• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
اسرائیل آئینی طور پر یہودی ریاست بن گیا

کہاجاتا ہے کہ دنیا میں صرف اسرائیل اور پاکستان ایسے ممالک ہیں جو مذہب کے نام پر قائم ہوئے۔ گوکہ پاکستان بہت پہلے اپنے آپ کواسلامی ریاست قرار دے چکاہے،تاہم اسرائیل نے اب اس سمت میں قدم اٹھایا ہے کہ اسرائیل کو باقاعدہ یہودی ریاست بنادیا جائے ۔

اسرائیل کی پارلیمان نےانیس جولائی کوایسے متنا ز ع قانون کو منظوری دی ہے جس کے تحت اسرائیل کو آئینی اور قانونی طور پر یہودیوں کی ریاست بنادیا جائے گا۔ جو لوگ اب تک اس بات پر نازاں رہے ہیں کہ اسرائیل بہ ہرحال ایک جمہوری ملک ہے اور سائنس اورٹیکنالوجی کے شعبوں میں بہت آگے ہے،انہیں اب یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ صرف انتخابات کراکر اور جدید سائنس میں در جنو ں نوبیل انعام لے کر کوئی ملک حقیقت میں جمہوری نہیں بن جاتا۔جس طرح پاکستان میں ایسی کئی سیاسی جماعتیں موجود ہیں جو بہت باقاعدگی سے اپنی جماعت میں انتخا با ت کراکر اپنے سربراہ منتخب کرتی ہیں، مگر ہر دور میں آمر و ں کی حمایت کرتی رہی ہیں، اسی طرح اسرائیل انتخابات تک تو جمہوری رہا ہے، مگر اس نے خود اپنے ملک میں جو یہودیوں کاہے بھی نہیں،مقامی عرب باشندوں کی زندگی اجیرن کررکھی ہے۔

ہر جمہوری ملک کا آئین وقانون کم ازکم کاغذ پر اس بات کا اعلان کرتا ہے کہ اس مملکت کی نظر میں تمام شہری برابر ہیں اور کسی سے بھی رنگ ونسل ومذہب وفرقے کی بنیاد پر امتیازی سلوک نہیں کیا جائے گا ۔ مگر اسرائیل نے اب یہ تکلف بھی ختم کردیا ہے اور اس کے نئے قانون میں جمہوریت اور مساوات کا کہیں ذکر نہیں ہے۔واضح رہے کہ اسرائیل کی تقریباً ایک کروڑ کی آبادی میں بیس لاکھ کے قریب عرب شہری آباد ہیں اور اب انہیں بڑا خطرہ لاحق ہوگیا ہے کہ انہیں قانونی طور پر دوسرے درجے کا شہری بنادیا گیا ہے۔

ایسی بات نہیں ہے کہ اسرائیل کی پا ر لیمان میں تمام ارکان اس امتیازی قانون کے حامی تھی ۔ رائے شماری کے وقت یہ قانون صرف سات ووٹس کی اکثریت سے منظور کیاگیا یعنی اس کی حمایت میں باسٹھ اور مخالفت میں پچپن ووٹ آٗے۔ خود اسرائیل کے صدر روون ریولن(Revven Rivlin)نے وزیر اعظم بن یامین نیتن یا ہو کو خبردار کیا تھاکہ اس قانون کی منظوری سے جمہو ر ی اصولوں کی صریح خلاف ورزی ہوگی کیوں کہ آج کی دنیا میں کسی بھی ملک کو صرف ایک مذہب سے وابستہ ریاست قرار دینا ٹھیک نہیں ہے۔

اسرائیل کے اسّی سالہ صدر ریولن خو حکم راں لیکو د پارٹی سے تعلق رکھتے ہیں اور اس سے قبل دومرتبہ اسرائیلی پارلیمان کے اسپیکر بھی رہ چکے ہیں۔ مگر اس بار انہوں نے دوٹوک الفاظ میں اپنی پارٹی سے اختلاف کیا ہے۔ عبرانی زبان میں لیکور کا مطلب ہے استحکام۔ اس طرح یہ پارٹی استحکام کی بات تو کرتی ہے مگر تمام شہریوں کے لیے نہیں بلکہ صرف یہودی شہریوں کے ہے۔

لیکودپارٹی روایتی طور پر سیکولرپارٹی سمجھی جاتی رہی ہے جس کا قیام 1973میں عمل میں آیا تھا۔ایریل شیرون نے دائیں بازو کی کئی جماعتوں کو ملا کر یہ جماعت تشکیل دی تھی جو بہت جلد عوام میں مقبول ہوگئی تھی اور1977کے انتخابات میں بھاری اکثریت سے کام یا ب ہوگئی تھی ۔ وہ اسرائیل کی تاریخ میں پہلا موقع تھا اقتد ا ربائیں بازو کے ہاتھ سے نکل کر لیکود پارٹی کے ہاتھ میں آیاتھا۔اس جماعت نے 1980کے پورےعشرے میں حکومت کی مگر 1992میں ہارگئی تھی۔

اسرائیل آئینی طور پر یہودی ریاست بن گیا

پھر 1996 میں بن یامین نیتن یا ہوکی سربراہی میں لیکودپارٹی نے ایک بارپھرانتخاب جیت کر حکومت بنائی تھی جو1999 تک چلی تھی۔اب موجودہ وزیر اعظم نتین یاہو2009 سے برسر اقتدار ہیں اور مجموعی طور پر تقریباً تیرہ سال اسرائیل کے وزیر اعظم رہ چکے ہیں۔ اس طرح عن قریب وہ اسرائیل کے پہلے وزیر اعظم ڈیوڈ بن گوریان کا ریکارڈ توڑنے والے ہیں جو پہلے 1948سے1954تک اور پھر1955سے1963تک وزیر اعظم رہےتھے۔ 

نتین یاہو اپنے موجودہ دور حکومت میں بہ تدریج مزید قوم پرست ہوتے گئے ہیں اور انہوں نے کئی ایسے اقدام اٹھائے ہیں جنہوں نے اسرائیل کو مزید قدامت پرستی اور دائیں بازو کی طرف دھکیلا ہے، خاص طور پر امریکا میں صدر ٹرمپ کے برسر اقتدار آنے کے بعد تو جیسے اسرائیل بالکل ہی بے قابو ہوگیا ہے۔ ایک طرف تو غزہ کی پٹی میں رہنے والے فلسطینیوں پر بار بار حملے کیے جارہے ہیں، ان کےلیےبجلی اور پانی کی شدید قلت پیدا کردی گئی ہے اوردوسری طرف اسرائیل کا دارالحکومت یروشلم منتقل کر نے کے فیصلے پر امریکی حمایت سے عمل درآمد شروع ہوگیا ہے۔

اب اس نئے قانون کے تحت اعلان کیا گیا ہے کہ اسرائیل تاریخی طور پر یہودیوں ہی کی سرزمین ہے اور ا س میں حق خودارادیت صرف یہودیوں کے لیے ہی مخصو ص ہے۔یعنی وہ اپنی مرضی کے فیصلے کرکے غیر یہو د یو ں پر انہیں مسلط کرسکتے ہیں۔ عملی طورپر تو اسرائیل پچھلے ستّر برسوں سے اپنے فیصلے خود کرکے عربوں پر مسلط کرتا رہا ہے، مگر اب اس تسلط کو قانونی شکل دے دی گئی ہے جس سے عرب آبادی شدید پریشانی کا شکار ہوگئی ہے۔ اس نئے قانون میں یہ اعلان بھی کیا گیا ہے کہ مزید ایسی بستیاں بنائی جائیں گی جو صرف یہودیوں کے لیے ہوں گی اور جہاں کسی مسلم یا عیسائی عرب کو بسنے کی اجازت نہیں ہوگی ۔ ساتھ ہی عربی کو ایک قومی زبان کے درجے سے ہٹا کر صرف عبرانی زبان کو قومی اور سرکاری زبان قرار دے دیا گیا ہے۔ اس طرح اب اسرائیل کے سارے باشندوں،بہ شمول عربوں کے لیے عبرانی زبان سیکھنا لازمی ہوجائے گا۔

دکھ اور افسوس کی بات یہ ہے کہ یہ یہودی ستّر، اسی سال قبل یورپ میں ہٹلر اور نازی جرمن کے ہا تھو ں بد تر ین امتیازی سلوک بھگت چکے یں۔ نہ صرف یہ بلکہ تاریخی طور پر یہودیوں کو یورپ میں خاص طور پر بڑے ظلم وستم کا نشانہ بنایا جاتا رہا ہے اور ایسا زیادہ تر مسیحی ریاستوں نے کیا ہے جب کہ اسلامی ممالک میں تاریخی طورپریہودی بہت زیادہ محفوظ رہے ہیں بلکہ مختلف ادوار میں بڑے سر کا ری عہدوں پربھی فائز رہے ہیں۔ مگر ا ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ان یہودیوں نے تاریخ سے کوئی سبق سیکھا ہے اور نہ اب اپنا غلط راستہ بدلنے کو تیار ہیں۔

دوسری جنگ عظیم کے بعد ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ خود یورپ میں یہودیوں کے لیے ایک ریاست تشکیل دی جا تی ۔ خاص طور پر جرمنی سے کچھ علاقہ لے کر ایسا کیا جاسکتا تھا ۔مگر امریکا اور برطانیہ جیسی بڑی طاقتوں نے یہودیوں کو ایک ایسے خطے میں مملکت بناکردی جس کا یہودیوں پر ظلم وستم سے کوئی تعلق نہیں تھا، بلکہ فلسطین کے عرب تو آ نے والے یہودیوں کو خوش آمدید کہتے رہے تھے ،کیوں کہ انہیں معلوم تھاکہ یورپ میں ان کی زندگی اجیرن کر د ی گئی تھی۔ مگر اس ہم دردی کا صلہ یہ ملا کہ یہودیوں نے اپنے میزبان ملک،یعنی فلسطین پر قبضہ کرکے اسے ا سر ا ئیل بنادیا۔

مذکورہ قانون کی منظوری کےبعدنتین یاہونے وا شگا ف الفاظ میں کہا کہ یہ اسرائیل کی تاریخ کا فیصلہ کن موڑ ہے جب اسرائیل صرف اہلِ یہود کی مملکت ہوگی،یعنی اب یہ سرکاری طور پر ایک یہودی ریاست کہلائے گی ۔ اس وقت اسرائیلی پارلیمان کے ایک سوبیس ارکان میں سےصرف سولہ عرب ہیں جنہوں نے اس قانون کی منظو ر ی پرشدیداحتجاج کیا اور کہاکہ یہ جمہوریت کا خاتمہ ہے اور اب اسرائیل سرکاری طورپر فسطائیت اور نسل پرستی کی راہ پر چل پڑا ہے جس سے خود اسےاور اس خطے کو بڑا نقصان ہوگا۔یادرہے کہ1948میں اسرائیل کے قیام کے بعد بڑی تعداد میں اس خطے کے عرب باشندوں کو وہاں سےنکال دیا گیا تھا۔ 

مگر بہت سے عرب وہاں رہ گئےتھےجو اب اسرائیل کے شہری ہیں، مگر اب انہیں دوسرے درجے کا شہری بنادیا گیا ہے۔ عربوں کا کہنا ہے کہ اس قانون سےپہلے بھی پینسٹھ ایسے قوانین موجود تھے جنہیں اسرائیل فلسطینیوں کے خلاف استعمال کرتا رہا ہے ۔تاہم اس قانون سے پہلے اسرائیل کم ازکم آئینی اور قا نو نی طورپر سیکولر ملک تھا جس میں آئینی طورپربلا تفریقِ نسل ومذہب سب کو مساوی حقوق حاصل تھے ۔مگر اب سب کچھ بدل گیا ہے۔

تازہ ترین