ نے اس اہم ادارے کا سربراہ (ن) لیگ سیکرٹیریٹ کے ایک اہلکار کو لگا دیا۔ میاں صاحب! آپ کے لگائے جانے والے نااہل سیاسی کارکن کوشکایات آنے پر سپریم کورٹ نے برطرف تو کردیا لیکن اس عرصے میں غیرمسلم پاکستانیوں کے جو پینتیس لاکھ ووٹ (ن)لیگ سے بدظن ہوئے، کیا یہ ذمہ داری بھی آپ کسی خلائی مخلوق پر عائد کریں گے؟ آپ کے سمدھی اسحاق ڈار نے ڈالر کے ساتھ جو کھلواڑ کیا آج اسکے نتیجے میں ڈالر 130روپے تک جاپہنچا ہے، اسی طرح لوڈ شیڈنگ کے مکمل خاتمے کا دعویٰ کرنے والوں کی اصلیت جان کرقوم حیران و پریشان ہے۔ ختم نبوت ﷺ جیسے حساس معاملے اور پھر جس طرح سے فیض آباد دھرنا مِس ہینڈل کیا گیا، اس سے (ن)لیگ عوام کی نظروں میں مزید گراوٹ کا شکار ہوئی۔ آج آپکی صاحبزادی کے زیراثر (ن)لیگ کا سوشل میڈیا سیل بدستور پروپیگنڈا کرنے میں مصروف ہے کہ کسی نادیدہ سازش کے نتیجے میں میاں صاحب کا راستہ روکا جا رہا ہے اور ساتھیوں کی وفاداری بدلی جارہی ہے، میں آپ کو بتانا چاہتا ہوں کہ آپ کا اپنا غروروتکبر، ٹکراؤ کی سیاست اور غلط پالیسیاں انہیں راہیں جدا کرنے پر مجبور کررہی ہیں۔ میاں صاحب! آپ زمینی حقائق سے آنکھیں چرا کر انتشار کی سیاست کو پروان چڑھا رہے ہیں جس کا مقصد عوام کا اعتماد قومی اداروں پر سے ختم کرکے جمہوری نظام کو عدم استحکام کا شکار کرنا لگتا ہے۔ بطور سیاستدان اور تجزیہ نگار میری سیاسی بصیرت کہتی ہے کہ عوام کی ایک بڑی تعداد آج بھی آپ کو پسند کرتی ہے لیکن آپ کابے بنیاد بیانیہ مستردہوچکا ہے جس کی باضابطہ تصدیق انتخابی نتائج کے موقع پرہوجائے گی۔ میں آخر میں یہی مشورہ دینا چاہوں گا کہ خدارا ملک و قوم پر رحم کرتے ہوئے مزید محاذ آرائی سے گریز کریں، اس کیلئے ضروری ہے کہ آپ ایک ویڈیو پیغام کے ذریعے اپنی غلطیوں اورغلط بیانیوں کا اعتراف، غرور و تکبر سے توبہ، ناراض ساتھیوں سے معذرت اور غلط مشیران سے ہمیشہ کیلئے چھٹکارے کا اعلان کریں، مجھے یقین ہے کہ آپکا اعترافی بیان عوام کے دل جیت سکتا ہے اور کھویا ہوا مقام بھی پھر سے مل سکتا ہے۔میاں صاحب! میں آپ سے استدعا کرتا ہوں کہ الیکشن کا جو بھی نتیجہ آئے، آپ ووٹ کو حقیقی انداز میں عزت دیتے ہوئے قوم کے فیصلے کا دِل سے خیرمقدم کریں۔ والسلام، آپکا خیراندیش، ڈاکٹر رمیش کمار وانکوانی۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین