• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
,

امامِ مسجد کا مشاہرہ اور دیگرمصارف کیا ہونے چاہیئے؟

تفہیم المسائل

سوال: امریکہ اوربرطانیہ میں ہرملازم کو ٹیکس دینا پڑتا ہے ،یہاں مساجد میں امامت وخطابت کے لیے بیرون ملک سے علماء بلائے جاتے ہیں ، ان کےقانونی ویزا لگنے میں وقت اور اخراجات کافی لگتے ہیں ۔معلوم یہ کرناہے کہ :

1۔ اگر مسجد فنڈ سے امام کے ویزا اور لیگل کارروائی کا خرچہ دیا جائے، جبکہ یہ بات پہلے سے طے ہوئی ہو تواس کا شرعی حکم کیاہے ؟

2۔ مسجد انتظامیہ اور امام صاحب کے درمیان یہ طے پایاکہ تنخواہ کے ساتھ جو سال بھر کا ٹیکس بنتاہے،وہ بھی مسجد انتظامیہ اداکرے گی ،کیاایساکرنا جائز ہے ؟

3۔ مُتولیٔ مسجد نے کہا :ہم بھی مسجد کی بہت ڈیوٹی کرتے ہیں ، توکیاہم اپنے بل مسجد کے فنڈ سے لے لیں ؟ ان کا امام پر ایساقیاس کرنا کیساہے ؟(مدثر حسین قادری ،نیویارک ،امریکا)

جواب: مساجد کے عطیات کا ایک بڑا حصہ صدقاتِ نافلہ سے ہوتاہے یا مسجد پر وقف سے حاصل ہونے والی آمدنی سے۔مساجد کے عطیات میں یہ امرمعروف ہے کہ یہ مسجد کے مصارفِ جاریہ کے لئے ہیں ۔اُن مصارفِ جاریہ میں مسجد کی تعمیر ومرمت ،توسیع، مسجد کے یوٹیلیٹی بلز(بجلی،گیس اورپانی وغیرہ کے) ، ضرورت کے وقت رنگ وروغن ،دریاں ،قالین ،ٹیوب لائٹس ،پنکھے ،پانی وسیوریج کا نظام ،عملے کی تنخواہ اوردیگر مصارف شامل ہوتے ہیں ۔ اگر مسجد انتظامیہ نے بیرونِ ملک سے آنے والے مسجد کے امام کے لیے شرائطِ ملازمت طے کر رکھی ہیں ،جن میں اُن کی ویزا فیس اورویزے کے حصول کے لیے قانونی کارروائی کے اخراجات وغیرہ شامل ہیں اور مسجد فنڈ میں گنجائش بھی موجود ہے اور عطیات دینے والوں پر بھی یہ مقاصد واضح ہیں،توجائز ہے ۔

اگر مسجد انتظامیہ نے امام کے ساتھ اجارہ کرتے وقت امام کو اداکردہ مشاہرے پر سرکاری ٹیکس کی ادائی اپنے ذمے لی ہے ،تومسجد فنڈ سے اس کا اداکرنا جائز ہے، اس کی دو صورتیں ہوسکتی ہیں : ایک یہ کہ ٹیکس کے مساوی رقم امام کی تنخواہ میں شامل کرلی جائے اور امام خود اپنا ٹیکس اداکرے۔ دوسری یہ کہ مسجد انتظامیہ براہ راست خود ٹیکس اداکرے،جیساکہ بعض کمپنیوں میں مجموعی تنخواہ اور اداکردہ تنخواہ میں فرق ہوتاہے ،بہت سے ادارے اپنے ملازمین کے مشاہروں سے ٹیکس وضع کر کے اسے حکومت کے خزانے میں جمع کراتے ہیں ۔ 

انتظامیہ اپنے صوابدیدی اختیارات سے اضافہ کرسکتی ہے ،تنویرالابصار مع الدرالمختار میں ہے :ترجمہ:’’ وقف سے امام کی جو تنخواہ مقرر ہے ،اگر وہ ناکافی ہے اور امام مُتقی عالم ہے ، تو قاضی اس میں اضافہ کرسکتا ہے ،(جلد13، ص:659،دمشق ) ‘‘۔

صدرالشریعہ علامہ امجدعلی اعظمی لکھتے ہیں: ’’ اوقاف سے جو ماہوار وظائف مقررہوتے ہیں ،یہ من وجہ اُجرت ہے اور من وجہ صلہ،اُجرت تویوں ہے کہ امام وموذن کی اگر اثنائے سال میں وفات ہوجائے توجتنے دن کام کیاہے ،اُس کی تنخواہ ملے گی اورمحض صلہ ہوتاتو نہ ملتی اور اگر پیشگی تنخواہ ان کو دی جاچکی ہے ، بعدمیں انتقال ہوگیا یا معزول کردیے گئے توجو کچھ پہلے دے چکے ہیں ،وہ واپس نہیں ہوگا اور محض اُجرت ہوتی توواپس ہوتی ،(بہارِ شریعت ، جلداول ، ص:545)‘‘۔

مُتولی نے اگر اپنی ذاتی آمدنی سے وقف قائم کیاہے اور اس کی آمدنی کے ذرائع بھی اسی نے قائم کیے ہیں اور وقف کرتے وقت یہ شرط لگائی تھی کہ وہ اپنے مصارف (جو بھی اس نے طے کیے ہوں) وقف کی آمدنی سے وصول کرے گا تو وہ ایسا کرسکتاہے، البتہ اگر عوام کے چندے اور عطیات سے مسجد کے مصارف چلتے ہیں تواُن سے اِس کی عمومی اجازت لینا ضروری ہے، ورنہ جائز نہیں ہے ۔ وقف کرنے والے کو شریعت نے یہ حق دیا ہے کہ وہ مصارفِ وقف کا تعیّن کرے اور اس سلسلے میں اسلامی فقہ کا مسلّمہ اصول ہے: شَرطُ الْوَاقِفِ کنَصِّ الشَّارِع،’’یعنی واقف کی مقررہ شرائط شارع کی نَصّ کی طرح شرعاً مؤثر ہوتی ہیں،( ردالمحتار علیٰ الدرالمختار، جلد13،ص:651، دمشق)‘‘۔

تازہ ترین
تازہ ترین