• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ہوا اور سورج کا مقابلہ

رباب شکیل، کراچی

ایک مرتبہ کا ذکر ہے کہ سورج اور ہوا کے درمیان بحث شروع ہوگئی کہ کون زیادہ طاقت ور اور بہتر ہے۔ دونوں اپنے آپ کو ایک دوسرے سے افضل سمجھ رہے تھے۔ ہوا نے کہا کہ، ’’میں بڑے بڑے درخت، عالی شان مکان یہاں تک کہ اونچے اونچے پہاڑ ایک لمحے میں اکھاڑ کر پھینک سکتی ہوں، صرف یہ ہی نہیں بلکہ سمندر میں طوفان برپا کرسکتی ہوں، جہاز ڈبو سکتی ہوں اور اگر چاہوں تو آندھی بن کر دن کو رات بنا سکتی ہوں۔ جس دن میں ذرا دم لوں دنیا کے تمام کام بند کر دوں‘‘۔

سورج نے بھی غرور سے سر اونچا کرتے ہوئے کہا کہ، ’’میری تپش کے آگے کوئی نہیں ٹھہر سکتا، پہاڑ جلنے لگتے ہیں، لاکھوں من برف پانی ہوجاتی ہے۔ سمندر کھولنے لگتا ہے، جو میرا مقابلہ کرتا ہے، میں اس کا منہ تک جھلسا دیتا ہوں۔‘‘ بالآخر یہ طے پایا کہ دونوں ایک ہی شہ پر اپنی طاقت کی زور آزمائی کرتے ہیں، تاکہ پتا چل سکے کہ کون زیادہ طاقت ور ہے۔ اسی اثناء میں وہاں سے ایک مسافر کا گزر ہوا تو دونوں نے اسی پر اپنی طاقت کا زور آمانے کا فیصلہ کیا۔ بے چارے مسافر کی بلاوجہ شامت آگئی تھی۔ وہ غریب چلا جا رہا تھا، دونوں نے شرط لگائی کہ جو، اس کا لبادہ اتروانے میں کام یاب ہو گیا وہی زیادہ بہتر اور طاقت ور ہے۔ پہلے ہوا کی باری تھی، اس نے زور و شور سے چلنا شروع کیا تا کہ بے چارے غریب راہ گیر کا لبادہ اُڑھ جائے۔ ہوا کا زور اس قدر تھا کہ وہ لبادے میں بھر کر مسافر کو لے اڑی، مسافر نے جلدی جلدی خود کو بچانے کے لیے چاروں طرف سے لبادے کو لپیٹ لیا۔ جب ہوا اپنی تمام تراکیب آزما چکی تو باری آئی آفتاب میاں کی، اس نے آہستگی سے چمکنا شروع کیا۔ آہستہ آہستہ دھوپ تیز ہوتی چلی گئی۔ جب گرمی مسافر کی برداشت سے باہر ہوئی تو اس نے لبادہ اتار کر پھنک دیا۔ اور یوں جیت سورج کی ہوئی۔

سبق:دیکھا پیارے ساتھیو! جو کام خاموشی سے کیا جائے اس کی کام یابی زیادہ شور کرتی ہے نسبتاً اس کام کے جو زور و شور سے کیا جائے اور پھر اکثر ایسے کاموں میں ناکامی کا سامنا بھی رہتا ہے۔ لہٰذا ہمیں چاہیے کہ کوئی بھی کام کرتے وقت صبر، اطمئنان اور خاموشی کا دامن نہ چھوڑیں۔

تازہ ترین
تازہ ترین