• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

میرے دادا جان کا شمارخاصے روشن خیال لوگوں میں ہوتا تھا۔ وہ ہر بات میں دلیل کے قائل تھے، ڈر خوف اور وسوسوں کو قریب بھی پھٹکنے نہ دیتے تھے۔ حقیقتاً بہادر اور آہنی اعصاب کے مالک تھے، جب لوگ ان کے سامنے جنّات وغیرہ کا ذکر کرتے، تو ان کی منطق سب سے الگ ہوتی، وہ کھلّم کھلّا ان کا مذاق اڑاکر انہیں زچ کردیتے تھے۔ تعلیم حاصل کرنے کے بعد ملازمت بھی ان کے مزاج کے مطابق ایسے محکمے میں ملی، جہاں انہیں ہر طرح سے کھلی آزادی اور جگہ جگہ گھومنے کا موقع میسّر آیا۔ وہ ریلوے میں اسٹیشن ماسٹر تھے، اس لیے ان کا ہر لمحہ مصروف اورپرجوش گزرتا تھا، انہیں دو ملازم بھی خدمت کے لیے ملے ہوئے تھے، ان کی جس جگہ بھی پوسٹنگ ہوتی، وہ ملازم ان کے ساتھ رہتے تھے۔

ایک دفعہ دادا کی پوسٹنگ سکھ بیاس نامی ایک ویران اسٹیشن پر ہوگئی۔ دراصل اس گائوں کا نام بھارت سے آنے والے دریائے بیاس کے نام پررکھا گیا تھا، جب بھارت نے اپنی سیاسی چالوں سے دریا کے بہائومیں رکاوٹیں ڈالنا شروع کیں، تو وہ سوکھنے لگا اور جب مکمل طور پر سوکھ گیا، تو گائوں والے اسے سوکھ یعنی ’’سوکھا ہوا دریا‘‘ کہنے لگے۔رفتہ رفتہ یہ گائوں ’’سکھ بیاس‘‘ کے نام سے پکارا جانے لگا۔ دادا کے ساتھ ان کے ملازموں کی پوسٹنگ بھی اسی جگہ کردی گئی تھی۔ اس وقت دادا جی نے اس ویران مقام پر بچّوں کی پڑھائی وغیرہ کے مسائل کی وجہ سے اپنی فیملی کو ساتھ رکھنا مناسب نہیں سمجھا اور اکیلے ہی اسٹیشن سے قریب واقع گھرمیں رہنے لگے۔ وہ کشادہ کوارٹر تھا، جس کی چھت بھی وسیع تھی، گرمیوں کے دن تھے، دادا اکثر چھت پر جاکر سوجایا کرتے تھے، کبھی کبھی ملازم بھی ان کے ساتھ چھت پر چلے جاتے تھے۔ بستی، اسٹیشن سے بہت دور واقع تھی، اسٹیشن کے اردگرد کا علاقہ دور دور تک ویران تھا، گاڑی آنے پر وہاں تھوڑی بہت ہلچل مچ جاتی تھی، پھر ایک دَم سنّاٹا چھا جاتا تھا۔ 

کھانے پینے کا سامان لانے کے لیے ملازم سرشام ہی بستی کی طرف روانہ ہوجاتے، اور تقریباً عشاء کے بعد کھانے کے ساتھ ناشتے کا سامان بھی خرید لاتے۔ اکثر وہ دونوں ملازم بستی ہی سے کھاکر آتے اور دادا جان کے لیے ٹفن میں کھانا بھرواکر لے آتے، کھانے کے دوران ملازم دادا کو بستی کے لوگوں کی باتیں بتاتے اور کہتے کہ ’’بستی اور اس کے آس پاس کے گائوں والے اسٹیشن کے راستے سے آنے جانے سے ڈرتے ہیں، وہ اسے پراسرار جگہ سمجھتے ہیں۔ یہاں سے خصوصی طور پر شام اور رات کے وقت گزرنا خطرے سے خالی نہیں۔‘‘ دادا جان انہیں سمجھاتے کہ ’’ایسی فضول باتیں مت سنا کرو، کوئی بھوت پریت ویرانوں میں اچھلتے کودتے نہیں پھرتے۔‘‘ دادا کے سمجھانے کے باوجود ملازم شام کو کھانا لانے کے لیے دور بستی میں جانے سے خوف زدہ ہوتے تھے۔

دو ماہ گزر چکے تھے، ابھی تک اس جگہ انہیں کوئی ایسی شئے دکھائی نہیں دی تھی، جس سے ان کے خیال کی تصدیق ہوسکتی کہ یہ علاقہ آسیب زدہ ہے، توکچھ دنوں بعد ملازم بھی بے فکری سے آنے جانے لگے۔ ایک روز شام کو دونوں ملازم حسبِ معمول روانہ ہوئے، اس روز دادا کو بھوک بہت ستارہی تھی، کافی دیر ہوگئی اور ملازمین نہیں آئے، تو دادا نے اندھیرا ہوجانے پر لالٹین جلائی اور چار پائی پر لیٹ گئے۔ انہیں نیند آگئی۔ اچانک کتّے کے بھونکنے پر آنکھ کھلی، تو دیکھا دونوں ملازم ان کے سامنے سہمے کھڑے ہیں۔ دادا اٹھ بیٹھے، رات گہری ہوچکی تھی۔ دادا نے ڈانٹ کر پوچھا، ’’بدبختو، اتنی دیر کہاں لگادی، میری تو بھوک ہی مرگئی۔‘‘ نوکر خاموش کھڑے رہے۔ 

دادا نے کہا، ’’جلدی سے کھانا لگائو، مجھے نیند آرہی ہے۔‘‘ایک نوکرنے جواب دیا، ’’صاحب کھانا نہیں ہے۔‘‘ غیر متوقع جواب سن کر دادا اچھل کر کھڑے ہوگئے اور غصّے سے پوچھا، ’’کیا مطلب، سارا کھانا تم دونوں ہی کھا گئے؟‘‘ دوسرے نوکر نے جواب دیا’’صاحب جی! آج ہمارے ساتھ انہونی ہوگئی۔ ہم نے اپنے لیے بھی کھانا ٹفن میں ڈلوایا تھا، کیوں کہ ہم نے خصوصی طور پر مچھلی پکوائی تھی اور اسی کے بنوانے میں دیر بھی ہوگئی، سوچا، گھر جاکر ہی کھالیں گے، نان گرم گرم تھے، مشکل سے ٹفن میں ٹھونسے، ابھی بستی سے دو کلو میٹر کا فاصلہ ہی طے کیا تھا کہ پتا نہیں کیسے درختوں کے پیچھے سے ایک عجیب سا جانور نکلا اور اچانک ہی ہمارے سامنے آکر کھڑا ہوگیا، قد کاٹھ میں وہ بھینسے جیسا تھا، مگر سینگ دو نہیں، بلکہ کئی تھے۔ ہم دونوں نے اسے دیکھتے ہی پھرتی سے جگہ بدلی اور چکمہ دے کر وہاں سے نکل آئے۔ یہاں تک تو ہم یہی سمجھتے رہے کہ کوئی جنگلی بھینسا ہوگا، جو اچانک ہمارے راستے میں آگیا تھا، مگر کچھ دور چل کر ایسا لگا، جسے ٹفن ہلکا ہوگیا ہو، میں نے غفار کو بتایا، تو اس نے کہا، ’’سیدھے گھر چلو، وہاں جاکردیکھ لیں گے۔‘‘ گھر آکر ہم نے دیکھا کہ آپ گہری نیند سو رہے ہیں۔ میں نے ٹفن کھولا، تو میری آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں، ٹفن میں کچھ بھی نہیں ، صرف آدھی روٹی پڑی ہے، ہماری تو جان ہی نکل گئی، پھر واپس جاکر دوبارہ کھانا بنواکر لانے کا سوچا اورہمّت کرکے باہر نکلے، تو دور سے کتّوں کے غول آتے دکھائی دیئے۔ وہ غرّاتے اور شوروغل کرتے ہماری طرف آرہے تھے۔ ہم نے واپس دوڑ لگادی۔ کتّے دروازے تک آگئے تھے، لیکن ہم دروازہ بند کرچکے تھے، اس لیے بچت ہوگئی۔‘‘

دادا کو ان کی کہانی پر یقین نہیں آیا، مچھلی ان کی کم زوری تھی اور وہ کئی دن سے ملازموں سے مچھلی پکواکر لانے کی فرمائش کررہے تھے۔ ٹفن منگواکر دیکھا، تو وہ واقعی خالی تھا۔ ٹفن خاصا بڑا، چار ڈبوں والا تھا، واپسی پر اس میں وہ ناشتے کے لیے ڈبل روٹی اور انڈے بھی بھرکر لایا کرتے تھے، لیکن اب اس میں انڈے تھے، نہ ڈبل روٹی، اور نہ ہی مچھلی اور نان۔ دادا نے گھور کر ان دونوں کو دیکھا اور پوچھنے لگے، ’’سچ بتائو، یہ سب چیزیں کِسے دے کر آئے ہو؟‘‘وہ دونوں قسمیں کھانے لگے، لیکن پھر بھی انہیں ان دونوں کی باتوں پر قطعی یقین نہیں آیا۔ اگلے روز دادا خود ان کے ساتھ بستی چلے گئے اور وہیں سے کھانا کھا کر ناشتے کا سامان لے کر آئے، راستے میں ایسا کچھ دکھائی نہیں دیا کہ وہ خوف زدہ ہوتے، تیسرے روز انہوں نے ان دونوں کو ڈانٹ ڈپٹ کر کھانا لانے بھیج دیا۔ 

مغرب کے بعد جب اندھیرا بڑھ گیا، تو انہوں نے لالٹین جلائی اور چھت پر آگئے اور ایک کونے میں چار پائی بچھا کر لیٹ کے، لالٹین کی مدھم لَو میں ستاروں کا نظارہ کرتے کرتے غنودگی میں چلے گئے۔ ابھی چند ساعتیں ہی گزری ہوں گی کہ اچانک شور وغل سے ان کی آنکھ کھل گئی۔ یوں معلوم ہورہا تھا، جیسے دور کہیں کسی کی بارات جارہی ہو، منظر مزید واضح ہوا، تو دادا نے دیکھا، وہ واقعی بارات تھی۔ مرد و خواتین اور بچّے بھڑکیلے کپڑوں میں ملبوس گھوڑوں پرسوار تھے، مَردوں کے ہاتھوں میں قدیم زمانے کی مشعلیں تھیں اور خواتین کے ملبوسات کی چمک دمک دور سے نگاہوں کو خیرہ کررہی تھی، عورتوں کے گیتوں کی آوازیں اس ویران جگہ پر دور دور تک سنائی دے رہی تھیں۔ دادا سمجھے کہ یہ کسی رئیس کی بارات ہے، جو پاس کےکسی گائوں جارہی ہے۔ 

وہ لوگ ریل کی پٹریوں کے ساتھ بہت آہستہ آہستہ چل رہے تھے۔ جب وہ تھوڑا اور قریب پہنچے، تو دادا جان سوچ میں پڑگئے کہ ایسے قدیم زمانے کی ملبوسات، جن کے شیشے اور موتی دور سے شعائیں پھینک رہے ہیں، موجودہ زمانے میں تو ہرگز پہنے نہیں جاتے، اور پھر بہت سے سواروں کے ہاتھوں میں چمکتی تلواریں بھی تھیں، بارات کے سب سے آگے ایک گھڑ سوار، تیر کمان سے لیس تھا اور اس کا گھوڑا بہت تنومند تھا۔ جب بارات ٹھہر جاتی، تو وہ گھڑ سوار اِدھر ادھر کا جائزہ لینے کے لیے آس پاس دوڑنے لگتا ۔ اس نظارے نے دادا کو مبہوت کردیا۔ پھر اچانک سب سے آگے چلنے والا گھوڑا بدک کر زور زور سے ہنہنانے لگا، اور رفتار پکڑ کرسیدھا دادا کے گھر کا رخ کیا۔ پھر چند ہی منٹوں میں وہ عین اس جگہ آکر نیچے کھڑا ہوگیا، جہاں اوپر سے دادا بارات کا نظارہ کررہے تھے۔ گھڑ سوار نے اوپر گردن اٹھائی، تو دادا جان نے فوراً بلند آواز میں پوچھا ’’بھائی! یہ کس کی بارات ہے؟‘‘

وہ گھڑ سوار، جو گردن اٹھا کر اِدھر ادھر دیکھ رہا تھا، اس نے دادا کی آواز پر ان کی طرف دیکھا۔ دادا بتاتے ہیں کہ اس کی آنکھیں سنگترے کی پھانک جیسی تھیں، پھر جیسے ہی دادا اور گھڑ سوار کی نظریں آپس میں ٹکرائیں، سارا منظر یک لخت دھوئیں میں تحلیل ہوگیا، گیت گاتی عورتوں کی آوازیں تیز چیخوں میں بدل گئیں اور گھڑ سوار یکے بعد دیگرے زمین پر گرنے لگے۔ دادا نے گھبراکر اپنی آنکھیں ملیں کہ شاید یہ ان کی نظر کا قصور ہو، مگر جب دوبارہ آنکھیں کھولیں تو منظر غائب ہوچکا تھا، وہاں بارات کا قافلہ تھا، نہ ہی روشن مشعلوں کا کوئی نشان۔ چاروں طرف گھپ اندھیرے کا راج تھا، اندھیرے نے پوری روشنی نگل لی تھی، گھوڑوں کی ہنہناہٹوں اور عورتوں کی چیخ وپکار کی جگہ گہرے سنّاٹے نے لے لی تھی، جیسے یہاں کبھی کوئی تھا ہی نہیں۔ یہ سارا کھیل چند منٹوں میں ختم ہوگیا۔ دادا آنکھیں ملتے رہ گئے۔ ان کے ماتھے سے تیزی کے ساتھ خوف کا پسینہ پھوٹ رہا تھا، وہ جو ساری عمر، ایسی باتوں کا مذاق اڑاتے آئے تھے، خود ایک ایسے منظر کا حصّہ بن گئے تھے، جس کا کوئی وجود ہی نہیں تھا، انہیں چکّر سے آنے لگے، اپنے کمرے تک بہ مشکل پہنچے اور بیڈ پر گرتے ہی بے ہوش ہوگئے۔

ملازم کھانا لے کر آئے، انہیں جگانے کی کوشش کی، لیکن وہ نہیں اٹھے، تب انہیں دادا کی بے ہوشی کا علم ہوا، صبح تک بہ مشکل ہوش میں آئے۔ ملازموں کو کچھ نہیں بتایا اور پھر کوشش کرکے جلدازجلد وہاں سے اپنا تبادلہ کروالیا۔ اس واقعے کے بعد دادا نے بھوت پریت اور جنوں کے بارے میں قصّے کہانیوں کی مخالفت یک سَر بند کردی۔ کہتے تھے، واقعے کی سچائی تو بتانے والے پر منحصر ہوتی ہے کہ وہ اس میں کتنا جھوٹ اور سچ ملاکر بیان کرتا ہے، مگر اس نادیدہ مخلوق کی دنیا میں موجودگی کا مَیں عینی شاہد ہوں، لہٰذا جھٹلا نہیں سکتا۔

(رجا، لاہور)

تازہ ترین
تازہ ترین