• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

وہ لڑکی مر گئی جو لفظوں کی حرمت کیلئے ہزاروں میلوں کا سفر کیا کرتی تھی۔ اسے پتہ تھا کہ لفظ کیا ہوتے ہیں۔ خاص طورپر چھپا ہوا لفظ۔ وہ ہر وہ چیز لکھنا چاہتی تھی جو انسان بیان کر سکتا ہے۔ اور جو بیان نہیں بھی کرسکتا۔ انسانوں کے اندر سے کہانیاں ڈھونڈا کرتی۔ درد میں ڈوبی کہانیاں۔ شہر شہر گائوں گائوں صحرا بہ صحرا، میلے ٹھیلے، درگاہیں، مقبرے، سمادھیاں ، مسان (جہاں ہندو اپنے مرے ہوئوں کی آخری رسمیں کیا کرتے ہیں) ۔ وہ خاص طور عورت کے درد کو جوں کا توں کاغذ پر، اسکرین پر، اگلے زمانوں کی سیلولائڈ پر، ڈیجیٹل کیمرےپر اتارنا چاہتی تھی۔ وہ لکھاری تھی، صحافی تھی۔ مسافر ہ لکھاری، ٹریول رائٹر قرۃ العین علی خان المعروف عینی علی خان جو اکیس بائیس جولائی کو کراچی میں ایک فلیٹ (جو وہ کسی دوست کے ساتھ شیئر کر رہی تھی) میں اپنے کمرے میں مردہ پائی گئی۔ کراچی پولیس نے چوبیس گھنٹوں سے بھی کم عرصے میں عینی کی موت کو ’’ممکنہ خودکشی‘‘ قرار دیدیا۔
قرۃالعین علی ہم دوستوں کیلئے عینی تھی۔ میں اسے عینی صاحبہ کہتا۔ اس کے مرنے پر میٖڈیا نے اسے محض ’’سابق ماڈل ‘‘ لکھا۔ عینی نے لکھنے کے اور صحافتی کیریئر کے پیچھے اپنی ماڈلنگ اور ایکٹنگ کے طوفانی اور گلیمر والے کیریئر کو نہ فقط خیر باد کہا بلکہ سکھ اور آسائشیں بھی تیاگی۔ بس وہ کہانیاں ڈھونڈنا چاہتی تھی۔ مصائب کی ماری عورتوں کی کہانیاں۔ وہ فیمینسٹ نہیں تھی اور نہ کوئی ممی ڈیڈی کلاس کی۔ بس وہ عورت کو انسان سمجھتی تھی اور چاہتی تھی عورت کو اور بھی انسان سمجھیں۔ غریب اور لاوارث عورتیں، دربدر خانہ بسر عورتیں، خوشحال لیکن دُکھی عورتیں وہ بس لکھنا چاہتی تھی۔ لیکن لکھنے سے قبل وہ در در اور گائوں گائوں شہر شہر خاک چھانا کرتی۔ کراس چیک، ڈبل چیک، ٹھوک بجا کر ہر بات کا یقین کرنا چاہتی کہ وہ کتنا سچ ہے۔ وہ ان زمانوں مکانوں کا پیچھا کرنا چاہتی تھی جو گزر گئے۔ گمشدہ جنتیں بن گئے۔ لاہوت لامکان کے جبلوں غاروں سے لیکر وہ لیاری کی گلیوں میں پھرتی لڑکی۔
ایک دفعہ نیویارک میں عینی سے میں نے پوچھا کہ تمہیں توسب پتہ ہے کہانی کیسے لکھی جائے۔ صحافتی مضمون کیا ہوتا ہے؟ پھر تم کولمبیا یونیورسٹی میں علم بشریات یا اینتھروپولوجی کی کلاسیں کیوں لے رہی ہو؟ ’’حسن صاحب! میں اپنی لیاری اسٹوری سے پہلے سمجھنا چاہتی ہوں کہ زندگی کی کہانیاں کس طرح لکھی گئی ہیں۔ کس طرح لکھی جاتی ہیں۔‘‘ وہ گولی کھانے والے آدمی کی کراہ اور چیخ کو تو کاغذ پر اتار نہیں سکتی تھی لیکن انکے پیچھے مرگئی زندگیوں کو کہانیوں کا روپ دینا چاہتی تھی۔
وہ لیاری گینگ وار کے زمانے میں لیاری کی گلیوں میں اس گروہی جنگ کے شکار لوگوں اور خاص طور عورتوں کے مصائب اکٹھے کر رہی تھی۔ دیر دیر تک لیاری کی تنگ و تاریک گلیوں میں رات گئے گھومتی رہتی۔ جہاں جب دن کے وقت بھی اچھے خاصوں کو جانے کی ہمت نہیں پڑتی تھی۔ یہ لڑکی واقعی وہ قلندر تھی جو ان گولیوں سے گونجتی سنسناتی مرتی گلیوں میں دھمال ڈال رہی تھی۔ اپنے قلم کا دھمال۔
اک دن اس نے مجھے بتایا اب وہ لیاری نہیں رہا جو تم چھوڑ کر گئے تھے۔ واقعی لیاری اب وہ لیاری نہیں رہا تھا جب سے وہاں سے نادر شاہ عادل جیسے لوگ لیاری چھوڑ کر چلے گئے تھے۔ وہ شیرشاہ روڈ پر مرتے بند ہوتے ملباری ہوٹلوں پر لمبی چوڑی کہانی لکھنے گئی تھی۔ وہ بلوچ خاتون لوک شاعرہ اور نادر شاہ عادل کی والدہ بانل دشتیاری کی شاعری کی بڑی مداح تھی۔ اسی لیے تو لیاری والوں نے اسے لیاری پر جان چھڑکنے والی لڑکی کہا۔ عینی این جی اوز بیگمات نہیں تھی۔نہ ہی کوئی بڑی گاڑی پر سفر کرنے والی جو لیاری کی گلیوں میں نہیں جا سکتی۔ نہ وہ پروجیکٹ زدہ۔ بس کہانیوں سے اسے عشق تھا۔ انسان کی کہانی سے۔ بلوچوں اور بلوچ عورتوں سے۔ دردمند دلوں سے۔ اس نے مجھے لکھا اس نے تھر دیکھا اور وہ اس پر عاشق ہو چکی ہے۔وہ چھاچھرو کے قریب امدان چارن سے کئی گھنٹوں اسکی داستانیں سنتیں۔ جب امدان چارن سے ملکر وہ نیویارک آئی تو اس کی داستانوں سےسے سحر زدہ ہوچکی تھی۔ وہ ستیوں کے قبرستان گئی اور وہاں کے گوٹھ کی عورتوں کے ساتھ ایسی گھل مل گئی کہ وہ اسے قبرستان دکھانے ساتھ لے گئیں۔ عینی لیاری میں ممباسا اسٹریٹ، میراں پیر، کھارادر میں پیر کی مزار جہاں صرف عورتیں جاتی ہیں۔ جو اپنا درد اور من کی مرادیں صرف عورت کو ہی بتا سکتی ۔ جہاں بینظیر بھی جاتی تھی۔ پھول مولود کی رسم تک عینی گئی۔ وہ سندھ میں جیلوں کے باہر چبوتروں کے نیچے دھوپ،سردیوں اور بارش میں انتظار کرتی ان عورتوں کے ساتھ کھڑی رہتی۔ کیونکہ وہ ان عورتوں کی زندگیوں پر بھی لکھ رہی تھی جن کے مرد جیل چلے جاتے ہیں۔
وہ لیاری کا پیچھا کرتی امریکی ریاست کنیکٹیکٹ میں لیاری کے جم پل اردو کے ممتاز و منفرد شاعر یگانہ روزگار دانشور کنارہ کش نیم میم دانش تک آ پہنچی۔ میں اور عینی گھنٹوں نون میم دانش کی کتاب ’’بچے تتلی اور پھول‘‘ پڑھاکرتے اور ان میں سے نظمیں چنتے جو عینی نون میم دانش کی زبانی ریکارڈ کرنا چاہتی تھی۔ وہ نون میم دانش اور لیاری پر فلم بنانا چاہتی تھی۔ لیاری پر شہرہ آفاق نظم سناتے اس نے نون میم دانش کو ریکارڈ بھی کیا تھا۔ نون میم دانش سے ملنے کو جاتے ہوئے ریل پر عینی نے مجھے اپنے آئی پیڈ پر سے ارجنٹائن کے ادیب و ناول لوئیس بورخیس کی وہ کہانی بھی سنوائی تھی جس میں لاہور اور وہاں کی مسجد بھی بتائی گئی ہے۔ عینی کہتی تھی کہ کہانی ایسے لکھی جاتی ہے جیسے لوئیس بورخیس نے لکھی ہے یا پھر جیسے میرا دوست محمد حنیف لکھتا ہے۔
عینی نے ہنگلاج ماتا کے میلے کے موقع پر ہنگلاج کا سفر کیا اور وہ کہانی اس نے لکھی۔ ’’ایک پاکستانی مسلمان کا ہندو زیارت گاہ کا سفر ‘‘ کے نام سے شائع ہوئی۔ عینی دادو ضلع میں جوہی کے پاس دوردراز کاچھو میں گاجی شاہ کے مزار پر بھی گئی جہاں سرندہ نواز عامل ’’عورتوں کے جن نکالنے‘‘کا دعویٰ کرتے ہیں۔ یا لوگ ان پر اسی طرح اعتقاد کرتے ہیں۔وہ ان عاملوں سے ملی۔ میرے دوست اور مقامی نوجوان صحافی محمد بخش ببر اور اس کے گھر والوں سے اور تمام محلے والوں سے اس طرح مانوس ہو گئی جیسے وہ برسوں سے وہیں رہ رہی ہو۔
عینی ایک دفعہ جون کے مہینے میں سبی بھی گئی۔ وہ ایک سے زیادہ بار شاہ نورانی کے مزار اور لاہوت کے سفر پر گئی۔ وہ ہر اس جگہ اور مکان و مقام جانا چاہتی تھی جہاں جہاں بھی شاہ عبد اللطیف بھٹائی گئے تھے۔ عینی اکثر مجھے کولمبیا یونیورسٹی کی لائبریری میں ملتی جہاں وہ سندھی کی کتابیں ڈھونڈا کرتی اور پھر مجھے پڑھنے کو کہتی۔ وہ ایسی ایسی سندھی کتابیں ڈھونڈکر نکالتی جو ناپید ہوا کرتیں۔ مجھے یاد ہے خورشید قائم خانی کی کتاب ’’بھٹکتی نسلیں‘‘ جو کہ تمام تر تلاش کے باوجود کہیں بھی نہیں ملی حتیٰ کہ لاہور میں کتاب کے پبلشر کے پاس بھی نہیں۔ لیکن اس دن عینی دھرتی پر سب سے خوش انسان نظر آر ہی تھی جب وہ کتاب بھٹکتی نسلیں اسے لاڑکانہ شہدادکوٹ کے پاس گیریلو شہر میں مقامی پڑھے لکھے نوجوانوں کی طرف سے قائم کردہ لائبریری سے ملی تھی۔ عینی بھی بڑی ہوکر خورشید قائم خانی بننا چاہتی تھی۔ اپنے زندگی کے آخری دنوں میں وہ اپنی اس کتاب پر کام کر رہی تھی جس کا عنوان ہے ’’ستیوں: وہ عورتیں جنہوں نے خود کو جلایا اور اسلامی ری پبلک آف پاکستان میں دیویاں کہلائیں۔‘‘ عینی کی یہ کتاب عنقریب آنیوالی ہے۔ جو عینی نے مجھے بتایا تھا امریکی پبلشر شائع کر رہا ہے۔ عینی جس کی زندگی قرۃ العین حیدر کے ناول ’’سیتا ہرن‘‘ کے کردار سیتا میرچندانی پر رک گئی تھی خطرناک اسائنمنٹ کیا کرتی۔ اس کا سب سے خطرناک اسائنمنٹ ان ونی کی گئی اور غیرت کے نام جلائی گئی عورتوں پر تھا جو ’’پاکستان کی گمشدہ بیٹیاں‘‘ کے عنوان سے ماہنامہ ہیرالڈ کے سرورق پر کہانی یا کور اسٹوری کے طور پر چھپا تھا۔ مجھے معلوم ہے عینی اس پر خوش نہیں تھی کیونکہ میڈیا کا پیٹ پھر بھی عورتوں کے اس ہولناک خاتمے سے نہیں بھرتا۔ وہ اور ایسی کہانیاں چاہتا ہے۔میڈیا صرف ہندسہ چاہتا ہے چار عورتیں جل گئیں وہ کہتا۔ ابھی عینی یہ اسٹوری لکھ ہی پائی تھی کہ پھر اس بیچ قندیل بلوچ بھی قتل ہوگئی۔ اور میڈیا پر اب غیرت کے نام پر قتل ہونیوالی ’’پانچ عورتیں‘‘ تھیں۔ بقول عینی کے استاد اور ہمارے دوست پروفیسر منان احمد آصف کہ ایسا ملک جہاں کوئی بھی سچ بات کہنا قومی سلامتی کے زمرے میں آتا ہو اور مرد کی عورت پر پڑنے والی ہر نظر اسے (عورت کو)خطرے سے دو چار کرتی ہو وہاں عینی کا مردہ پایا جانا کئی سوال ضرور اٹھاتا ہے۔
تو پس عزیزو ایک سقراط تھا جو لفظوں کی اہمیت اور حرمت پہ زہر کا پیالہ پی گیا اور ایک یہ ہماری عینی تھی جو درد کو لفظ لکھتی مر مٹی۔ جیتی رہو عینی صاحبہ۔

تازہ ترین