• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ملک میں ابھی تک پاکستان تحریک انصاف کی مرکز میں نئی جمہوری حکومت قائم نہیں ہوئی ہے لیکن اس سے پہلے اس کے خلاف ’’ عظیم تر ‘‘ ( گرینڈ الائنس ) قائم ہو گیا ہے ۔ یہ صورت حال نہ صرف جمہوری روایات کے منافی بلکہ ملک کے سیاسی استحکام کے لئے تشویش ناک ہے ۔ اگلے روز اسلام آباد میں سابق اسپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق کی رہائش گاہ پر آل پارٹیز کانفرنس ( اے پی سی ) کا انعقاد ہوا ، جس میں پاکستان پیپلز پارٹی ، پاکستان مسلم لیگ (ن) ، متحدہ مجلس عمل میں شامل مذہبی سیاسی جماعتوں ، عوامی نیشنل پارٹی اور دیگر سیاسی جماعتوں کے قائدین نے شرکت کی ۔ انہوں نے گرینڈ الائنس تشکیل دیتے ہوئے یہ فیصلہ کیا کہ وہ قومی اسمبلی میں وزیر اعظم ، اسپیکر اور ڈپٹی اسپیکر کے عہدوں کے لئے مشترکہ امیدوار لائیں گے ۔ اس گرینڈ الائنس میں وہ سیاسی جماعتیں شامل ہیں ، جو ماضی میں باری باری کبھی اقتدار اور کبھی اپوزیشن میں رہی ہیں ۔ ان کا تعلق دائیں اور بائیں بازو سے ہے اور وہ ایک دوسرے کی نظریاتی مخالف بھی رہی ہیں لیکن آج وہ سب پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کے خلاف متحد ہو گئی ہیں ۔ یہ صف بندی از خود کیفیتی تبدیلی کا مظہر ہے اور اس امر کی دلیل ہے کہ عمران خان ایک بلند قامت سیاست دان کے طورپر ابھرے ہیں ۔
عمران خان کی مخالف بڑی سیاسی جماعتیں ، جو باقاعدہ طور پر حزب اختلاف نہیں ہیں لیکن انہیں حزب اختلاف سے ہی تعبیر کیا جا رہا ہے ،پاکستانی سیاست کے بنیادی دھارے میں شامل رہی ہیں ۔ ان کا یہ رویہ جمہوری اور سیاسی روایات سے میل نہیں کھاتا ہے۔ عام انتخابات میں مبینہ دھاندلی کے حوالے سے انہوں نے جو رویہ اختیار کر رکھا ہے ، اسے درست ثابت کرنا ابھی باقی ہے ۔ صرف مفروضے کی بنیاد پر عوامی مینڈیٹ یا انتخابی نتائج کو مسترد کرنے کا کوئی جواز نہیں بنتا ہے ۔ اس حوالے سے پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کی بات زیادہ مدلل ہے ۔ ان کا کہنا یہ ہے کہ پیپلز پارٹی پہلے دھاندلی کے ثبوت جمع کرنے کے لئے فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی تشکیل دے گی ۔ اس کمیٹی کی رپورٹ کی روشنی میں آئندہ کا لائحہ عمل طے کیا جائے گا ۔ دیگر سیاسی جماعتوں کی بھی یہی اپروچ ہونی چاہئے ۔ عام انتخابات کا بار بار انعقاد ناممکن ہے ۔ پہلے بھی ہر الیکشن کے نتائج پر تحفظات کا اظہار کیا جاتا رہا ہے لیکن آج تک انتخابات میں منظم دھاندلی کو ثابت نہیں کیا جا سکا ہے ۔ اگر پہلے والے انتخابی نتائج کو تسلیم کیا جاتا رہا ہے تو اب بھی اس شرط پر تسلیم کیا جا سکتا ہے کہ مبینہ دھاندلی کی تحقیقات ہوں ۔
ممکنہ حزب اختلاف کی سیاسی جماعتوں کے قائدین نے پاکستانی سیاست کے بہت اتار چڑھاؤ دیکھے ہیں ۔ انہیں اس بات کا اچھی طرح اندازہ ہو گا کہ عمران خان کو انتخابات میں عوام کی طرف سے جو مینڈیٹ ملا ہے ، اس کے حقیقی اسباب موجود ہیں ۔ عمران خان اس وقت پاکستان کے انتہائی مقبول سیاسی رہنما ہیں ۔ انتخابات سے قبل سالہا سال سے ان کے عوامی اجتماعات اور جلسے ساری دنیا نے دیکھے ہیں ۔ انہوں نے عوامی رابطہ مہم کے ریکارد قائم کیے ہیں ۔ پیپلز پارٹی ، مسلم لیگ (ن) ، جماعت اسلامی اور جمعیت علمائے اسلام (ف) جیسی سیاسی جماعتوں کے دو جلسوں کے درمیانی عرصے میں عمران خان کے درجنوں جلسے منعقد ہوجاتے تھے ۔ ان جلسوں میں لوگوں نے ریکارڈ شرکت کی ۔ عمران خان کی مقبولیت اور عمران خان کی عوامی رابطہ مہم ان کے مینڈیٹ کی تصدیق کرتی ہیں ۔ ماضی میں بھی کچھ ایسے لوگوں کو مینڈیٹ ملے ، جس پر لوگ یقین کرنے کو تیار نہیں تھے ۔ اس وقت یہ صورت حال نہیں ہے۔ عمران خان مخالف سیاسی جماعتوں کی قیادت کو یہ بھی اندازہ ہے کہ نئی نسل کے سوچنے کا انداز بدل گیا ہے ۔ انہوں نے سوچ کی اس تبدیلی کو مدنظر نہیں رکھا ہے۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ ان سیاسی جماعتوں نے حکومتوں میں رہ کر وہ ڈلیور نہیں کیا ہے، جس کی عوام توقع کر رہے تھے ۔ عمران خان کی مقبولیت کا ایک سبب یہ بھی ہے ۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ عمران خان کے حامیوں سمیت پاکستان کے اکثر لوگ اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ عمران خان کی سیاست اقتدار یا دولت کی خاطر نہیں ہے ۔ دنیا یہ بھی جانتی ہے کہ ان کے سابق سسر جیمز گولڈ اسمتھ برطانیہ کے امیر ترین آدمی تھے ۔ ایک زمانے میں ان کا شمار دنیا کے دس امیر ترین لوگوں میں ہوتا تھا ۔ انہوں نے اپنی صاحبزادی جمائما سے عمران خان کی شادی کے لئے یہ شرط عائد کی تھی کہ عمران خان انگلینڈ میں مستقل سکونت اختیار کریں لیکن عمران خان نے انکار کیا ۔ جیمز گولڈ اسمتھ نے شادی کے بعد یہ پیشکش کی تھی کہ عمران خان ان کا کاروبار اور ان کی سیاست سنبھالیں لیکن انہوں نے اپنا ملک چھوڑنے سے انکار کیا ۔ جمائما سے ان کی علیحدگی کی وجہ بھی شاید یہی ہے کہ وہ اپنا وطن چھوڑنے کے لئے تیار نہیں تھے ۔ عمران خان نے سیاست میں آنے سے قبل صحت اور تعلیم کے شعبے میں قابل تقلید کام کیا ۔ شوکت خانم اسپتال اور نمل (NAMAL ٌ) جیسے ادارے قائم کیے ۔ وہ کہتے ہیں کہ انہیں اللہ تعالیٰ نے ہر نعمت سے نوازا ہے ۔ ان کے پاس دولت بھی اور شہرت بھی ۔ انہوں نے زندگی میں جو خواہش کی ، وہ انہیں ملا ۔ سیاست ان کا مشن ہے ۔ وہ اس ملک کے حالات تبدیل کرنا چاہتے ہیں اور اسے بہتر حکمرانی دینا چاہتے ہیں ۔ اصل بات یہ ہے کہ لوگ ان کی اس بات پر یقین کرتے ہیں ۔
عمران خان کی مقبولیت اور لوگوں پر ان کا یقین ایسے عوامل ہیں ، جو ان کے مخالف سیاست دانوں کے بیانیے کو غیر موثر کر دیتے ہیں ۔ اس وقت احتجاج کے لئے اسٹریٹ پاور بھی صرف عمران خان کے پاس ہے۔2014 اور 2016 کے دھرنوں نے یہ بات ثابت کر دی ہے ۔ ان کے مخالف سیاست دانوں کے پاس فی الحال احتجاجی تحریک چلانے کی صلاحیت بھی نہیں ہے۔ کچھ لوگوں کا تو یہ بھی کہنا ہے کہ قومی اسمبلی اور پنجاب اسمبلی کے لئے عمران خان کو کم نشستیں ملی ہیں ۔ ہوا کا رخ تبدیل ہے ۔ بہتر یہی ہے کہ نہ صرف حکومت سازی کے لئے عمران خان کی معاونت کی جائے بلکہ ان کی حکومت کو کام کرنے کا پورا موقع دیا جائے ۔ اس وقت عالمی اور علاقائی سطح پر بہت بڑی تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں ۔ پاکستان ایک بار پھر نازک صورت حال سے دوچار ہے۔ نئی صف بندیوں میں عالمی طاقتوں کی نظریں پاکستان پر ہیں ۔ سیاسی عدم استحکام اور داخلی انتشار پاکستان کے لئے انتہائی خطرناک ہو سکتے ہیں ۔ ویسے بھی اس وقت عمران خان کی سیاسی مخالفت کارگر نہیں ہو گی ۔ سیاسی مخالفت ضروری ہونی چاہئے لیکن مخالفت برائے مخالفت نہ ہو ۔ قوم کو عمران خان سے بہت توقعات ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ ان پر یقین بھی ہے ۔ ذوالفقار علی بھٹو کے بعد ایسی صورت حال پیدا ہوئی ہے ۔ عمران خان پر کرپشن کا کوئی الزام نہیں ۔ ان کے بارے میں کوئی یہ نہیں کہہ سکتا کہ وہ سیاست سے کوئی ذاتی فائدہ حاصل کرنا چاہتے ہیں ۔ لوگوں کو عمران خان کی قائدانہ صلاحیتوں پر بھی اعتماد ہے ۔ ’’ اپوزیشن ‘‘ کو چاہئے کہ وہ اس وقت کا انتظار کرے ، جب ان کی بات میں اثر پذیری کا عنصر پیدا ہو جائے ۔ قومی اسمبلی کے اسپیکر ایاز صادق کو اپنی رہائش گاہ پر آل پارٹیز کانفرنس کا انعقاد نہیں کرانا چاہئے تھا کیونکہ انہیں سیاسی طور پر اس وقت غیر جانبدار رہنا چاہئے ، جب تک وہ اسپیکر ہیں ۔ جہاں تک انتخابات میں دھاندلی کے الزامات کا تعلق ہے ، عمران خان کہہ چکے ہیں کہ وہ ہر حلقہ کھلوانے کے لئے تیار ہیں ۔ ملک بھر میں ویسے بھی درجنوں حلقوں کی دوبارہ گنتی ہو چکی ہے ۔ اب آگے کی طرف دیکھنا چاہئے۔

تازہ ترین