شمالی و جنوبی کوریائی خاندان نے کوریائی جنگ میں جدا ہونے والے خاندانوں کے ملن پروگرام کو ظلم قرار دیا ہےجس کی وجہ سے دونوں ممالک کے درمیان سفارتی تعلقات سخت کشیدہ ہوگئے ہیں۔
رواں ہفتے دونوں ممالک نے مذکورہ پروگرام کیلئے ممکنہ امیدواروں کی فہرست کا تبادلہ کیا جس میں پہلے 500خاندانوں کو شارٹ لسٹ کیا گیا تھا بعدازاں کمپیوٹر لاٹری کے ذریعے100 امیدواروں کو منتخب کیاگیا ہے۔ معمر ترین درخواست گزار کی عمر 101 برس ہے۔ 1953 جنگ کے خاتمے کے بعد بچھڑ جانے والے افراد اپنے خاندان سے ملنا چاہتے ہیں۔ 2015میں آخری بار بعض کوریائی خاندان کا ملن ہوا تھا۔ تقریباً57ہزار افراد، جن میں 70سے زائد عمر کے افراد شامل ہیں، جو اب بھی بچھڑے ہوئے رشہ داروں سے ملنے کے لئے ترس رہے ہیں۔
1951 میں کوریائی جنگ میں بچ جانے والے لاکھوں افراد کو زبردستی اپنے خاندان سے جداہونا پڑا۔ اس جنگ میں نام نہاد غیر فوجی علاقہ زون (ڈی ایم زیڈ) کوریائی جزیرے مستقل طور پر شمال اور جنوبی کے درمیان ہمیشہ کے لیے الگ ہوگیا۔
1951 کوریائی جنگ میں 83سالہ پارک یانگ سن اکیلےہی جنوبی کوریا سے بھاگ گئیں تھی۔ اس وقت ان کی عمر 16سال تھی۔ انہوں نے کبھی نہیں سوچا تھا کہ وہ ہمیشہ کے لیے اپنے والدین سے جدا ہوجائیں گی۔ وہ اپنے بچپن کے گھر کو دیکھنا چاہتی ہیں اور شمالی کوریا میں آخری بار اپنے عزیز و اقارب سے ملنے کیلئے ترس رہی ہیں لیکن گزشتہ ماہ ان کا دل اس وقت ٹوٹ گیا جب 100بچھڑے خاندان کے ملاپ کے پروگرام کے حوالے سے جاری کی گئی حتمی فہرست میں ان کا نام نہیں تھاجن کو باضابطہ طور پر اگست میں اپنے خاندان سے ملنے کی اجازت دی جائے گی۔ پارک کی اپنے والدین کی یادیں بھی اب دھندلی ہوگئیں ہیں۔ ان کو والدین کی یادیں بہت تڑپاتی ہیں۔
انہوں نے دی ٹیلی گراف کو بتایا کہ’’ میرے خیال میں ہم نے ان کو کھودیا ہے جہاں ان سے دوبارہ ملنا ممکن نہیں ہے۔ میں نے خود سے وعدہ کیا تھا کہ میں مرنے سے پہلے ایک بارن ضرور اپنے گھر واپس جاؤنگی۔‘‘
پارک بھی ان کوریائی جنگ میں جدا ہونے والےخاندانوں میں شامل ہیں ۔انہوں نے وسیع پیمانےپر سیاسی تبدیلی کا مطالبہ کیا ہے تاکہ کویریائی جنگ میں بچھڑجانے والے خاندانوں کو اپنے گھر جانے کی اجازت مل سکے۔ انہوں نے کوریائی جنگ میں جدا ہونے والے خاندانوں کے ملاپ کے پروگرام کے بارے کہا’’یہ ہماری آخری امید کی کرن تھی۔ غالبا ہمارے کےلیے یہ آخری موقع تھا۔‘‘
کوریائی جنگ میں جدا ہونے والے خاندانوں کے افراد کا ملاپ کے پروگرام کا انعقاد 20 تا26جولائی تک شمالی کوریا کے ماونٹ کمگنگ ریزورٹ میں ہوگا۔ دونوں ملکوں کے سربراہان کی جانب سے اس پروگرام کا خیرمقدم کرتے ہوئے سیاسی جیت قرار دیاگیا ہے ۔ حالانکہ دونوں ملکوں کے سربراہان نے عدم دلچسپی کا مظاہرہ کرتے ہوئے دیر سےاعلیٰ سطح امن مذاکرات کا آغاز کیا ۔ خیال رہے کہ رواں برس کے آغاز سے قبل دونوں ملکوں کے درمیان امن مذاکرات شروع ہوئے تھے۔
لیکن جن خاندان کو اس پروگرام میں شامل نہیں کیاگیا ۔انہوں نےدونوں ممالک کے اس اقدام کو ’’ظلم‘‘ اور سیاسی ڈھونگ قرار دیاہے اور کہا ہے کہ یہ پروگرام صرف بچھڑے ہوئے خاندان کےلیے دکھ دینے کا سبب بنے گا۔
اس ضمن میں 84سالہ لی ینگ سنک کا کہنا ہے کہ ’’ہمیں صرف تھوڑے وقت کےلیے اپنے بچھڑے ہوئےخاندان سے ملنے کی اجازت دی جارہی ہے اس کے بعد ہم دوبارہ اپنوں سے علیحدہ ہوجائیں گے۔ یہ ایسا ہی جیسے کوئی ہمارے زخموں پر نمک چھڑک رہا ہے۔ ‘‘
لی ینگ سنک کائیسونگ کے بارڈر ٹاؤن سے اس وقت بھاگ گئےتھے،جب شمالی کوریا کے فوجیوں نے ان کے والد کو گولی مار کر ہلاک کردیا تھا۔ فوجیوں نے ان کے والد پر اینٹی کمیونسٹ ہونے کا الزام عائد کیا تھا۔ اس وقت وہ نوجوان تھے۔
انہوں نے آخری بار اپنی فیملی سے ملاقات کی تھی جس میں ان کے والد نے ان سے ادھار چکانے کے لیے پیسے مانگےتھےکیونکہ انہوں نے کسی سے کچھ پیسے ادھار لئے تھے۔
انہوں نے بتایا کہ ’’میں نے والد کو کہا کہ میں بہت واپس آؤں گا کیونکہ میں سڑک کے اس پار کھڑا ہوا تھا۔ اس کے بعد جیسے ہی میں پڑوسی کے گھر گیامجھے گولیاں چلنے کی آواز آئی۔ میرے پڑوسی نے بتایا کہ کچھ لوگ مجھے گرفتار کرنے آئے ہیں اس لئے میں وہاں سے فرار ہوگیا۔ ‘‘
کئی دہائی گزرنے کے بعد میں ابھی تک اپنے گھر ایک خط بھی نہیں بھیج سکا۔ انہوں نے بتایا کہ’’ یہ اقدام سے یہ بتایا جارہا ہے کہ ہم مختصر وقت میں اپنے خاندان سے ملنے کے بعد آرام سے مر جائیں۔ یہ قتل سے بھی بہت بڑا ’’ظلم‘‘ ہے۔ ان کو چاہیے کہ وہ ہمیں اپنوں سے رابطے میں رہنے کی اجازت دیں۔‘‘
86سالہ کم گیوم ابھی تک اپنے خوبصورت بچپن، والدین، دادادادی، اور کزن کو یاد کرکے روتی ہیں۔ وہ 18کی سال کی عمرمیں کائیسونگ سے بھاگ گئیں تھی جب شمالی کوریا کے فوجیوں نے 1950میں کائیسونگ میں قبضہ کرلیا تھا۔
انہوں نے بتایا کہ جب جنوبی کوریا کے فوجیوں نے اس علاقے کو دوبارہ قبضے کرلیا تھا تو والدین نے کہا کہ ہم وقتی طور پر کائیسونگ سے چلے جائیں گےاور حالات ٹھیک ہونے کےبعد واپس آجائیں گےکیونکہ ہمارا خیال تھا کہ بہت جلد جنگ ختم ہوجائے گی۔ ‘‘
انہوں نے مہاجرین کے ساتھ بھاگنےاور برفانی راستے اور خطرناک دریاؤں سےگزرنے کے بارے میں بتایاکہ ’’اقوام متحدہ کی ملٹری پولیس ہمیں ایک ایک کرکے دریا پار کرواتی تھی۔ ہم نے برف ٹوٹنے کی آواز بھی سنی تھی۔ ‘‘
انہوں نے روتے ہوئے بتایا ’’میں سیول جانے کےلئے بہت پرجوش تھی کیونکہ میری والدہ وہاں رہتی ہیں۔ ہماراخیال تھا کہ کچھ دونوں سب کچھ ٹھیک ہوجائے گا۔ اس وقت میں آخری بار اپنے والدین سے ملی تھی۔ ‘‘
جس صبح وہ بھاگی تھیں اس دن انہوں نے معمول کے مطابق صبح سویرے اسکول میں والی بال کی پریکٹس کرنے کا پلان بنایا تھا لیکن ان کے لئے وہ دن ایک ڈروانا خواب ثابت ہوا۔
کم نے بتایا کہ ’’میں جانتی تھی کہ حالات ٹھیک نہیں ہیں۔اس وقت میری والدہ باہر گئیں اوردوڑ کر گھرواپس آئیں اور بتایا کہ شمالی کوریا کے فوجیوں نے ٹاؤن پر حملہ کردیا ہے۔ ان کے والدین اپنے خاندانی باغ کی دیکھ بھال کےلیے وہیں رہ گئے۔ ‘‘
انہوں نے بتایا کہ ’’میری واحد خواہش ہے کہ میں واپس کائیسونگ جاکر اپنا گاؤں دیکھوں۔‘‘ یہ ری یونین سسٹم بہت خراب ہے میں ان لوگوں کی مایوسی کا اندازہ بھی نہیں کرسکتی جن لوگوں کو منتخب نہیں کیا گیا۔‘‘
ریڈ کراس کے مطابق اس پروگراگم میں 100بچھڑے خاندان کی تعداد بڑھانے کےلیے درخواست کی گئی تھی لیکن ملاقات کا دورانیہ کم ہونے کی وجہ سے پیانگ کی جانب سے اس درخواست کو مسترد کردیا گیا ۔
جنوبی کوریا میں 90سال کے زائد عمر کے افراد کو ترجیح دی گئی ہے اور میڈیکل کی ضرورت ہے۔جبکہ شمالی کوریا کی سخت سلیکشن کیٹگری نے اس بھی معاملے میں مزید پیچیدگی پیداکردی ہے۔ موقر اخبار ڈیلی شمالی کوریاکے مطابق ممکنہ خاندان کے افراد کو ان کی ریاست سے ’’وفادار‘‘ہونے کی وجہ سے ترجیح دی جارہی ہے۔
پارک چنگ ہی، جو 10ملین سیپریٹیڈ فیملی کمیٹی کی سربراہی کررہی ہیں، کے انکل شمالی کوریا میں رہتے ہیں، ان کا کہنا ہے کہ حال ہی میں امریکا، شمالی و جنوبی امریکا کے درمیان اجلاس میں ملاقات نے لوگوں کی امیدوں پر پانی پھیر دیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ’’ہم صرف امید کرتے ہیں یہ ملاپ سیاسی شو میں تبدیل نہ ہوجائے۔ یہ خاندان سے بچھڑے سے ہوئے افراد اپنے والدین کی قبروں کو دیکھنے کے آرزومند ہیں۔ ‘‘انہوں نے مزید بتایا کہ’’یہ تمام لوگ صرف 100خاندان کو منتخب کرنے پر سخت مایوسی کا شکار ہیں۔ صرف ان خاندان کوجدا ہونے والے خاندانوں سے ملنے کی اجازت دی جائے گی۔ دونوں ممالک صرف سیاسی مذاکرات کے لیے ہمیں استعمال کررہی ہیں،اگر ہمارے خاندان کے افراد زندہ ہیں تو ہمیں یہ جاننے کا حق ہے۔ ‘‘