• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

1990ء کے ابتدائی ایام تھے- وادی کشمیر میں عوامی شورش اپنےجوبن پر تھی- لاکھوں کی تعدادمیں مردو زن آئے روز سڑکوں پر مظاہرے کرتے ہوئے آزادی کے حق میں نعرے لگاتے رہتے تھے- دکانیں، اسکول، سرکاری دفاتر یہاں تک کہ اکثر تھانے اور کچہریاں بھی بند یا غیر فعال رہتی تھیں- سڑکوں اور بازاروں میں یا تو لوگوں کا انبوہ کثیر ہوتا تھا یا دوران کرفیو فوجیوں کا قبضہ- حالات بد سے بدتر ہوتے گئے اور پھر اچانک گلی، محلوں، گاؤں اور قصبوں سے ہزاروں کی تعداد میں نوجوان کپوارہ کے دور دراز سرحدی علاقوں کا رخ کرنے لگے تاکہ کسی طرح سے آزاد کشمیر جاکر وہاں سے عسکری تربیت حاصل کی جاسکے- آزاد کشمیر کی طرف دوڑ لگانے والوں میں ہر طرح کے لوگ جن میں مزدور، طالب علم، اساتذہ، ڈاکٹر، انجینئر، کاریگر، خطاط، ادیب اور شاعر شامل تھے- سرحد پار جانے والوں میں بیسیوں افراد کیساتھ میرا ذاتی تعلق تھا جن میں سے اکثر اب اس دنیا میں نہیں ہیں- ان ایام میں صورتحال اس قدر عجیب اور خوفناک تھی کہ روزانہ درجنوں کی تعداد میں کشمیری نوجوان سرحد پار کرنے کی کوششوں کے دوران بڑی کسمپرسی کی حالت میں مارے جاتے تھے مگر اسکے باوجود روزانہ سینکڑوں کی تعداد میں نوجوان سرحد کا رخ کرتے تھے-میں نے بھی ان ایام میں اپنے دوستوں کی معیت میں آزاد کشمیر جانے کا ارادہ کیا- دوران سفر ہمارے کئی ساتھی بھارتی سرحدی فوج کی فائرنگ سے جاں بحق ہوگئے، کئی لوگ زخمی بھی ہو گئے اور ہم باقیماندہ افراد بمشکل اپنی جان بچاکر آئے-
ان ہی دنوں اسلام آباد کے جنگلات منڈی علاقے سے بائیس سالہ الطاف میر اپنے دستکاری کے پیشے کو خیرباد کہہ کے علیحدگی پسند عسکری تحریک میں شامل ہونے کیلئے نکل پڑے- وادی کشمیر میں اسلام آباد کا قصبہ تاریخی حیثیت رکھتا ہے جسے مغل دور حکومت میں اسوقت کے گورنر اسلام خان نے بسایا تھا جس نے علاقے کی تعمیر اور ترقی کے لئے کافی کام کئے- انیسویں صدی کے اوائل میں ہندو ڈوگرہ حکومت نے مقامی برہمنوں کے دباؤ میں آکر قصبے کا نام بدل کر اننت ناگ رکھ دیا تاکہ علاقے کو دیومالائی ہندو تہذیب کیساتھ استوار کیا جاسکے- ضلع اننت ناگ میں ہندوؤں کے کئی متبرک مقامات ہیں جن میں شری امرناتھ کی گپھا پورے بھارت میں مشہور ہے جس کو دیکھنے کیلئے ہر سال ملک بھر سے لاکھوں ہندو یاتری سفر کرتے ہیں-
الطاف میر ماضی کی مشہور عسکری تنظیم العمر مجاہدین سے وابستہ رہے اور چار سال تک پاکستان اور آزاد کشمیر میں مقیم رہے- 1995 ء میں آپ واپس وطن وارد ہوئے تو صورتحال یکسر بدل چکی تھی- آزادی کے نام پر نکلنے والے سینکڑوں نوجوان بھارت نواز جنگجو گروپوںاخوان المسلمون اور مسلم مجاہدین میں شامل کئے گئے تھے جو آزادی پسند عسکریت سے وابستہ نوجوانوں، انکے اہل خانہ اور حمایتیوں کو چن چن کر اور نہایت ہی بیدردی سے قتل کررہے تھے- اس خطرناک صورتحال میں الطاف میر کے لئے اپنے قصبے حتیٰ کہ پورے کشمیر میں کہیں پربھی رہنا خطرے سے خالی نہیں تھا-آخرکار وہ صرف چند ماہ کے بعد ہی واپس آزاد کشمیر چلے گئے- کشمیر میں میر دستکاری کیساتھ ساتھ کشمیری میں لوک گیت بھی گاتے تھے جنہیں انکے علاقے میں شادی بیاہ کی محفلوں میں کافی پسند کیا جاتا تھا- آزاد کشمیر پہنچتے ہی میر نے عسکریت کو خیرباد کیا اور اپنی گائیکی پر توجہ دی- جلد ہی وہ مظفرآباد میں قائم ریڈیو پاکستان سے گانے لگ گئے جہاں وہ کئی سالوں سے اپنے فن کے جوہر دکھا رہے ہیں- حال ہی میں ان کی آواز میں مشہور کشمیری لوگ گیت ’’ہا گلو‘‘ جاری ہوا تو الطاف کی شہرت چشم زدن میں چہار دانگ میں پھیل گئی- خاص کر وادی کشمیر میں تو الطاف میر راتوں رات ایک بہت بڑے سیلبرٹی کے طورپر ابھرے- کشمیری ثقافت کی تاریخ میں یہ پہلی بار ہوا ہے کہ پاکستان سے جاری ہونے والے کسی کشمیری گیت کو اسقدر پذیرائی ملی ہو- ورنہ حقیقت تو یہ ہے کہ خود کشمیر میں یہ زبان شکست و ریخت کا شکار ہے اور اسکے ساتھ غیروں جیسا سلوک کیا جاتا ہے-
کشمیری زبان کا یہ المیہ رہا ہے کہ اسے بادشاہوں، ان سے وابستہ درباریوں اور اکابرین کی جانب سے بے قدری کا سامنا رہا ہےاس لئے کہ وہ اسے بےوقعت سمجھتے رہے کیونکہ یہ بے دست و پا عوام الناس کی زبان تھی- اگر صوفیائے کرام اسے اپنا وسیلہ اظہار نہ بناتے تو شاید یہ زبان کب کی ختم ہو چکی ہوتی- کشمیر کی مشہور صوفی شاعر للہ عارفہ اور بہت بڑے صوفی بزرگ نور الدین رشی جنہیں علمدار کشمیر بھی کہا جاتا ہے نے کشمیری شاعری کی معرفت لوگوں تک اسلام اور وحدانیت کا پیغام پھیلایا اور ساتھ ہی لوگوں کو ظلم و جبر اور استحصال کے خلاف لڑنے کی تحریک عطا کی- نور الدین رشی نے تو شدت پسندی کے خلاف بھر پور جہاد کیا اور انکے استحصالی طور طریقوں کی کھل کر اور بار بار مذمت کی- آپ کے کلام سے نہ صرف یہ کہ لوگوں کی تعلیم و تربیت کا انتظام ہوگیا بلکہ کشمیری زبان کو مضبوط سہارا بھی نصیب ہوا- ان کے بعد آنے والے شاعروں میں محمود گامی، وہاب کھار، احد زرگر اور ان ہی کے قبیل کے سینکڑوں اور شعرا نے کشمیری میں شعر کہے اوریوں اس زبان کی قدر و منزلت میں اضافہ کرتے رہے- ورنہ وقت کے حکمرانوں نے تو اسے کبھی بھی در خور اعتناء نہیں سمجھا- کشمیر میں پہلے پہل تو سنسکرت کو درباری اور تحریری زبان کا درجہ حاصل تھا- چوہدویں صدی کے اوائل میں جب مسلم سلطنت کا قیام عمل میں آیا تو سنسکرت کی جگہ فارسی نے لے لی- انیسویں صدی کے اوائل میں ہندو ڈوگرہ شاہی کے آخری دور میں فارسی کی جگہ اردو کو سرکاری اور درباری زبان کا درجہ مل گیا- اگرچہ اب اکثر سرکاری معاملات کے لئے انگریزی کا استعمال ہوتا ہے اور کئی جگہ ہندی بھی مستعمل ہے مگر اردو کو اب تک سرکاری زبان کا درجہ حاصل ہے-
1930 ء کی دہائی میں کشمیریوں نے بے پناہ سرکاری ظلم و جبر کے خلاف اور اپنے حقوق کے حصول کیلئے مرحوم شیخ محمّد عبداللہ کی قیادت میں جو جدوجہد شروع کی اسکے نتیجے میں کشمیری اپنی زبان، ادب اور ثقافت سے آگاہ ہوئے جس سے کئی نئے شعراء اور ادیبوں نے کشمیری زبان کو اپنا وسیلہ اظہار بنایا- ان ہی میں مہجور بھی تھے جنھوں نے ’’ہا گلو‘‘ کا گیت تخلیق کیا جس نے کشمیری زبان کو پاکستان بھر میں متعارف کرایا- مہجور اگرچہ کوئی دانشور یا شاعر نہیں تھے مگر ان کی شاعری میں حددرجہ غنائیت کی وجہ سے آپ بہت مشہور ہوگئے- آپ کے ہم عصروں میں عبدالاحد آزاد بہت بڑے شاعر اور دانشور تھے جو اشتراکی فلسفے اور علامہ اقبال کی فکر دونوں سے بیک وقت کافی متاثر تھے۔ آزاد کی شاعری میں انقلاب اور تحرک بنیادی فلسفہ ہے جس میں وقت کے سامراج کے خلاف لڑنا اور اس کی پیش کردہ آسائشوں کی آلائشوں سے محفوظ رہنا بہت ضروری ہے-یہ کشمیری گیت پیش کرکے سرحد کے دونوں جانب رہنے والے کشمیریوں کو انسپائر کیاگیا ہے- امید ہے کہ مستقبل میں مزید ایسی کوششیں کی جائیں گی تاکہ ظلم و جبر کے سائے میں رہنے والے کشمیروں کےغم کا کچھ مداوا ہوسکے-
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین