شکرگڑھ نورکوٹ (انجینئر منظور حسین) 2018 کے عام انتخابات میں چند روز باقی ہیں ملک کے باقی حصوں کی طرح نارووال میں بھی سیاسی گہماگہمی، جوڑ توڑ اپنے عروج پر ہے تاہم شکرگڑھ کی سیاست میں بالخصوص اور نارووال کی سیاست میں بالعموم کچھ نئے ٹرینڈ نظر آ رہے ہیں،پی ٹی آئی ،ن لیگ میں اقتدار کی سخت رسہ کشی جاری ہے تاہم فیصلہ عوامی موڈ کرے گا۔شکرگڑھ میں ایوان اقتدار کی ہواؤں کے رخ کے ساتھ ووٹر کا مزاج اور اس کا انتخاب بدلتا ہے، تاہم اس بار پی ٹی آئی اور نون لیگ کے درمیان اقتدار کی رسہ کشی میں کامیابی کا ہما کس کے سر بیٹھے گا.... ابھی تک سوالیہ نشان بنا ہوا ہے!! جس کے باعث چڑھتے سورج کی سرزمین، شکرگڑھ کے باسیوں کی چڑھتے سورج کی پرستش کے فارمولے پر عمل کرنا مشکل ہو گیا ہوا ہے. ایک طرف پی ٹی آئی کے ساتھ مبینہ خلائی مخلوق کا ہاتھ ، تو دوسری جانب ن لیگ کے ترقیاتی کام اور انکی قیادت کی مظلومیت کے باعث ووٹر مخمصے کا شکار ہیں۔ سیاسی فضا کے ابر آلود ہونے کی وجہ سے خاموش اور متفکر ووٹرز کی بڑی تعداد تاحال کسی بھی پارٹی کا انتخاب نہیں کر سکی. این اے 77 سے مسلم لیگ نون کی طرف سے دانیال عزیز کی اہلیہ مہ ناز اکبر، پی ٹی آئی کی جانب سے میاں رشید، آزاد حیثیت سے چوہدری طارق انیس اور تحریک لبیک پاکستان کے امیدوار چوہدری اشفاق تاج کے درمیان کانٹے دار مقابلہ کی توقع کی جا رہی ہے۔ نئی حلقہ بندی کے تحت تحصیل ظفروال اور شکر گڑھ پر مشتمل اس حلقہ میں برادرا زم دھڑا بندی اور نظریاتی ووٹوں کی کثیر تعداد موجود ہے۔ اہل ظفروال کو طارق انیس اور دانیال عزیز کا چاؤ ہے تو اہل شکرگڑھ کو میاں رشید کی خوشی بھی ہے کہ نئی چوائس مل گئی.اشفاق تاج دو بار ایم این اے رہ چکے ہیں اور تحریک لبیک کا نظریاتی ووٹ بھی ان کا مقدر بنے گا.چوہدری طارق انیس اپنے دھڑے اور سابقہ دور میں ترقیاتی کاموں کے حوالے سے پہچان کے مالک ہیں، اس حلقہ میں گجر اور راجپوت دو بڑی برادریوں کے علاوہ انصاری اور جٹ بھی فیصلہ کن تعداد میں موجود ہیں میاں رشید راجپوت جبکہ باقی تینوں کا تعلق گجر برادری سے ہے گجروں کے ووٹ تقسیم ہونے کا فائدہ میاں رشید کو پہنچ سکتا ہے اب جبکہ سیاسی مطلع صاف ہونے میں چند گھنٹوں کی مسافت باقی ہے، کسی بھی امیدوار کو فیورٹ قرار نہیں دیا جاسکتا... اس حلقہ میں پی ٹی آئی یا ن لیگ کی قیادت کی جانب سے کسی بڑے جلسہ سے خطاب نہ کرنے کی وجہ سے بھی سیاسی مبصروں اور پنڈتوں کو کامیابی کا فال نکالنے میں مشکل درپیش ہے. اسی طرح نارووال اور شکرگڑھ پر مشتمل حلقہ این اے78 نارووال میں سابق وفاقی وزیر داخلہ احسن اقبال اور معروف گلوکار اور پی ٹی آئی رہنما ابرار الحق کے درمیان ون ٹو ون مقابلہ متوقع ہے. ابرارالحق کو جاٹ برادری کی مکمل حمایت حاصل ہے، پی ٹی آئی کا نظریاتی ووٹ بینک بھی رکھتے ہیں۔یہاں قابل ذکر بات یہ ہے کہ این اے 78 کے صوبائی حلقہ پی پی 48 میں دانیال عزیز کے والد انور عزیز آزاد حیثیت میں نا صرف ن لیگی امیدوار احسن اقبال کے کزن رانا منان کے خلاف کھل کر الیکشن لڑ رہے ہیں.ساتھ ہی ساتھ وہ پی ٹی آئی کے امیدوار ابرار الحق کی بھی کھلم کھلا حمایت کر رہے ہیں لہذا ان کے ووٹر ز سے احسن اقبال کو ووٹ ملنے کی توقع بھی کم ہی کی جارہی ہے. بلدیاتی انتخابات میں بھی مقامی سطح پر ن لیگ میں اختلافات تھے مگر اعلیٰ قیادت نے ختم کر ادیے تھےاب جبکہ مسلم لیگ ن کو ایک ایک نشست کی ضرورت ہے، ن لیگی قیادت اس تقسیم کو ختم کرانے میں تاحال خاموش ہے. اگر آخری دن تک معاملہ جوں کا توں رہا تو گجر برادری کے کافی زیادہ ووٹ ابرارالحق کے پلڑے میں جاتے دکھائی دے رہے ہیں. دوسری جانب احسن اقبال نے اربوں روپے کے ترقیاتی کاموں کے انبار لگا کر نہ صرف نارووال کا حلیہ بدل دیا ہے بلکہ اپنے مخالفین کو بھی تعریف پر مجبور کیا ہے. خدمت کو ووٹ دو، کے فلسفہ پر سوچنے پر مجبور کر دیا ہے. نئی حلقہ بندیوں کے تحت NA 78 کے اندر شامل ہونے والی نئی یونین کونسلوں میں احسن اقبال کے بیانیے کو بے پناہ مقبولیت مل رہی ہے. احسن اقبال نے گزشتہ پانچ سالوں میں ہر ہفتے حلقہ میں آکر عوامی مسائل حل کیے. یونیورسٹیوں، کالجز ،سٹیٹ آف دی آرٹ ہسپتال، اسپورٹس سٹی، جمنیزیم جیسے بڑے بڑے پراجیکٹس کے ذریعے عوامی خدمت کی. شرافت، برداشت اور انتقام سے پاک سیاست کو فروغ دیا۔سیاسی مبصرین کے مطابق تحصیل شکرگڑھ میں آنے والی یوسیز میں احسن اقبال کو برتری حاصل دیکھنا یہ ہے کہ تحصیل نارووال کے ووٹر کس حد تک احسن اقبال سے وفا کرتے ہیں . جس کا بہر صورت ان کو سیاسی فائدہ حاصل ہوگا چونکہ فیصلہ بالآخر ووٹ کی پرچی نے کرنا ہے سیاسی کھیل میں لفظی جمع خرچ سے کسی بھی امیدوار کو قبل از وقت فتح کا پروانہ جاری کرنا محال ہے اس حلقہ میں کانٹے دار مقابلے کی توقع کی جا رہی ہے۔