• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جو سیٹ اپ بھی بن رہا ہے اسکی کامیابی یا لمبا چلنے کی امید نہیں،سہیل وڑائچ

کراچی (ٹی وی رپورٹ)جیو کے پروگرام ”آج شاہزیب خانزادہ کے ساتھ“ میں سینئر تجزیہ کار سہیل وڑائچ نے گفتگوکرتے ہوئے کہاہے کہ پی ٹی آئی میں تنظیم کی کمزوری نظر آرہی ہے، عمران خان کو اب جلسوں میں مقبولیت ثابت کرنے کی ضرورت نہیں ہے، ن لیگ کا مسئلہ یہ نہیں کہ لوگ ان کے ساتھ نہیں ہے، سینٹرل پنجاب میں ن لیگ جیت رہی ہے لیکن اسے مسئلہ جنوبی پنجاب ، بلوچستان، خیبرپختونخوا اور کراچی میں ہے، ن لیگ کے پاس وہ اضافی پچاس سیٹیں نہیں ہیں جو تحریک انصاف کو ملیں گی، ن لیگ کو جیتنے کیلئے 120سیٹیں لینی ہیں ،تحریک انصاف 80سیٹیں بھی حاصل کرلے تواس کی حکومت بن جائے گی کیونکہ تمام صوبوں سے اس کے اتحادی آئیں گے، تحریک انصاف کو سینٹرل پنجاب سے بیس پچیس سیٹیں چاہئیں جو وہ آسانی سے جیت جائیں گے۔ سہیل وڑائچ کا کہنا تھا کہ معلق پارلیمنٹ نہ ہو یہی ملک کیلئے بہتر ہے مگر لیکن موجودہ حالات میں سیاست رکی ہوئی ہے، جو سیٹ اپ بھی بن رہا ہے اس کی کامیابی یا لمبا چلنے کی امید نظر نہیں آرہی ہے، فیصل آباد ڈویژن میں ماضی میں پیپلز پارٹی کا اثر رہا مگر کافی عرصہ سے یہ ن لیگ کا گڑھ ہے، یہاں ن لیگ کو بظاہر کسی چیلنج کا سامنا نہیں ہے، فیصل آباد ڈویژن میں الیکٹ ایبلز کی بڑی تعداد پی ٹی آئی میں جانے کے بعد لگتا ہے تحریک انصاف یہاں سے کچھ سیٹیں حاصل کرنے میں کامیاب رہے گی، فیصل آباد سے رانا ثناء اللہ اور نثار جٹ کے درمیان سخت مقابلہ ہونے کی توقع ہے، رانا ثناء اللہ فیصل آباد کی سیاست میں مرکزی کردار ہیں، فیصل آباد میں رانا ثناء اللہ کے تمام مخالف اکٹھے ہو کر نثار جٹ کی حمایت کریں گے۔ سہیل وڑائچ نے کہا کہ جھنگ کا انتخابات میں ہر دفعہ نرالا انداز ہوتا ہے، پورے فیصل آباد ڈویژن میں پارٹی بنیاد پر جبکہ جھنگ میں شخصیت کی بنیاد پر الیکشن ہورہے ہیں۔سینئر تجزیہ کار مظہر عباس نے کہا کہ 2018ء کے انتخابات میں ایم کیو ایم کم از کم دس نشستیں ہارتی نظر آرہی ہے، اس کی بڑی وجہ ایم کیوا یم کے اندرونی اختلافات کے ساتھ نئی حلقہ بندیاں بھی ہیں، ماضی میں ایم کیو ایم کا جن حلقوں پر کنٹرول رہا ہے ان کی نئی حلقہ بندیاں اس طرح کی گئی ہیں کہ الیکشن میں وہاں ایم کیوا یم کو نقصان ہوگا، کراچی سے عمران خان، بلاول بھٹو زرداری،ڈاکٹر فاروق ستار ، مصطفیٰ کمال کامیاب ہوتے نظر آرہے ہیں، کراچی سے صوبائی اسمبلی کی ایک نشست پر خواجہ اظہار الحسن اور مصطفیٰ کمال کے درمیان بہت دلچسپ مقابلہ ہوتا نظر آرہا ہے،پیپلز پارٹی لیاری کے علاوہ این اے 237 پر مضبوط نظر آرہی ہے، این اے 238پر بھی دلچسپ مقابلہ ہوگا، ملیر کی نئی نشست پر بھی پیپلز پارٹی کی واضح برتری نظر آرہی ہے، این اے 247 پر بہت سخت مقابلہ ہوگا، امیدواروں کو دیکھیں تو سب سے بھاری بھرکم مقابلہ اسی حلقہ میں نظر آرہا ہے، یہاں جو امیدوا ربھی اپنے ووٹرز کوبڑی تعداد میں نکالنے میں کامیاب رہا اسے برتری ملے گی، شہباز شریف کے مقابلہ میں پی ٹی آئی کے فیصل واوڈا بہت کوشش کررہے ہیں جبکہ پی ایس پی اس نشست پر سرپرائز دینے کا دعویٰ کررہی ہے۔ قومی کرکٹر فخر زمان نے کہا کہ پاکستان کی طرف سے پہلی ڈبل سنچری بنانے کا کبھی نہیں سوچا تھا، اننگز کے دوران مجھے اندازہ نہیں تھا کہ ڈبل سنچری بنالوں گا، کوشش کررہا تھا کہ اپنی ٹیم کیلئے زیادہ سے زیادہ رنز بناؤں، میرا اسکور 170 سے اوپر ہوگیا تو مجھے مکی آرتھر نے پیغام بھجوایا ، سیفی بھائی بھی اشارے کررہے تھے کہ اب 200 تک جاؤں۔میزبان شاہزیب خانزادہ نےتجزیہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ کراچی کے انتخابی نتائج سب سے دلچسپ ہوں گے کیونکہ اس بار یہاں روایتی نتائج سے ہٹ کر نتائج آنے کی توقع ہے، تیس سال میں جو نتائج آتے رہے شاید اب وہ نہیں آئیں گے، انہوں نے کہا کہ الیکشن میں چار دن باقی ہیں لیکن سیاسی جماعتوں کے مختلف سربراہان کے بیانات سے لگ رہا ہے کہ انہیں اکثریت ملنے کی امید نہیں ہے، عمران خان کہہ رہے ہیں کہ اگر معلق پارلیمنٹ آئی تو ملک کیلئے اچھا نہیں ہوگا، ن لیگ دعویٰ کررہی ہے کہ نواز شریف کے واپس آنے سے انہیں توانائی ملی ہے، عمران خان کے جلسوں میں مجمع کم ہونا اور ن لیگ کے جلسوں میں مجمع کا چارج ہونا نشاندہی کرتا ہے کہ انہیں سیٹیں ملیں گی لیکن اس کے باوجود ن لیگ انتخابات میں اکثریتی پارٹی بننے کی امیدوار نظر نہیں آرہی ہے، کیا عمران خان کے حالیہ جلسوں میں مجمع کم ہونے کی وجہ تحریک انصاف کے رہنماؤں کے اپنے اختلافات ہیں۔شاہزیب خانزادہ نے کہا کہ پنجاب میں فیصل آبادڈویژن بھی اہم ہے ، 2013ء میں فیصل آباد کے چار اضلاع کی بیس نشستوں میں سے ن لیگ نے 18 میں کامیابی حاصل کی تھی جبکہ دو نشستوں پر آزاد امیدوار جیتے تھے، اب تحریک انصاف کا دعویٰ ہے کہ وہ فیصل آباد بھی جیتے گی، انتخابات سے پہلے بدلنے والے سیاسی منظرنامے اور ن لیگ سے ہونے والی سیاسی ہجرتوں کے بعد فیصل آباد میں تبدیلی خارج از امکان نہیں ہے، نئی حلقہ بندیوں کے بعد فیصل آباد ڈویژن سے قومی اسمبلی کی نشستوں کی تعداد بیس سے کم ہوکر اٹھارہ ہوگئی ہے، فیصل آباد شہر سے قومی اسمبلی کی دس نشستوں پر انتخاب ہوگا،اس ضلع سے بڑی بڑی شخصیات الیکشن لڑرہی ہیں، ن لیگ کو فیصل آباد کے تین حلقوں پر سخت مقابلے کا سامنا ہوسکتا ہے، این اے 102فیصل آباد ن لیگ کا مضبوط گڑھ ہے جو سابق وزیرمملکت طلال چوہدری کا حلقہ ہے، طلال چوہدری پچھلے انتخابات میں یہاں سے ایک لاکھ سے زائد ووٹ لے کر کامیا ب ہوئے تھے، پیپلز پارٹی کے نواب شیر نے یہاں سے 35ہزار ووٹ لیے تھے لیکن اب نواب شیر تحریک انصاف کے ٹکٹ پر الیکشن لڑ رہے ہیں، نواب شیر کو تحریک انصاف کے ووٹ ملنے کے بعد سوال اٹھ رہا ہے کہ طلال چوہدری کو پہلے کی طرح بڑے مارجن سے فتح ملے گی یا انہیں سخت مقابلہ کا سامنا ہوگا،پیپلز پارٹی نے اس حلقہ سے پچھلی دفعہ 82ہزار ووٹ لینے والے رائشہ جہان کوٹکٹ دیا ہے، فیصل آباد کے این اے 106میں انتخابی ماحول سب سے زیادہ گرم ہے، یہاں سے ن لیگ کے رانا ثناء اللہ پہلی مرتبہ قومی اسمبلی کی نشست پر الیکشن لڑرہے ہیں جبکہ ن لیگ کے سابقہ فاتح امیدوار نثار جٹ تحریک انصاف کے ٹکٹ پر ان کے سامنے ہیں، مقامی سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ن لیگ کیلئے اس مرتبہ این اے 106سے جیتنا لوہے کے چنے ثابت ہوسکتا ہے، این اے 108فیصل آباد پربھی سخت مقابلہ کی توقع ہے جو عابد شیر علی کا حلقہ ہے، عابد شیرعلی کا مقابلہ اس دفعہ تحریک انصاف کے فرخ حبیب سے ہے، فیصل آباد ڈویژن کا ایک اور اہم ضلع جھنگ ہے جو ملک کے چند دلچسپ ترین انتخابی حلقوں میں شامل ہے، یہاں الیکشن کی کامیابی میں عقیدے کا بھی بڑا عمل دخل ہوتا ہے، جھنگ میں قومی اسمبلی کی تینوں نشستوں پر اہم مقابلہ کی توقع ہے، این اے 114پر اصل مقابلہ پیپلز پارٹی کے فیصل صالح حیات اور تحریک انصاف کے محبوب سلطان کے درمیان ہوگا،گزشتہ انتخابات میں یہاں سے ن لیگ کے ٹکٹ پر غلام بی بی بھروانہ نے الیکشن جیتا تھا مگر اس مرتبہ ن لیگ نے یہاں سے کوئی امیدوار نہیں اتارا، این اے 115جھنگ سے بڑے سیاسی نام الیکشن لڑرہے ہیں، ن لیگ کی سابقہ ایم این اے غلام بی بی بھروانہ تحریک انصاف، محمد احمد لدھیانوی آزاد، ن لیگ سے ناطہ توڑنے والے شیخ وقاص اکرم آزاداور ن لیگ اور پیپلز پارٹی سے وابستہ رہنے والی عابدہ حسین کی صاحبزادی سیدہ صغریٰ امام بھی یہاں سے آزاد حیثیت میں الیکشن لڑرہی ہیں۔شاہزیب خانزادہ کا کہنا تھا کہ ضلع ٹوبہ ٹیک سنگھ میں ن لیگ پراعتماد نظرا ٓرہی ہے کیونکہ جن امیدواروں نے یہاں 2013ء میں انتخاب جیتا تھا ن لیگ نے 2018ء کے انتخابات میں بھی انہیں کو ٹکٹ دیا ہے۔ شاہزیب خانزادہ نے تجزیے میں مزید کہا کہ کراچی کے انتخابی نتائج سب سے دلچسپ ہوں گے کیونکہ اس بار یہاں روایتی نتائج سے ہٹ کر نتائج آنے کی توقع ہے، تیس سال میں جو نتائج آتے رہے شاید اب وہ نہیں آئیں گے، ماضی میں 1988ء سے 2013ء تک کراچی کی قومی اور صوبائی اسمبلی کی زیادہ تر نشستوں پر ایم کیوا یم کے امیدوار کامیاب ہوتے رہے ہیں لیکن اب صورتحال مختلف ہے، ایم کیو ایم اس وقت دو حصوں میں بٹی ہوئی ہے، ایم کیو ایم کا ووٹ بینک تقسیم ہورہا ہے، اس بار پاک سرزمین پارٹی بھی میدان میں ہے اور کراچی میں بھرپور انداز میں سیٹیں جیتنے کی دعویدار ہے، پیپلز پارٹی اور ن لیگ بھی بھرپور تیاری سے مقابلہ پر اتری ہے اس لئے سب کی نظریں کراچی پر لگی ہوئی ہیں، وزارت عظمیٰ کے ممکنہ امیدوار کراچی سے بھی انتخابات لڑ رہے ہیں، تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان ، پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری اور ن لیگ کے صدر شہباز شریف کراچی سے انتخاب لڑ رہے ہیں ، کراچی اس وقت وہ واحد شہر ہے جہاں سے تینوں بڑی سیاسی جماعتوں کے سربراہ انتخابی میدان میں اترے ہیں۔ شاہزیب خانزاد نے کہا کہ کراچی سے این اے 243سے تحریک انصاف کے چیئرمین انتخابات میں حصہ لے رہے ہیں، ان کے سامنے پیپلز پارٹی کی شہلا رضا، ایم کیو ایم کے علی رضا عابدی، ن لیگ کے شیخ محمد شاہ جہان، متحدہ مجلس عمل کے اسامہ رضی اور پاک سرزمین پارٹی سے مزمل قریشی انتخابی میدان میں ہیں، این اے 246سے بلاول بھٹو زرداری انتخابات میں حصہ لے رہے ہیں، ان کے مدمقابل ایم کیوایم کے محفوظ یار خان، تحریک انصاف کے عبدالشکور، متحدہ مجلس عمل کے مولانا نور الحق اور ن لیگ کے سلیم ضیاء ہیں، ن لیگ کے صدر این اے 249بلدیہ ٹاؤن سے انتخابات میں حصہ لے رہے ہیں، شہباز شریف کا کراچی سے یہ پہلا الیکشن ہے، اس حلقہ سے تحریک انصاف کے فیصل واوڈا ، پاک سرزمین پارٹی کے وسیم آفتاب ،پیپلز پارٹی کے قادر خان مندوخیل اور ایم کیوا یم کے اسلم شاہ بھی انتخاب لڑرہے ہیں، کراچی کا ایک دلچسپ حلقہ این اے 247بھی ہے، اس بار اس حلقہ میں تمام سیاسی جماعتیں کامیابی کیلئے زور لگارہی ہیں، ایم کیو ایم پاکستان کے رہنما ڈاکٹر فاروق ستار اس حلقہ سے بھی انتخابات میں حصہ لے رہے ہیں، تحریک انصاف کے ڈاکٹر عارف علوی، پاک سرزمین پارٹی کی فوزیہ قصوری، ایم ایم اے کے محمد حسین محنتی، پیپلز پارٹی سے عزیز میمن، ن لیگ کے سینیٹر مشاہد اللہ خان کے بیٹے عفنان اللہ خان اور معروف سماجی کارکن جبران ناصر بھی اس حلقہ سے انتخاب لڑ رہے ہیں، جبران ناصر ایک بھرپور مہم چلارہے ہیں، اس حلقہ سے گزشتہ انتخاب میں تحریک انصاف کے ڈاکٹر عارف علوی کامیاب ہوئے تھے ۔

تازہ ترین